خیال اپنا اپنا

انور ساجدی
جے یو آئی اور بی این پی مینگل کی طرف سے وزیراعلیٰ جام کمال خان عالیانی کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کی باتیں ہلکی پھلکی موسیقی ہے اگردونوں جماعتیں سنجیدہ ہوں تو باپ کے ناراض اراکین کو ساتھ ملانے کی کوشش کریں کیونکہ اسکے بغیر کامیابی ممکن نہیں عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنا تو آسان کام ہے لیکن اسے کامیاب بنانا مشکل ہے کیونکہ اسکے لئے دوتہائی اکثریت درکار ہوتی ہے البتہ یہ تحریک پیش کی جاسکتی ہے کہ وزیراعلیٰ اکثریت کا اعتماد کھوچکے ہیں لہٰذا وہ ایوان سے اعتماد کا ووٹ لیں عین ممکن ہے کہ جام صاحب اعتماد کاووٹ نہ لے سکیں اور اس طرح اپوزیشن جماعتوں کی دلی مراد پوری ہوجائے خاص طور پر جمعیت کافی سالوں سے لیلائے اقتدار سے دور ہے اور یہ فراق سہنا اب اسکے لئے سوہان روح ہے۔
بلوچستان ایسا صوبہ ہے کہ اسے کبھی انتخابی وسیاسی خودمختاری نہیں ملی1997ء میں جب اخترمینگل وزیراعلیٰ ہوئے تو وہ ن لیگ کی بیساکھیوں پر کھڑے تھے ایٹمی دھماکوں کے بعد نوازشریف نے فیصلہ کیا کہ بی این پی سے جان چھڑائی جائے تاہم بعدازاں سوبار نوازشریف نے اپنے اس فیصلہ پر پیشمانی کااظہار کیا2002ء کے انتخابات میں قرعہ فعال جام یوسف مرحوم کے نام نکلا اس وقت کنگز پارٹی ق لیگ تھی انکے دور میں جنرل پرویز مشرف نے بلوچستان کو آگ اور خون میں غلطان کردیا۔2008ء کے انتخابات میں صوبائی جماعتوں کے بائیکاٹ کی وجہ سے پیپلزپارٹی حادثاتی طور پر برسراقتدار آگئی اور نواب محمداسلم خان رئیسانی وزیراعلیٰ بن گئے لیکن آخری سال میں ہزارہ برادری کے دھرنے کی وجہ سے نواب صاحب کو مستعفی ہونا پڑا اور وقتی طور پر گورنر راج لگانا پڑا2013ء کے انتخابات میں ن لیگ ایک بار پھر کنگز پارٹی بن کر ابھری میاں نوازشریف نے مری میں نیشنل پارٹی سے شراکت اقتدار کا معاہدہ کیا جس کے مطابق پہلے کے ڈھائی سال نیشنل پارٹی کی باری تھی اسکے بعد ن لیگ کو حکومت ملنی تھی۔
ن لیگ کے لیڈر خواجہ آصف نے ہفتہ کی شب ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ بلوچستان کے حوالے سے انکی جماعت سے دوغلطیاں سرزدہوئیں 1998ء میں اختر مینگل کاہٹایا جانا غلط تھا جبکہ2015ء میں ڈاکٹرمالک کی جگہ سردار ثناء اللہ زہری کو موقع دینا بھی غلط فیصلہ تھا لیکن یہ اعتراف بعداز وقت ہے بلوچستان کے اہم فیصلے کس طرح ہوتے ہیں اسکی سب سے بڑی مثال صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ بنایاجانا ہے۔وہ چیئرمین بننے سے پہلے ایک غیر سیاسی شخصیت تھے جبکہ انکے مدمقابل میرحاصل خان بزنجو تجربہ کار سیاستدان تھے لیکن اوپر کے فیصلہ کی وجہ سے وہ ناکامی سے دوچار ہوئے انکے خلاف عدم اعتماد کی تحریک بھی طاقت کے عناصر نے ناکام بنادیا جبکہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے چند اراکین کی خفیہ خدمات حاصل کرکے اپنا مقصد حاصل کیا گیا دونوں جماعتوں میں اتنا دم ضم نہیں تھا کہ وہ اپنے بے وفااراکین کیخلاف کارروائی کرتے۔
باقی ملک تو اپنی جگہ بلوچستان میں کبھی آزادانہ انتخابات نہیں ہوئے جن کو کامیابی دلوانا ہوتا ہے انکی فہرست پہلے سے تیار کی جاتی ہے بلکہ یہ بھی طے ہوتا ہے کہ کن پارٹی کو لانا ہے اس لئے سلیکٹڈ پارٹی جب حکومت میں آتی ہے تو اسے اپنی کمزوریوں کاپتہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ بولڈ فیصلے کرنے میں ناکام ہوتی ہے اس کمزوری کا خوب فائدہ اٹھایا جاتا ہے بلوچستان کے بیشتروزرائے اعلیٰ کو اہم فیصلے ڈکٹیٹ کرائے جاتے ہیں تاہم ایک دلچسپ امر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ نام نہاد سیاسی حکومتوں کو کلیدی فیصلے کااختیار نہیں ہوتا ہے البتہ کرپشن کرنے کی آزادی ہوتی ہے اسکی اجازت جان بوجھ کر دی جاتی ہے تاکہ وہ کچھ بولنے کی پوزیشن میں نہ ہوں ڈاکٹرمالک بلوچ سیاست اور جدوجہد کاطویل تجربہ رکھتے تھے انکے دور میں سیکرٹری خزانہ کے گھر سے کروڑوں روپے برآمد ہوئے اس عمل سے سارے ملک میں صوبائی حکومت کی رسوائی ہوئی لیکن سیکرٹری سمیت اصل ملزمان پلی بارگین اور مستقل فرمان برداری یا آئندہ بہتر چال چلن کی یقین دہانی پر چھوٹ گئے۔
چند روز قبل بی این پی کے سربراہ سرداراخترمینگل سے صحافیوں نے پوچھا کہ سردار اتنی لوٹ مار کیوں کرتے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ تمام سرداروں کو ایک طرف رکھ دو تین جرنیلوں ایوب خان،ضیاء الحق اور مشرف کی دولت دوسری طرف رکھ دو تو یہ بھاری ہونگے۔
پاکستان کے لوگ چونکہ بلوچستان کے بارے میں آگاہی نہیں رکھتے اس لئے وہاں پر پروپیگنڈہ کیاجاتا ہے کہ سردارترقی اور تعلیم کے مخالف ہیں انہیں معلوم نہیں کہ بیشتر سردار بڑی سرکار کی جیب میں ہیں ماضی میں نواب خیربخش مری،نواب اکبر خان بگٹی اور سردار عطاء اللہ خان مینگل اپوزیشن کا کردارادا کرتے رہے ہیں باقی تمام سردار ہمیشہ مقتدرہ کے ساتھ ہوتے تھے جنرل مشرف نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ73سردارانکے ساتھ ہیں اگران سرکاری سرداروں کاعوام میں اثرورسوخ ہوتا تو بلوچستان کے حالات اتنے خراب نہ ہوتے ایک حقیقت یہ ہے کہ نواب مری کو چھوڑ کر نواب بگٹی اور سردار صاحب بھی کسی نہ کسی طرح حکومتوں کاحصہ رہے ہیں لیکن عمر کے آخری حصے میں انہوں نے اپنی غلطیوں کاکفارہ ادا کردیا۔
صوبے بننے سے پہلے سردارمتوسط طبقہ کی تعریف پر بھی پورا نہیں اترتے تھے لیکن بلوچستان سے بے وفائی کے بدلے میں مقتدرہ نے حکومت انہیں دے کرخزانہ کی چابی بھی حوالے کردی جس کی وجہ سے وہ اتنے خوشحال ہوگئے کہ کوئٹہ،کراچی اور اسلام آباد کے علاوہ بیرون ملک بھی انکے لگژری ولاز اور اپارٹمنٹ موجود ہیں اپنے عوام اور اپنی سرزمین سے سرداروں کی بے وفائی طویل پس منظررکھتی ہے انگریزوں نے انکی وفاداریاں پھل بھر میں خریدلیں۔انہوں نے ہمیشہ اپنی سرزمین کیخلاف انگریزوں کا ساتھ دیا جب محراب خان نے انگریزوں کی مزاحمت کافیصلہ کیا توعین میدان جنگ سے سارے سردار بھاگ گئے برادرکشی انکی گھٹی میں شامل ہے جبکہ غیروں کی تابعداری انکی سرنشت کاحصہ ہے لاٹ صاحب کی بگھی کھینچنے میں سب نے فخر محسوس کیا۔
قلات کے انضمام کے بعد سرداروں نے وارلارڈ کی حیثیت اختیار کرلی اس زمانے میں وہ تحصیلدار اور ناظم سے ڈرتے تھے لیکن اپنے قبیلہ پر ہر طرح کاظلم ڈھاتے تھے جب ایوب خان نے بی ڈی نظام قائم کیا تو بیشترسردار اس کا حصہ بن گئے کئی تو یونین کونسلوں کے چیئرمین بن کر بھی خوش تھے۔
لیکن اب زمانہ بدل گیا ہے عوام باشعور ہوگئے ہیں انہوں نے سرداروں کا ساتھ چھوڑدیا ہے اگر مقتدرہ ان کا ساتھ چھوڑدے تو وہ انکے لئے بہت برا وقت ہوگا بوجوہ سردار عوامی قیادت کے اہل نہیں رہے اس لئے عام آدمی نے اپنی قیادت خودسنبھال لی ہے ساحل ووسائل کیلئے جدوجہد وہ خود کررہے ہیں کیونکہ سرداروں سے ان کااعتماد اٹھ گیا ہے۔
بلوچستان کی تاریخ میں جو غیرسرداروزیراعلیٰ رہے ان میں میرتاج محمد جمالی،میر جان محمد جمالی،ڈاکٹر مالک بلوچ اور قدوس بزنجو شامل ہیں لیکن جمالی صاحبان بھی فیوڈل لارڈ تھے صرف مالک اور قدوس متوسط طبقہ سے تعلق رکھتے تھے اختر مینگل اگرچہ سردارعطاء اللہ خان کے فرزند ہیں لیکن وہ اپنے قبیلہ کے ”کماش“ ہیں سردارنہیں ہیں وہ قبیلہ کے سب سے بڑے میرہیں اگر انہیں سرداروں میں شمار نہ کیاجائے تو بھی یہ سوچ درست ہوگی۔بی این پی اس وقت سب سے نمایاں پارلیمانی پارٹی ہے پارلیمانی پارٹی کا مطلب اقتدار کاحصول ہے اسکے لئے ہر طرح کے سیاسی داؤ پیچ جائز ہیں اگرجے یو آئی اور بی این پی پارلیمانی طریقے سے اقتدار کی کرسی پر آنا چاہتی ہیں تو یہ انکا حق ہے لیکن کنٹرول ڈیموکریسی میں پارلیمانی سیاست کے ذریعے عوام کی حالت میں تبدیلی لانا مشکل ہے بلوچستان کی حیثیت تو پرانے زمانہ کے چیف کمشنر کے صوبہ جیسی ہے اب تو دوسرے بڑے سندھ کو بھی چلنے نہیں دیا جارہا ہے تاکہ مضبوط مرکز کے خیال کو ایک بارپھر عملی جامہ پہنایاجاسکے۔
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں