کروناپہ کرونا

تحریر: انورساجدی
پاکستان کے عام لوگ محنت کش طبقہ یعنی پبلک کرونا کو لیکر اتنازیادہ خوفزدہ نہیں ہے جتنا کہ حکمران اور اشرافیہ ہیں عام لوگوں کو بس یہ فکر لاحق ہے کہ اگر روزانہ دہاڑی نہ لگے تو وہ اپنے بچوں کا پیٹ کیسے پالیں گے۔
وفاقی حکومت نے گزشتہ روز ایس او پیز پرعمل درآمد کیلئے اسلام آباد اور کے پی کے میں فوج طلب کی تھی جبکہ سندھ حکومت نے اتوار تک فوج بلانے کی درخواست نہیں کی تھی شائد آج کل میں کرے عجیب ملک ہے کہ ماسک لگانے کیلئے فوج کی ضرورت پڑے عوام کا یہ حال ہے کہ جب میں کل نصف شب کو اپنے دفتر سے نکلا تو مین میکلوڈروڈپر ایک پولیس کی گاڑی آئی اس میں بیٹھے ہوئے اہلکاروں میں سے کسی نے بھی ماسک نہیں پہنا تھا مائی کلاچی روڈ پر میں نے دیکھا کہ کافی ساری گدھا گاڑیاں سی ویو کی طرف جارہی تھیں تاکہ اتوار کو ریس کی تیاری کرسکیں کسی نے بھی ماسک پہننے کاتکلف گوارا نہیں کیا تھا راستے میں نوجوان موٹرسائیکلوں کی دوڑ بھی لگارہے تھے اور ون ویلنگ بھی کررہے تھے اتفاق سے رش معمول سے زیادہ تھا زندگی پوری طرح رواں دواں تھی ایسا لگتا تھا کہ حکومت نے جو ہدایات اور احکامات جاری کئے تھے کسی نے انکو سنجیدہ نہیں لیا تھا یا وہ صورتحال سے بے خبر تھے حالانکہ حکومتی وزراء بار بار فرمارہے تھے کہ اس وقت آکسیجن کی90فیصد مقدار استعمال ہورہی ہے اگر مریضوں کی تعداد بڑھ گئی تو انڈیا جیسے حالات پیداہوجائیں گے کرونا کے بڑھنے سے پتہ چلا کہ اسپتالوں سے زیادہ آکسیجن کی صنعتی کھپت زیادہ ہے جبکہ گزشتہ چند سالوں کے دوران حکومت نے آکسیجن کی پیداوار بڑھانے کی کوئی سعی نہیں کی ابھی تویہ بھی معلوم نہیں کہ ملک میں کل کتنے پلانٹ ہیں اور کہاں کہاں پر ہیں۔
1986ء کو جب جام میرغلام قادر بلوچستان کے وزیراعلیٰ تھے تو انہیں حب میں ایک آکسیجن پلانٹ کے افتتاح کیلئے بلایا گیا جام صاحب نے تقریب میں ایک بہت گہری اور معنی خیز بات کی لیکن لوگوں نے اسے جام صاحب کا مخصوص انداز بیان سمجھ کر نظرانداز کردیا۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے ایک صاف ہوا ہے اگر وہ بھی آپ لے جائیں گے تو پھر ہمارا کیا بنے گا اس وقت تو یہ بات مذاق لگتی تھی لیکن وقت نے ثابت کردیا کہ جام صاحب نے سچ کہا تھا 1985ء سے اب تک مرکز اور اس کی گماشتہ صوبائی حکومتوں نے بلوچستان کی فضا سمندر اور زمین کو اتنا آلودہ کردیا ہے کہ سانس لینا بھی دشوار ہے بظاہر جب ایک صنعتی شہر ہے لیکن یہ چاروں طرف کارخانوں سے نکلنے والی زہریلی گیسوں کی زد میں ہے کنڈسے لیکر ڈام تک اتنے تجربات ہورہے ہیں کہ سمندری اورزمینی حیات سخت خطرے سے دوچار ہے برسوں پہلے گڈانی میں شپ بریکنگ یارڈ قائم کیا گیا تھا پتہ نہیں کہ وہ کونسا بدقسمت دن تھا جب حکومت نے یہ فیصلہ کیا کیونکہ پرانے جہاذ حددرجہ آلودہ ہوتے ہیں اور ان میں زہریلے مواد کی کافی مقدار ہوتی ہے ٹینکروں میں جو تیل ہوتا ہے وہ ساحل پر رستا رہتا ہے جہاز توڑکر جو کباڑ اکٹھا کیا جاتا ہے وہ تو سوفیصد آلودگی کے سوا کچھ نہیں ہے کنڈ میں حبکو پاورآلودہ کا سب سے بڑا مرکز ہے جبکہ ایک ریفائنری بھی ہے مجھے صحیح معنوں میں معلوم نہیں لیکن ان کا زہریلا مواد ضرور سمندر میں جاتا ہوگا نوازشریف حکومت نے چین کو کوئلہ سے چلنے والے ایک پاور پلانٹ لگانے کی اجازت دی تھی پاور پلانٹ میں جلنے والا کوئلہ پاؤڈر کی شکل میں ہوتا ہے اور اس سے اتنی آلودگی پھیلتی ہے کہ بیان سے باہر ہے نوازشریف حکومت نے ہی ایک بڑے سیمنٹ پلانٹ لگانے کی اجازت دی تھی اٹک سیمنٹ تو پہلے سے ہی ماحول کو پراگندہ کررہا تھا زرا تصور کریں کہ گڈانی سے لیکر ساکران تک جو لوگ بستے ہیں ان کی صحت کا کیاحال ہوگا۔ہرطرف آلودگی ہی آلودگی ہے سائٹ کے کارخانے الگ ہیں بھلا کوئی حکومت اپنے عوام کی جانوں سے اس طرح کھیلتی ہے جوں جوں ساحل کے اطراف میں صنعتی اور کمرشل سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا نہ صرف سات سو کلومیٹر طویل ساحل ناکارہ ہوجائے گا بلکہ اس پر آباد ساری مخلوق طرح طرح کے عوارض کا شکار ہوجائے گی دور نہ جایئے کراچی کا حال دیکھیں اس کا شمار دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں ہوتا ہے اس میں ہزاروں کارخانے ہیں ان سے خارج ہونیوالا زہریلا مواد ندی نالوں کے ذریعے سمندر میں داخل ہوتا ہے کراچی شہر کے دوتہائی حصے تقریباً کچی آبادیوں کی طرح ہیں جہاں سڑکوں شہری سہولتوں اور صفائی کا بہت براحال ہے کراچی جو ایک اچھا شہر تھا حکومتوں کی نااہلی کی وجہ سے دنیا کا سب سے بڑا ”سلم“ بن گیا ہے بجائے کہ اس شہر کے حالات ٹھیک کئے جائیں مرکزی سرکارکااصرار ہے کہ یہ شہر تو ناکارہ ہوچکا ہے اس لئے کراچی کے قریب بنڈل آئی لینڈ میں ایک نیا شہر آباد کیاجائیگا اگر حکومتوں کی نااہلی کایہی حال رہا تو بنڈل آئی لینڈ بھی گٹر بن جائے گا دور نہ جایئے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کا شہر دیکھئے شہر کے مرکزی علاقے میں کئی کچی آبادی وجود میں آگئی ہیں۔
چھوٹے ملازمین کے جورہائشی علاقے ہیں وہ کھنڈرات کامنظر پیش کررہے ہیں تمام نواحی علاقے کچی آبادیوں سے بھی بدتر ہیں بلڈر مافیا نے اس شہر کونوچنا شروع کردیا ہے اگر مرکزی سرکار اپنے دارالحکومت کوہی ٹھیک نہیں کرسکتی تو وہ نئے شہر کیسے آباد کرسکتی ہے اگر کرلیا تو ان کا حشر بھی کراچی لاہور،پشاور اور کوئٹہ کی طرح ہی ہوگا۔
اگر شہروں کی ابتر حالت کا ذمہ دار بڑھتی ہوئی آبادی کو قراردیاجائے تو بھی ذمہ داری حکومت پرعائد ہوتی ہے طویل عرصہ سے آبادی پرکنٹرول کے معاملہ کو پس پشت ڈال دیاگیا ہے اوپر سے ہمسایہ ممالک سے بڑی تعداد میں لوگ پاکستان میں آکربس گئے ہیں تمام شہر آؤٹ آف کنٹرول ہوگئے ہیں 40سالوں سے کسی حکومت نے کوئی پلاننگ نہیں کی ضیاؤ الحق نے تو لاکھوں افغان مہاجرین آباد کرکے خو اپنے ہاتھوں سے اپنے شہروں کی قبرکھوددی آبادی میں تیزرفتار اضافہ ایک سنگین مسئلہ ہے اس سے نہ صرف خوشحالی نہیں آسکتی بلکہ ہر سال لاکھوں اسٹریٹ چائلڈ بڑے بڑے مسائل پیدا کرتے ہیں کسی زمانے میں برازیل اسٹریٹ چائلڈ کا بڑامرکز تھا لیکن وہاں پر گزشتہ20سالوں سے آبادی میں اضافے کی رفتار کو روک دیا گیا ہے پاکستان کے لوگوں میں شعور کی بھی کمی ہے اوپر سے ملا صاحبان آبادی کو روکنے کی سخت مخالفت کرتے ہیں نہ صرف ملاصاحبان پولیو کے قطروں اور کرونا کے ویکسین کیخلاف بھی مہم چلا رہے ہیں کئی غریب بستیوں میں کئی ملاصاحبان نے دم اورتعویز کے ذریعے کرونا پر کنٹرول کرنے کی مہم شروع کررکھی ہے اگر قدرتی آفات اور دبائیں دم اورتعویز چلی جاتیں تو جدید طب اور سائنس کی کیاضرورت تھی۔
اگرکرونا وقت پرکنٹرول نہ ہوا تو پاکستان کی معیشت مزید بیٹھ جائے گی بے روزگاری میں اور اضافہ ہوجائیگا جس کے نتیجے میں جرائم اورسماجی برائیاں جنم لیں گی جسے کنٹرول کرنا حکومت کے بس میں نہ ہوگا ویسے بھی کرونا دنیا پرگہرے اثرات مرتب کررہا ہے روایتی کاروبار ختم یا کم ہوگئے ہیں اسٹریٹ بزنس ختم ہوکر رہ گیا ہے آن لائن بزنس تیزی کے ساتھ فروغ پارہا ہے طاقتور ممالک کرونا ویکسین کے ذریعے دنیا کی دولت سمیٹ ررہے ہیں 32قسم کی نئی ادویات لائی گئی ہیں جن کی فروخت سے عالمی کمپنیاں کھربوں ڈالر لوٹ رہی ہیں امازون کمپنی دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کی سب سے بڑی کمپنی بن گئی ہے سینیٹائزر کی فروخت کھربوں کا کاروبار بن گیا ہے ماسک ہاتھوں ہاتھ فروخت ہونیوالی شے بن گئی ہے ہوائی جہازوں کا بزنس آدھے سے بھی کم ہوگیا ہے کیونکہ پابندی کی وجہ سے ٹورازم ختم ہوکر رہ گیا ہے ٹریول ایجنٹوں کابزنس نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے ایسا لگتا ہے کہ جب تک آسٹرازینیکا فائزر اورسائنوفارم کی جگہ کوئی تیر پہ ہدف ویکسین نہیں آئے گی کرونا پرقابو پاناناممکن ہے کیونکہ یہ خدا کی طرف سے بھیجی گئی قدرتی وبا نہیں ہے بلکہ یہ ترقی یافتہ اقوام کی لیبارٹریوں میں تیار کردہ وائرس ہے جس کی توڑ بھی انہی ممالک کے پاس ہوگی لگتا ہے کہ یہ ممالک طویل عرصہ تک دنیا کی6ارب غریب آبادی کولوٹتے رہیں گے کرونا کی وجہ سے دنیا کے دو ارب لوگ اچانک غریب ہوگئے ہیں اور ایک فیصد پہلے سے بھی زیادہ امیر ہوگئے ہیں۔
خدا کرے کہ پاکستان جیسے غریب معاشی اعتبار سے تہی دست ملک سے کرونا کی وبا کنٹرول ہوجائے ورنہ بحیثیت ریاست اسکے تمام معاملات تہہ وبالا ہوجائیں گے اور کوئی بھی حکومت انہیں سنبھال نہیں سکے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں