تحریک انصاف کے قلعہ میں پہلا شگاف
تحریر: انورساجدی
مخالفین کہہ رہے ہیں کہ یوسف رضا کی کامیابی تحریک انصاف کے قلعہ میں پہلا شگاف ہے پہلی ہزیمت ہے بدترین شکست ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حکومت اپنی اکثریت کھو چکی ہے لیکن میرے خیال میں ”بڑوں“ نے سیاسی پریشر ککر کی سیٹی ہلکی سے کھول دی ہے تاکہ گھٹن میں کمی آ جائے اس سے تحریک انصاف کو دھچکہ دیا گیا ہے تاکہ وہ یہ نہ سمجھے کہ مقتدرہ کی یکطرفہ الفت اسی طرح کسی رخنہ کے بغیر آئندہ بھی جاری رہے گی سینیٹ کا معرکہ اسلام آباد ایک آغاز ہے ابھی عشق کے امتحان بے شمار باقی ہیں ہو سکتا ہے کہ وزیراعظم معمولی اکثریت سے اعتماد کا ووٹ حاصل کر لیں لیکن ان کی رعونت میں یقینی طور پر کمی آئے گی انہیں نہ صرف اتحادیوں کے ناز نخرے اٹھانے پڑیں گے بلکہ اپنے اراکین کی ناراضگی بھی دور کرنا پڑے گی حکومت کا خاتمہ فوری طور پر ممکن نہیں ہے جس دن مقتدرہ ترک تعلق کر لے گی یہ حکومت نہیں رہے گی لیکن اس میں کچھ وقت لگے گا نئے بندوبست کیلئے وقت درکار ہے نہایت پیچیدہ مذاکرات شروع ہونے ہیں اور یہ مذاکرات سہہ فریقی ہونگے یعنی مقتدرہ زرداری اور نواز شریف سے الگ الگ راہ و رسم کرے گی اگرچہ ن لیگ میں سیاسی اذہان کی کمی نہیں ہے لیکن زرداری جیسا کوئی نہیں ہے لہذا اصل مذاکرات زرداری سے ہونگے اور وہ مولانا سے مشاورت کا سلسلہ جاری رکھیں گے مقتدرہ کی کوشش ہے کہ لانگ مارچ اور دھرنے کی نوبت نہ آئے بلکہ رمضان شریف پر سکون گزر جائے رمضان مئی میں ختم ہو گا اس کے بعد بجٹ آئیگا زرداری اتنا نا سمجھ نہیں ہے کہ موجودہ زبوں حال معیشت کے ساتھ اقتدارکی ذمہ داریاں سنبھالے –
بجٹ تک انتظار کرنا پڑے گا بجٹ میں عوام کے ساتھ جو ہاتھ ہو گا آئی ایم ایف کی جو شرائط منظور کی جائیں گی اس کا خسارہ تحریک انصاف کے کھاتے میں جائے گا نئے بجٹ کی منظوری کے بعد صورتحال واضح ہو گی جس کے بعد پی ڈی ایم کے اکابرین اپنی نئی حکمت عملی ترتیب دیں گے یہ بات سو فیصد پکی ہے کہ اپنی ناقص سیاسی طریقہ کار معیشت کو ڈبونے اور بیڈ گورننس کی وجہ سے وزیراعظم عمران خان کی بیساکھیاں مزید کمزور ہو گئی ہیں اور اس سے نہ صرف اتحادی اپنے اراکین بلکہ مقتدرہ کا ایک حصہ بھی بیزار آ گیا ہے یوسف رضا کی کامیابی طویل سلسلے کی پہلی کڑی ہے لیکن مقتدرہ نے پشتونخواء اور بلوچستان میں حسب منشاء نتائج حاصل کئے ہیں پشتونخواء سے باپ پارٹی کو ایک نشست دینا واضع کرتا ہے کہ باپ پارٹی چھوٹی لاڈلی ہے اب تک بڑی لاڈلی تحریک انصاف ہے آثار بتا رہے ہیں کہ باپ جس طرح ایک غیر سیاسی شخصیت صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ لانے میں کامیاب ہوئی اسی طرح وہ حکومت اور اس کے دیگر اتحادیوں کو قائل کرنے کی کوشش کرے گی کہ چیئرمین سینیٹ کا عہدہ دوبارہ بلوچستان کو دیا جائے وہ عددی اعتبار سے سینیٹ میں چوتھی بڑی پارٹی بن گئی ہے باپ کی تشکیل کا آئیڈیا انوار الحق کاکڑ نے 2018ء کے انتخابات سے قبل گوادر کے مقام پر پیش کیا تھا باپ پارٹی کی تشکیل ایک بڑے پلان کا حصہ ہے جس کے تحت بلوچستان کے حالات کو رفتہ رفتہ قابو میں لانا مقصود ہے اور جاری شورش کو ختم کرنا ہے چونکہ کاکڑ صاحب نے اس پر کافی ریسرچ کی ہے اور جلاوطن رہنماؤں کی سائیکی کا گہرا مطالعہ کیا ہے اس لئے ان کی رائے کو صائب سمجھا جاتا ہے توقع کے عین مطابق حکومتی اتحاد یعنی تحریک انصاف اور باپ نے موجودہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو مشترکہ امیدوار نامزد کیا ہے سنجرانی اپنے دور میں ”بڑوں“ کے اعتماد پر پورا ترے ہیں ان کی دوبارہ نامزدگی اسی کا مظہر ہے البتہ ڈپٹی چیئرمین کے عہدہ پر بڑا معرکہ ہوگا بلکہ یوسف رضا گیلانی کی کامیابی کے بعد حکومتی اتحاد زیادہ حساس ہے اور وہ کوشش کرے گا کہ پی ڈی ایم چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میں کامیابی حاصل نہ کر پائے ورنہ وہ راندہ درگاہ ہو جائیگی اور اس کے اقتدار کے سورج کو ڈھلنے سے کوئی نہیں روک سکے گا سیاسی کارکنوں کی تفریح طبع کے لئے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے عہدہ پر مقابلہ خاصا دلچسپ ہوگا لیکن مشکل یہ ہے کہ سینیٹ میں حکومتی اتحاد کو اکثریت حاصل نہیں ہے اور اسے اپنے امیدوار کو کامیاب کرنے کیلئے بے شمار جتن کرنا پڑیں گے حتیٰ کہ اراکین کی خریدوفروخت سے بھی کام لینا ہوگا چونکہ سامنے آصف علی زرداری ہونگے اس لئے بازی بہت مشکل ہوگی اگر یوسف رضاکو کھڑا کیا گیا تو حکومت کی مشکلات میں اور اضافہ ہوگا کیونکہ ان کے سات کزن بازی پلٹنے کیلئے کافی ہیں جیسے کہ انہوں نے حال ہی میں بازی پلٹ کر دکھایا زرداری نے اگرچہ ایک نشست اضافی لی ہے لیکن یہ ان کا کمال ہے کہ انہوں نے سینیٹ میں حکومت کی اکثریت کو روک دیا جس کی وجہ سے حکومت ایوان بالا سے کوئی بل منظور نہیں کروا سکے گی یہ زرداری کی اس حکمت عملی کی کامیابی ہے جو انہوں نے نواز شریف اور مولانا کو قائل کرنے کے بعد بنائی تھی یعنی میدان حکومت کیلئے خالی نہیں چھوڑنا اگر پی ڈی ایم بائیکاٹ کرتی تو آج پارلیمانی منظر اور ہوتا بہر حال یوسف رضا کی کامیابی سے حکومت کے حوصلے پست ہوئے ہیں اپوزیشن کو اخلاقی فتح ہوئی ہے جس سے ان کے حوصلے بڑھ گئے ہیں اسی طرح آگے جا کر تحریک کی راہ ہموار ہو جائے گی کیونکہ بجٹ کے بعد تحریک انصاف میں موجود شکست و ریخت بڑھ جائیگی کئی اراکین ایک ایک کر کے الگ ہونا شروع ہو جائیں گے صوبہ جنوبی پنجاب تحریک دوبارہ سر اٹھائے گی اور سرائیکی بیلٹ کے وہ اراکین جنہوں نے پیپلز پارٹی سے گفتہ و شنید مکمل کی ہے یا وسطی پنجاب کے وہ اراکین جنہوں نے ن لیگ سے آئندہ انتخابات میں ٹکٹوں کی یقین دہانی حاصل کر لی ہے تحریک انصاف کو خیرباد کہہ دیں گے جس کے بعد وزیراعظم کے پاس پارلیمنٹ تحلیل کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں رہے گا صورتحال اس وقت دلچسپ ہوگی کہ صوبوں کے وزیراعلیٰ اپنی اسمبلیاں تحلیل کرنے سے انکار کر دیں –
سیاسی مبصرین کے مطابق آئندہ تین ماہ بہت اہم ہیں اس دوران سیاسی ابہام کی دھند چھٹ جائیگی جہاں تک اپوزیشن کا تعلق ہے تو اس کے پاس کھونے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے تحریک انصاف کا عروج اور اقتدار کا سورج نصف النہار پر نہیں رہے گا کیونکہ اس نے اپنی ناقص کارکردگی، بیڈ گورننس اور نااہلی سے خود کو ناکام ثابت کر دیا ہے حالات نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ وزیراعظم عمران خان میں قائدانہ صلاحیت نہیں ہے ان کا زور سوشل میڈیا کے پروپیگنڈے پر ہے جو دیرپا ثابت نہیں ہو رہا زمینی حقائق اور ہیں عوام شدید بدحالی اور مایوسی کا شکار ہیں معیشت پر حکومت کی بجائے عالمی اداروں کا کنٹرول ہے وزیراعظم کو بھی صحیح کنٹرول حاصل نہیں ہے مخالفین انہیں ایک ”شو بوائے“ ہی قرار دیتے ہیں خارجہ پالیسی شدید ناکامی سے دوچار ہے تمام ہمسایہ ممالک ناراض ہیں پرانے دوست ساتھ چھوڑ گئے ہیں نومنتخب امریکی صدر نے شدید دباؤ ڈالا ہے کہ بھارت سے تعلقات کو معمول پر لایا جائے اس سلسلے میں حکومت نے اندر کھاتہ ایک بڑا یوٹرن لیا ہے چند ماہ کے دوران بائیڈن انتظامیہ افغانستان اور طالبان کے حوالے سے بھی ڈباؤ ڈالنے والی ہے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اپنے دیرپا معاشی فوائد کیلئے بھارت کی جانب مراجعت کی ہے یمن میں ناکامی کے بعد خلیجی ممالک اپنے حریف ایران کو نیچا دکھانے کیلئے مغربی بلوچستان کا کارڈ استعمال کریں گے جیسے کہ انہوں نے سرحد پر ایرانی فورسز کی نہتے لوگوں پر فائرنگ کی مذمت کی ہے بائیڈن ایران پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ جوہری معاہدے پر درست سمت میں عمل درآمد کرے وہ انسانی حقوق کے معاملہ کو بھی اٹھا رہا ہے پاکستان کی ناکام خارجہ پالیسی کی وجہ سے اس کیلئے صرف چین کی گود میں گر جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے چین عہد جدید کا سب سے بڑا سود خود ساہوکار ہے –
کوئی مانے یا نا مانے اس کی نظر بلوچستان کے ساحل وسائل پر ہے دنیا میں اس کی معاشی پیش رفت جاری ہے اس پیش رفت کی بدولت صدر شی جن پنگ نے اعلان کیا ہے کہ اس نے غربت پر مکمل قابو پا لیا ہے اور صرف ایک عشرے میں 10کروڑ لوگوں کو خط غربت سے اوپر لے آیا ہے ان کے اعلان کے مطابق اب چین میں کوئی غریب نہیں رہا تمام باشندوں کو روٹی، کپڑا اور مکان کی سہولت دستیاب ہے یہ نعرہ 1970ء کی دہائی میں بھٹو نے لگایا تھا لیکن پاکستان کی مقتدرہ نے اس نعرے کو دھتکار کر سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام رائج کر دیا آج 50سالوں بعد پاکستان معاشی اعتبار سے بہت پیچھے چلا گیا ہے جب بھٹو نے روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا تھا تو چین کی 60فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور تھی لیکن چین نے بہت محنت کر کے اور عالمی منڈی پر قبضہ کر کے ترقی کی معراج حاصل کر لی اس تجربہ کے باوجود مقتدرہ حلقے پرانی ڈگر پر چل رہے ہیں وہ ہر پانچ سال بعد نیا تجربہ شروع کرتے ہیں جس کا نتیجہ مزید غربت اور بدحالی کی صورت میں نکلتا ہے-
ماضی میں ن لیگ، ق لیگ اور اب تحریک انصاف بنانے کا تجربہ شدید ناکامی سے دوچار ہے ہونا یہ چاہئے کہ مقتدرہ اپنے تجربات بند کرے اور پولیٹیکل انجینئرنگ کا شعبہ ہمیشہ کیلئے بند کر دے آزادانہ اور شفاف انتخابات کا راستہ کھولے تاکہ عوام اپنے صحیح نمائندے منتخب کر سکیں اور جمہوری عمل صحیح معنوں میں چل پڑے ملک کی باگ دوڑ عوام کو منتقل کئے بغیر نئے دور کے چیلنجوں سے عہدہ برا ہونا ناممکن ہے –
اگرچہ مجھے پارلیمانی سیاست اور اس کے نشیب و فراز سے دلچسپی نہیں ہے لیکن ذاتی طور پر سینیٹ کے حالیہ انتخاب میں ساجد ترین اور محترم فرحت اللہ بابر کی شکست پر دکھ ہے فرحت اللہ بار کافی دنوں سے ناپسندیدہ ہیں اس کی وجہ ان کی بے باکی اور زور دار اظہاریہ ہے جس کی موجودہ نظام میں گنجائش نہیں –


