بلوچستان کا غمزدہ میڈیا اور وفاق میں صحافیوں کی کھیپ

تحریر: نصیر عبداللہ
خوف، عدم تحفظ اور غیر یقینی صورتحال نے بلوچستان میں صحافت کو کفن بدوش بنا دیا ہے۔ صحافی خود کو ایک ایسی مشکل صورت حال میں گرفتار پاتے ہیں جہاں تقریباً تنازعے کا ہر فریق انہیں ڈکٹیٹ کرنا چاہتا ہے۔ نیز چاہتا ہے کہ صحافی میڈیا میں ان کے عزائم کا پرچار کرتے پھریں۔ آج کے دور میں یوٹیوب نے صحافیوں کی ایک کھیپ پیدا کی ہے۔ بلوچستان کے مسائل کو صیغہ راز میں رکھتے ہوئے باقی ہر چیز پر انہیں کھل کر بات کرنے کی آزادی حاصل ہے۔ کیونکہ بلوچستان ایک منتازع صوبہ تصور کیا جاتا ہے جس سے متعلق خبریں پھلانے والوں کو پہلے اجازت لینا پڑتی ہے۔ امریکی مقولہ ہے ”ویگاس میں کیا ہوتا ہے، یہ دیکھنے کے لیے ویگاس میں ہونا ضروری ہے“ بلوچستان پر بالکل صادق آتا ہے۔ بلوچستان سانحے، قتل و غارت کے واقعات اور کتنی ہی لاشیں برآمد ہوں، بلوچستان سے کوئی خبر مرکزی قومی دھارے کے میڈیا میں اولین صفحات پر جگہ نہیں لے پاتی۔ برطانوی صحافی ڈکلین واش (Declan wlash) نے "گارڈین” میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں بجا طور پر کہا ہے کہ پاکستان کے دیگر حصوں میں رہنے والے لوگ بلوچستان سے متعلق غیر ملکی افراد سے زیادہ علم نہیں رکھتے۔ میڈیا کے اکثر ذرائع تنازعات کے چنگل میں پھنسے اس صوبے سے متعلق اعلیٰ حکام کے دباﺅ کے باعث خاموشی اختیار کیے رہنے پر مجبور ہیں، جوکہ معاملے کی حساسیت کس تنازع بمقابلہ قومی سلامتی کے پیمانے سے ناپتے ہیں۔ بی بی سی کی ایک حالیہ رپورٹ میں بیشتر مدیران نے یہ تسلیم کیا ہے کہ وہ بلوچستان کو مطلوبہ کوریج نہیں دے پارہے اور اس کا سبب پسِ پردہ ”کنٹرول“ ہے۔ بلوچستان کی آبادی کا ایک اہم حصہ انگریزی اور اردو زبانوں سے نابلد ہونے کی وجہ سے قومی ابلاغی دھارے میں شامل ہونے سے قاصر ہیں۔ کوئٹہ کے علاوہ دیگر اضلاع میں کسی بھی ٹی وی چینلز کے نمائندے نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس لیے دیہی علاقوں می بسنے والی آبادی کو باخبر رکھنے اور ان کی آرا سے آگاہی حاصل کرنے کے لیے لازمی ہے کہ دیہی علاقوں میں ٹی وی چینلز اپنے نمائندے تعینات کریں۔ اسی طرح ضرورت اس امر کی ہے کہ بلوچستان کو بہتر سے بہتر سجمھنے کے خاطر صوبے میں ذرائع ابلاغ کا دائرہ وسیع کیا جائے اور کوئٹہ کے علاوہ صوبے کے دیگر علاقوں کے مسائل کو مقامی افراد کی زبانوں میں جگہ دی جائے۔ اس لیے لازمی ہے کہ ملک کے بڑے میڈیا ادارے صوبے میں پیشہ وارانہ انداز میں سرمایہ لگائیں، جس کے زیرِ اہتمام ہر ضلع میں قومی چینلز کے نمائندے تعینات کیے جائیں جن کی صحیح معنوں میں تربیت کی جائے، جس کے تحت وہ بھرپور طریقے سے اپنے علاقوں کی نمائندگی کرسکیں۔ جوں جوں مقامی نمائندوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا اور ان کی پیشہ وارانہ انداز میں تربیت ہوگی تب ہی صوبے کے مسائل صحیح طریقے سے قومی میڈیا میں اجاگر ہوں گے۔ لیکن اس کے لیے یہ امر بھی لازمی ہے کہ اخبار اور ٹی وی چینل مالکان بلوچستان کو محض کوئٹہ سمجھنا چھوڑ دیں اور اس کے تمام اضلاع کی باقاعدہ کوریج کا بندوبست کریں۔ جب یہ اقدامات اٹھائے جائیں گے تو یقیناً پاکستان کے دیگر حصوں میں بلوچستان کے متعلق آگاہی میں بہتری آئے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں