زاہدان میں بلوچ مظاہرین کی ہلاکت کے بعد بے امنی پھیل گئی، ایران سمیت دنیا بھر میں احتجاج

زاہدان (مانیٹرنگ ڈیسک) ایران کی حکومت کو کثیر الجہتی حملے کا سامنا ہے، طلباءکا احتجاج عام بدامنی میں بدل گیا اور دنیا بھر کے 150 شہروں میں ریلیاں نکالی گئیں۔ ہفتے کی صبح تقریباً 100 یونیورسٹیوں میں احتجاج اور ہڑتالیں سڑکوں پر مظاہروں میں بدل گئیں جبکہ طلباءکیمپس چھوڑ کر سڑکوں پر آگئے۔ ہفتے کے پہلے دن کلاسز دوبارہ شروع ہونے پر یونیورسٹیوں میں ہڑتال کے مناظر تھے۔ طلباءکیمپس میں داخل ہوئے لیکن لیکچرز میں شرکت سے انکار کر دیا۔ اس کے بجائے، انہوں نے احتجاج شروع کردیا۔ دوپہر کے اوائل تک انہوں نے سڑکوں پر آنا شروع کردیا اور عام لوگ ان کے ساتھ شامل ہوگئے، ایسا لگتا ہے کہ دارالحکومت تہران اور دیگر شہروں میں عام بدامنی ہے۔ یونیورسٹی کے دروازوں کے باہر ہجوم صبح سے ہی طلباءکی حمایت کے لیے موجود تھا لیکن دارالحکومت سے آنے والی ویڈیوز کے مطابق دوپہر کے بعد ان کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ ملک کے مغرب میں کرد قصبوں اور شہروں میں بھی عام ہڑتال شروع ہوگئی ہے اور دن بھر اور خاص طور پر شام کے وقت مزید سڑکوں پر مظاہرے متوقع ہیں۔ جمعہ کے روز جنوب مشرقی ایران کے شہر زاہدان میں درجنوں بلوچ مظاہرین کی ہلاکت نے ملک کو چونکا دیا اور دو ہفتے قبل احتجاج شروع ہونے کے بعد کسی ایک مقام پر یہ پہلا اجتماعی قتل تھا۔ اس نے جمعہ کی شام کو مظاہروں میں شدت پیدا کردی جو 16 ستمبر کو شروع ہوئے، جب ایک 22 سالہ خاتون مہسا امینی ایران کی حجاب پولیس کی حراست میں مہلک زخموں کے بعد ہسپتال میں دم توڑ گئی۔ ایک سوشل میڈیا اکاﺅنٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ جمعہ کو 42 افراد ہلاک ہوئے اور ان کے نام شائع کیے ہیں۔ ہفتہ کو آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جنوبی کوریا اور جکارتہ میں ایرانی مظاہرین کی حمایت میں ریلیاں نکالی جاچکی ہیں اور یورپ اور بعد ازاں شمالی امریکہ میں بہت سے بڑے اجتماعات ہو رہے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں