آواران لاوارث کیوں؟

تحریر: مھراج بلوچ
ضلع آواران رقبے کے لحاظ سے 21630 مربع کلو میٹر علاقے پر مشتمل ہے، آواران کا پرانا کولواہ تھا، جس کو 1992ء میں ضلع کا درجہ دے کر آواران کا نام رکھ دیا گیا۔ اس سے پہلے وہ ضلع خضدار میں شامل تھا، مغرب میں ضلع آواران کی سرحد ضلع کیچ کے علاقے کولواہ مادگ قلات سے ملتی ہے۔ آواران کے شمال مشرق میں ضلع خضدار اور شمال مغرب میں ضلع پنجگور واقع ہے، آواران کی تحصیل مشکے سے خضدار کی تحصیل گریشہ تقریباً 20 کلو میٹر پر واقع ہے جبکہ آواران کے جنوب میں ضلع گوادر کے علاقے اورماڑہ اور مشرق میں ضلع لسبیلہ واقع ہے۔ اگر دیکھا جائے آواران بلوچستان میں ایک مرکزی حیثیت رکھتی ہے، جنکی سرحدیں بلوچستان کے مختلف اہم اضلاع کے ساتھ ملتی ہیں۔ کیچ، گوادر، پنجگور، لسبیلہ اور خضدار جیسے خوبصورت اضلاع کا پڑوسی ہونے کے علاوہ یہاں مختلف قسم کی فصلیں اگ سکتی ہیں، جسمیں پیاز، انگور، انار، گندم شامل ہیں جبکہ کہیں کہیں کھجور کے خوبصورت باغات بھی پائے جاتے ہیں، لیکن آواران پسماندگی کے حوالے سے بلوچستان میں سب سے زیادہ ڈگر پر ہے۔ یہاں نہ پانی، بجلی، گیس اور نہ ہی دوسری بنیادی سہولیات میسر ہیں، آج بھی قدیم زمانے کی طرح لوگ دور دور تک گہرے کنوؤں سے رسی کے ذریعے پانی نکالتے ہیں۔ روڈ نہ ہونے کے برابر ہیں، کچے روڈوں پر ایک گھنٹے کا فاصلہ پانچ گھنٹے میں طے کرنا پڑتا ہے۔ تعلیمی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں، جہاں کہیں اسکول کی عمارتیں ہیں تو وہاں اساتذہ موجود نہیں، ہسپتال محض چند کمروں کے بنائے گئے ہیں لیکن کچھ ڈاکٹرز نے پرائیویٹ کلینک کھول لیے ہیں اور دیگر کوئٹہ اور کراچی میں بیٹھ کر ٹھنڈی ہواؤں سے لطف اندوز ہورہے ہیں، یہاں غریب لوگ بیماری سے کیوں ہی نہ مریں۔ آخر ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ آواران کیوں پسماندگی کا شکار ہے؟ تو جواب میں پسماندگی کا کریڈٹ صرف ایک ہی خاندان کو جاتا ہے، کیونکہ چالیس سال سے یہ خاندان کو آواران پر مسلط کیا گیا ہے، جنہوں نے آواران کے عوام کو محروم کیا، بلیک میلنگ سیاست کے تحت یہ آواران پر حکمرانی کررہے ہیں، نوکریوں کو پیسے اور ووٹ کے عوض دے رہے ہیں، الیکشن کے دوران انہوں نے کئی ملازمین کو نوکری سے برطرف کرنے کی دھمکی دے کر انہیں ووٹ دینے کیلئے مجبور کیا جو قانوناََ ایک بڑا جرم ہے۔ آواران وہ ضلع ہے جہاں پر حق کی بات کرنے والوں کو مختلف ذرائع سے دبا دیا جاتا ہے، یہاں اپنے حق کیلئے آواز اٹھانے کو ایک جرم قرار دیا گیا ہے، ہمیشہ طاقت کے ذریعے لوگوں کو ڈرایا دھمکایا گیا ہے، اسی وجہ سے آواران آج پسماندگی کے حوالے سے بلوچستان کا پسماندہ ترین ضلع ہے۔ میں آواران کے لوگوں سے خاص طو پر نوجوان نسل کو کہنا چاہتا ہوں کہ وہ خاموشی کو توڑ کر ان ناانصافیوں کیخلاف آواز اٹھائیں، اپنے اندر شعور بیدار کریں، خاموش ہونے سے ہم اور زیادہ پسماندگی کی طرف جائیں گے، اپنے آنے والی نسل کیلئے جدوجہد کرکے انکے لئے آواز اٹھائیں، ورنہ تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔