ریڑھی چلانے سے لیکر اٹلی تک کا سفر

تحریر: صادق سعید بلوچ
ویسے ہم سب نے یہ کہاوت تو سنی ہوگی کہ ”ہمت مرداں مدد خدا“۔ آج میں ایک نوجوان کی کہانی سنانے جارہا ہوں کہ جس نے اپنی غربت کو بہانہ بنا کر خود کو پڑھائی سے ہمکنار نہیں کیا بلکہ ہر مشکل کا سامنا کرکے خود کو تربت کے ایک چھوٹے گاﺅں ہیرونک سے اٹلی تک پہنچایا۔ جی ہاں وہ نوجوان ”عبدین پسند بلوچ“ ہے جو بچپن سے محنت کرکے خود کو پڑھائی کے میدان میں آگے لیجانے کی خواہش رکھتا تھا لیکن عبدین پسند بلوچ اس علاقے کے واحد نوجوان نہیں جو پڑھائی کا شوق رکھتے ہیں بلکہ بلوچستان کے دیگر علاقوں کی طرح کیچ کے 2 گاﺅں ہائی اسکول شاپک اور ہائی اسکول ہیرونک ہمیشہ اس دوڈ میں شامل ہوتے تھے، یہاں کے غریب لوگوں نے محنت مزدوری کرکے اپنے بچوں کو پڑھایا، اس لیے اب ان چھوٹے سے گاﺅں میں آپ کو کئی ڈاکٹرز، انجینئرز، وکیل، اور دیگر کئی افسران ملیں گے۔ اس کا کریڈٹ سب سے پہلے علاقے کے غریب والدین اور خاندان والوں کو جاتا ہے جنہوں نے ہر مشکل کا سامنا کرکے اپنے بچوں کو پڑھایا اور پھر ان اساتذہ کا جو سرکاری اسکول ہوتے ہوئے بھی اپنے پیشے سے مخلص رہے اور اپنی تمام تر معلومات طلبا کو دیتے رہے۔
عبدین بھی اسی علاقے میں پلا، بڑھا اور پڑھا۔ اس کے والد پسند بلوچ ریڑھی پر سامان لاد کر پورے علاقے میں گھوم کر فروخت کرتے تاکہ گھر کا خرچہ چل سکے۔ عبدین والد کا ہاتھ بٹانے کیلئے خود بھی ریڑھی چلاتا اور چھٹیوں کے وقت مزدوری کرتا تاکہ گھر کا خرچہ نکلنے میں مدد مل سکے۔ میٹرک تک تعلیم ہیرونک سے حاصل کرنے کے بعد اس کے ماموں حبیب نے ہمت کرکے اسے پڑھائی کیلئے کوئٹہ بھیجا (حبیب خود امارات میں مزدوری کررہا تھا)۔
پھر اسکا داخلہ اسکالر شپ کی بنیاد پر پنجاب کے شہر فیصل آباد میں ہوا اور وہاں اس نے 3 سال کا ڈپلومہ کیا۔ بیچلر کیلئے دوبارہ کوئٹہ آیا جہاں اس نے بیوٹمز میں داخلہ لیا۔ یاد رہے بیوٹمز بلوچستان میں ایک مہنگا تعلیمی ادارہ ہے مگر عبدین کے ماموں، بھائی اور خاندان کے دیگر لوگوں نے مل کر اس کی پڑھائی کا ذمہ اپنے اوپر لیا۔ چونکہ وہ خود پڑھائی کے معاملے میں سنجیدہ تھا اس لیے محنت سے وہ اپنی کلاس میں ٹاپ کرتا رہا جس کی بنیاد پر اسے میرٹ بیس پر اسکالر شپس ملتی رہیں اور اس دوران جب یونیورسٹی کی چھٹیاں ہوتیں تو وہ اپنے دادا کیساتھ علاقے کے کھیتوں میں کام کرتا۔
2016ءکو یونیورسٹی سے بیچلر کرنے کے بعد وہ ریلوے میں بطور سب انجینئر لگ گیا، پھر 2017ءکو بیوٹمز میں لیب انجینئر کا ٹیسٹ پاس کیا۔ کام کیساتھ ساتھ اسی دوران اس نے بیوٹمز میں ماسٹر کیلئے بھی داخلہ لیا۔
2019ءکو ماسٹر میں گولڈ میڈل لے لیا۔ 2022ءکو خضدار انجینئرنگ یونیورسٹی (تربت کیمپس) میں بطور لیکچرار تعینات ہوا اور اسی سال اس نے HEC فارن اسکالر شپس کا ٹیسٹ کلیئر کیا اور اسپین کی ایک یونیورسٹی میں داخلہ لیا لیکن کچھ وجوہات کی بنا پر اس نے جانے کا فیصلہ ترک کیا۔ پھر اٹلی میںگورٹمنٹ اسکالر شپ کیلئے اپلائی کیا، انٹرویو کلیئر کرنے کے بعد Padova یونیورسٹی میں اس کا داخلہ ہوگیا اور وہ اب اٹلی میں اپنی پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کررہا ہے۔
عبدین پسند بلوچ کے کا کہنا ہے کہ کئی لوگوں نے اسے کہا کہ یہاں بغیر سفارش کے غریب کو کچھ نہیں ملتا، حتی کہ کچھ لوگوں نے یہ بھی کہا کہ غریب کے بچوں کو پڑھائی سے کچھ نہیں ملتا۔ لیکن اس نے تمام مالی مشکلات اور حالات کا مقابلہ کیا اور اس دوران اسکے خاندان والوں نے اسکا ساتھ دیا، آج اسی ریڑھی والے کا بیٹا اپنی محنت سے کئی ٹیسٹ پاس کرچکا ہے اور ابھی بھی اس کے حوصلے بلند ہیں۔
مجھے عبدین جیسے لوگوں کو دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ وہ بہانے بنانے کے بجائے محنت پر یقین کرتے ہیں اور مالی مشکلات کے ہوتے ہوئے بھی اس قدر جدوجہد کرتے ہیں کہ اپنے لیے راستہ بناسکیں اور یہ میرا ایمان ہے کہ زندگی میں کامیابی صرف ان کو ملتی ہے جو محنت کرنے سے نہیں ڈرتے۔ ایسے لوگ میرے اس ایمان کو مزید پختہ بنارہے ہیں۔
میں اس پرمسرت موقع پر عبدین اور اس کے خاندان والوں کو اس کی کامیابیوں پر مبارک باد پیش کرتا ہوں اور خدا سے دعا ہے کہ عبدین سمیت تمام محنت کرنے والے طلباءکو کامیابیاں نصیب ہوں اور وہ اپنے معاشرے میں اچھا کردار ادا کرسکیں۔
آخر میں تمام بلوچ طلبا سے بس یہی کہوں گا کہ دل لگا کر پڑھیں، محنت مزدوری کرنے کو عیب نہ سمجھیں بلکہ خود پر فخر کریں کہ آپ محنت کرکے اپنی پڑھائی کا خرچہ نکالنے کی کوشش کرتے ہو۔ بلوچستان کے حالات اور لوگوں کی مالی مشکلات کا ہم سب کو پتہ ہے کیونکہ ہم سب غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور حالات بھی ایسے ہیں کہ کوئی بھی انسان خود کو محفوظ نہیں سمجھتا۔ سرکار کی طرف سے پڑھائی کی سہولیات میسر نہیں مگر اسکے باوجود بھی ہم لوگوں کو پڑھنا ہے۔ کیونکہ اس سے ہم اپنی، اپنے خاندان اور قوم کے حالات بدل سکتے ہیں۔ آج کے دور میں تبدیلی وہی انسان لاسکتے ہیں جو بہانے بنانے کے بجائے عملی کام اور محنت پر بھروسہ کرکے آگے چلتے ہیں۔
بلوچستان میں ایسے کئی عبدین ملیں گے جو غربت کے باوجود اپنی محنت پر یقین کرکے پڑھائی کے میدان میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ کیونکہ جب عبدین اور دوسرے لوگ غربت کے باوجود بھی آگے بڑھ سکتے ہیں تو آپکو بھی آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا، بس آپ کو ان کی طرح محنت کرنا پڑے گی اور بہانے بنانے کے بجائے جدوجہد پر بھروسہ کرنا پڑے گا۔
اگر آپ کے خاندان میں کوئی بچہ پڑھائی کے معاملے میں محنتی ہے اور وہ مالی مشکلات کا سامنا کررہا ہے تو خاندان والوں کو ملکر اس بچے کا ساتھ دینا چاہیے تاکہ وہ آگے بڑھ سکے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں