بھارت اور نیپال کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافہ

بھارت اور نیپال کے درمیان جاری سرحدی تنازعہ کے درمیان نیپال کے سیاسی نقشے میں ترمیم کے لیے اولی حکومت کی طرف سے پارلیمان میں بل پیش کیے جانے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔وزیر اعظم کے پی اولی کی قیادت والی کمیونسٹ پارٹی آف نیپال (سی پی این) حکومت نے اتوار 31 مئی کوپارلیمان میں ایک آئینی ترمیمی بل پیش کیا ہے جس میں لیپولیکھ، کالاپانی، لمپیا دھورا علاقوں کو نیپال کا حصہ قرار دیا گیا ہے، جبکہ بھارت ان علاقوں پر اپنا دعوی کرتا ہے۔تجزیہ کاورں کا کہنا ہے کہ اگر نیپالی پارلیمان میں یہ بل منظور ہوجاتا ہے، جس کا غالب امکان ہے، تو یہ بھارت کی بڑی سفارتی ناکامی ہوگی۔حالانکہ بعض ماہرین اس نئی پیش رفت کو وزیر اعظم اولی کی داخلی سیاست سے جوڑ کر دیکھتے ہیں۔ دہلی میں مقیم اور نیپال میں سیاسی جماعتوں سے قریبی تعلق رکھنے والے ایک صحافی نے بعض تحفظات کی بنا پر نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایاکہ نیپالی وزیر اعظم اولی کے تازہ قدم کے پیچھے گھریلو سیاست کا بھی بہت اہم رول ہے۔ ایک طرف تو ان پر کووڈ انیس سے نمٹنے میں ناکام رہنے کا الزام لگایا جارہا ہے۔ دوسری طرف چند ہفتے قبل ان کی مخلوط حکومت میں شامل ایک جماعت نے ان کی حکومت کو گرانے کی ناکام کوشش کی تھی۔ اس کے بعد اولی نے اپنی پوزیشن کو مستحکم کرنے کے لیے بھارت کو نشانہ بنانے کا یہ طریقہ اپنایا جس سے ملک میں سخت گیر قوم پرستی کا ماحول بنے اور ان کی پوزیشن مضبوط ہوجائے۔ گزشتہ جمعے کو جب اولی حکومت نے مذکورہ بل کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے کا پروگرام ملتوی کیا تھا تو بھارت میں سکون کی سانس لی گئی تھی حتی کہ مودی حکومت کے بعض پرجوش حامیوں نے یہ کہنا شروع کردیا تھا کہ ’نیپال کے عقل ٹھکانے آگئے ہیں‘ لیکن دو روز بعد ہی اولی حکومت نے بھارت کی پریشانیاں پھر بڑھادیں۔ اولی نے قوم پرستی کا کارڈ کھیلا جس کے بعد اپوزیشن نیپالی کانگریس کو بھی سرخم کرنا پڑا۔ اب اس بل کا دو تہائی اکثریت سے منظور ہونا یقینی ہے۔ اس کے بعد نیپال اس نئے سیاسی نقشے کو ہر جگہ استعمال کرے گا۔بھارت اور نیپال کے درمیان بہنے والی شاردا ندی جسے مہاکالی ندی بھی کہا جاتا ہےبھارت پہلے ہی واضح کر چکاہے کہ نیپال جن علاقوں پر اپنا دعوی کررہا ہے وہ بھارت کا حصہ ہیں۔ بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان انوراگ سریواستوا کا کہنا تھا”نیپال اس معاملے میں بھارت کے اس مستقل موقف سے اچھی طرح واقف ہے اور ہم نیپال کی حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ غلط نقشے پیش کرنے سے گریز کرے اور بھارت کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام کرے۔“ بھارتی وزیر دفا ع راج ناتھ سنگھ نے بھی اس تنازع کی شدت کوکم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا”نیپال ہمارے پریوار کی طرح ہے، بھارت اورنیپال بھائی کی طرح ہیں۔ معاملہ قابو میں ہے اور اگر کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو ہم مل بیٹھ کر اسے حل کرلیں گے۔“ ماہرین کا خیال ہے کہ دراصل نیپال یہ سمجھتا ہے متنازعہ علاقے پر اپنے دعوے کے حق میں اس کے پاس کافی دلائل اور ثبوت ہیں۔ سیاسی تجزیہ کار اسد مرزا نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا”نیپال نے پہلی مرتبہ یہ معاملہ 1997 میں اس وقت اٹھایا تھا جب اس وقت کے وزیر اعظم آئی کے گجرال کٹھمنڈو کے سرکاری دورے پر گئے تھے۔ گجرال اس سے قبل اپنے ’گجرال ڈاکٹرائن‘ میں تجویز دے چکے تھے کہ بھارت کو اپنے چھوٹے پڑوسی ملکوں کے مطالبات کو منظور کرلینا چاہیے اوران سے کچھ مانگنے یا کسی مدد کی توقع کے بغیر ایک بڑے بھائی کی طرح ان کے ساتھ سلوک کرنا چاہیے۔ نیپال نے متنازعہ علاقوں کا مسئلہ حل کرنے کے لیے ایک مشترکہ تکنیکی اعلی سطحی باونڈری کمیٹی کی تجویز گجرال کے سامنے پیش کردی جسے انہوں نے تسلیم کرلیا۔ یہ تجویز دورے کے بعد جاری مشترکہ بیان میں شامل ہے اور نیپال اب اسی مشترکہ بیان کو بنیاد بناکر اپنے مطالبے پر زور دے رہا ہے۔“مودی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے بھارت اور نیپال کے درمیان دوری مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔نیپال اس سرحدی تنازعہ کو حل کرنے پر زور دیتا رہا ہے۔ جولائی 2000 میں اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی اور نیپالی وزیر اعظم جے پی کوئرالہ اس پر متفق ہوگئے تھے کہ اس سرحدی تنازعہ کوسفارتی چینل کے ذریعہ حل کرلیا جائے گا۔ تاہم اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔ 2015 میں معاملہ اس وقت مزید پیچیدہ ہوگیا تھا جب بھارت اور چین نے نیپال کو نظر انداز کرکے لیپولیکھ کے راستے ایک سڑک کی تعمیر کرنے کا معاہدہ کرلیا۔ اس پرنیپال کے اعتراض کا دونوں ملکوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ بھارتی وزیر دفاع نے گزشتہ 8 مئی کو اسی سڑک کا افتتاح کیا تھا جس کے بعد نیپال کی اولی حکومت کی ناراضگی بڑھ گئی۔بھارت اور نیپال کے درمیان یوں تو تاریخی ’بیٹی اور روٹی‘ کا رشتہ رہا ہے لیکن مودی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے دونوں میں دوری مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔ گزشتہ ماہ نیپالی وزیر اعظم نے اپنے ملک میں کورونا وائرس پھیلانے کے لیے بھارت کو مورد الزام ٹھہرایا تھا۔ 2015 میں بھارت پر نیپال کے نئے آئین کی مخالفت کرنے والوں کی سرپرستی کرنے کا الزام لگایا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں