نیشنل پارٹی مکران میں کتنی مضبوط۔سرسری جائزہ۔۔۔

تحریر: رشید بلوچ
گزشتہ سے پیوستہ
متحدہ بی این پی کے ٹوٹ جانے کے بعد گوادر کے علاوہ بی این پی (مینگل) مکران میں اس پوزیشن میں نہیں رہی کہ وہ صوبائی اسمبلی کی کوئی سنگل نشست جیتنے میں کامیاب ہو پائے، جب کہ اسکے برعکس نیشنل پارٹی نے بی این پی کے گڑہ سمجھے جانے والے جھلاوان اور سراوان میں 2013کو دبنگ انٹری مار کر بی این پی کو کھلا چیلنج دیا تھا لیکن یہاں ستم ضریفی یہ ہوئی کہ ساراوان کے قبائلی مزاج نیشنل پارٹی کے قابو سے باہر ہوگئی ایک پارٹی میں ہوتے ہوئے بھی مزاجوں میں خلا جیسی دوریاں موجود ہیں،یہ وہی قبائلی مزاج ہے جس نے بی این پی کو سردار عطا اللہ مینگل کی سربراہی میں زیادہ دیر تک متحد ہونے نہیں دیا، بلکہ یوں کہا جائے اس مزاج کو ریاست قلات کا خان بھی یکجاہ نہ کر سکے چہ جائے کہ وہ ڈاکٹر مالک بلوچ اور میر حاصل خان بزنجو کی قیادت میں متحد ہو پاتے، اب لگ ایسا رہا ہے کہ 24سال بعد بی این پی نے باب مکران پر دستک دینے کیلئے تیاری پکڑ لی ہے،بی این پی مکران کی کی دہلیز پر پہلا قدم احسان شا ہ کی شامل ہونے کی صورت میں رکھے گی،مارچ 2021کے سینٹ انتخابات سے ایک دن قبل بی این پی نے سید احسان شاہ کی اہلیہ کی حمایت کا علان کردیاتھا، قبل از حمایت احسان شاہ اور بی این پی کی قیادت کے درمیان لمبی چوڑی مزاکراتی عمل جاری رہا، جب بات پختہ ہوگئی تو سردار اختر مینگل نے بنفس نفیس نسیمہ احسان شاہ کی حمایت کرکے سیاسی پیغام دینے کی کوشش کی کہ بی این پی اور شاہ جی کے درمیان,, معاملات،، طے پاگئے ہیں،شنید یہی ہے کہ سید احسان شاہ 2023کے عام انتخابات سے قبل بمعہ اہل عیال بلوچستان نیشنل پارٹی میں شامل ہوں گے،شاہ جی کے بعد بی این پی کا اگلا حدف بلیدی خاندان ہوگا جس کیلئے بی این پی اور بلیدی خاندان کے درمیان گفت و شنید کا دور شروع ہوچکا ہے،منشی محمد اور اسکے خاندان کی نیشنل پارٹی میں شامل ہونے کے بعد گفت شنید میں تیزی آئی ہے،سید احسان شاہ اور بلیدی خاندان کی بی این پی میں شامل ہونے کی صورت میں بی این پی کافی حد تک مکران میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہے،بی این پی کا مکران میں مضبوط ہونے کا مطلب نیشنل پارٹی کا کمزور ہوناہے، ڈاکٹر مالک بلوچ کی حلقہ انتخاب ہونے کی وجہ سے مکران میں نیشنل پارٹی کیلئے تربت سٹی کی نشست اہمیت کا حامل ہے،بی این پی اور شاہ جی کی یکجاہ ہونے سے تربت سٹی کے حلقے پر نیشنل پارٹی کی گرفت پہلے جیسے نہیں رہے گی،اس نشست پر پہلے سے ہی ڈاکٹر مالک بلوچ اور احسان شاہ کے دمیان چھتیس کا آنکڑا چل رہا ہے، اس میں بی این پی کا تھوڑا بہت جو بھی وزن ہے شاہ جی کے پلڑے میں ملنے کی صورت میں لامحالہ نیشنل پارٹی کیلئے ڈھیر ساری مصیبت کھڑی ہوگی، نیشنل پارٹی کومستقبل میں رونما ہوانے والی تمام سیاسی صورتحال کی تبدیلیوں کا ادراک ہے شاید یہی وجہ ہے اسکے لب ولہجے میں آہستہ آہستہ درشتی آنا شروع ہوگئی ہے۔
،بی این پی اور نیشنل پارٹی کے درمیان رسہ کشی آج کی نہیں بلکہ بلوچ قوم پرستی کی سیاست شروع ہوتے ہی دونوں کے مزاجوں کے درمیان سیاسی بالا دستی کی جنگ کا آغاز ہوا تھا،بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ جنگ نچلے اور بالائی طبقے کی جنگ ہے،اس بحث میں پڑنے والوں کی اپنی اپنی منطق اور دلیلیں ہیں، جو لوگ اسے طبقاتی خلا سمجھتے ہیں اسے نیشنل پارٹی اپنے اوپر,, مڈل کلاس،، کا لفظ چسپاں کر کے اس دلیل مستحکم کرنا چاہتی ہے،بلکہ نیشنل پارٹی نے ہی اس منطق کو,, ایجاد،،کیا تھا، اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ دوسرے معاشروں کی طرح بلوچ سماج میں بھی یہ طبقاتی اونچ نیچ موجود ہے، سرداری طبقہ بلوچ معاشرے کا بالائی طبقہ جب کہ عام بلوچ نچلا طبقہ مانا جاتا رہا ہے لیکن وقت و حالات کے تحت ان طبقات میں تبدیلیاں رونما ہوتی رہی ہیں، اب یہ کہنا ہے کہ سردار ہی بالائی طبقہ ہے تو یہ کہنا زیادہ معقول نہیں ہوگا، آج کے کمرشل دور میں بالائی طبقہ اسی کو کہا جاتا ہے جس کی اثر رسوخ اور طاقت زیادہ مضبوط ہوتی ہے، جب میرے پڑوس میں ایک عام بلوچ کے گھر میں پیدا ہونے والا شخص 20.25مسلح بندوق بردار لشکر کی جھرمٹ اور قیمتی گاڑیوں میں گھر سے نکلتا ہے تو اسی وقت,, مڈل کلاس،، کی منطق دم توڑ جاتی ہے، یہاں یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ سرداری طبقہ مانند پڑ گیا ہے بلکہ وہ اپنی جگہ برقرار ہے لیکن اس بالائی طبقے میں عام بلوچ کی شمولیت نے اضافہ کر دیا ہے،ایک دور میں سرداروں کے رشتے ناطے سرداروں سے ہوا کرتے تھے لیکن اب اس رجحان بھی تبدیلیاں ہورہی ہیں، جہاں تک سیاست کا سوال ہے تو سیاست میں طبقات نہ ہونے کے برابر ہے، مثال کے طور پر نیشنل پارٹی خود کو مڈل کلاس کہتی ہے لیکن ماضی قریب میں بہت سارے سردار اس جماعت کا حصہ رہے ہیں جبکہ بہت سارے سردار اب بھی نیشنل پارٹی کا حصہ ہیں،جبکہ دوسری جانب بی این پی کی سربراہی ایک سردار کے ہاتھ میں ہے لیکن اس میں اکثریت ڈاکٹر جہانزیب اور آغا حسن جیسے مڈل کلاس لوگوں کی ہے، ان دونوں جماعتوں کے علاوہ دوسرے جتنے بھی جماعتیں ہیں میں ان میں بھی اپر اور مڈل کلاس دونوں کی شرکت یکساں ہے۔۔۔
مکران میں حلقے کی سیاست کا دنگل لگ چکا ہے آہستہ آہستہ دیگر علاقے بھی اس ملا کھڑا حصہ بنتے جائیں گے، بی این پی اچھی خاصی مقدار میں پہلے سے مکران میں موجود ہے بلا شبہ اگر بی این پی نے اپنی پوزیشن مزید مضبوط کر لی تو نیشنل پارٹی کیلئے سیاسی مشکلات بڑھ جائیں گی، 2018میں دھاندلی کے الزامات اپنی جگہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ نیشنل پارٹی نے بری طرح مات کھائی تھی،نیشنل پارٹی کی مصیبت یہ ہے کہ اس نے بلعموم مکران اور بلخصوص کیچ کو اپنا مطمع نظر رکھا ہے حالانکہ کوہلو، بارکھان اور نصیر آباد میں پہلی بار نیشنل پارٹی کوایک اچھا خاصا ووٹ بینک میسر آیا تھا لیکن ان علاقوں میں قیادت کا رجحان نہیں بڑھ پارہا،اب بھی یہ نیشنل پارٹی پر منحصر ہے کہ ان علاقوں میں اپنا ووٹ بینک کیسے بچا پاتی ہے۔
تصحیح۔۔ (ڈاکٹر مالک بلوچ تربت سے 1988.1990.1993اور 2013میں رکن اسمبلی منتخب ہوتے رہے جبکہ غلطی سے کالم کے پہلے قسط میں 1990اور 2013 لکھا گیا تھا، لہذا غلطی کی تصحیح کی جائے اس غلطی کی نشاندہی ہمارے اچھے رفیق کار کالم نگار خالد ولید سیفی نے کی ہے) (ختم)

اپنا تبصرہ بھیجیں