یونیورسٹی اسکینڈل، کیا کھلا کیا چھپا

زبیر بلوچ
پاکستان میں روز ایک نیا اسکینڈل سامنے آ جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے بلوچستان میں سامنے آنے والے اسکینڈلزکس طرح منظر عام سے غائب ہو جاتے ہیں کسی کو علم نہیں ہوتا، بلوچستان میں اسکینڈلز کو منظر عام سے غائب کرنے میں براہ راست عدل و انصاف کے ادارے ملوث پائے جاتے ہیں کہتے ہیں کہ جب بات نکلے گی تو دور تلک جائے گیاور دور جانے سے بہت سے لوگ سخت ناراض ہو جائیں گے اس لیے بات کی سطحی طور پر رکھنے کی کوشش کرتے ہیں،
بلوچستان میں مسائل کی کوئی کمی نہیں یہاں اگر تحقیقات کا آغاز کیا جائے تو ہر پتھر کے نیچے ایک مسئلہ ملے گا جس کا اظہار ہمیں حالیہ دنوں بلوچستان بھر میں دیکھنے کو ملا،گزشتہ مہینے تربت میں جرائم پیشہ افراد نے ایک گھر پر دھاوا بول دیا تھا، نجانے یہ کب سیگھروں میں گھس کر لوٹ ماری کرتے تھے لیکن اس مرتبہ اس کا سامنا ایک بہادر خاتون کے ساتھ ہوا جس نے بندوق کی ڈر سے خوف کھانے کی بجائے ان کے خلاف مزاحمت کرنا شروع کی اور انہیں پسپائی سے دوچار کر دیا، اس چور اور ڈاکو نے شرمندگی اور اپنی مردانگی کے تحفظ کیلئے خاتون کو گولیاں مار کر شہید کر دیا تھا، جوں ہی یہ واقعہ میڈیا کی زینت بنا تو بلوچستان بھر سے عوام کی ایک بڑی تعداد نے ان کے خلاف سیاسی و پرامن جدوجہد کا آغاز کر دیا، کچھ ہی دنوں کے اندر یہ مظاہرے اور احتجاجوں کا سلسلہ ملک بھر میں پھیلنے لگا اور برمش کیلئے دنیا کے مختلف ممالک میں بیٹھے بلوچوں نے احتجاج کرکے اس واقعہ کی سختی سے مذمت کی برسوں بعد بلوچستان میں بھرمیں سیاسی قوت ایک ساتھ منظر عام پر آ گئی، پولیس اور حکومت اس پورے دورانیہ میں اپنے پیشہ ورانہ سرگرمیوں میں مصروف رہے کیونکہ عوامی مسائل سے ان کا بنیاد سے ہی کوئی سروکار نہیں رہا ہے، لیکن برمش کے زخم نے پورے بلوچستان کو زخمی کر دیا تھا جس کی پکار پورے بلوچستان میں سنائی دی، اس دوران جب بلوچستان بھر میں احتجاج اور ریلیوں کا سلسلہ جاری تھا اس وقت پوری دنیا میں گھروں میں محصور ہوکر رہنے کی تنبیہ کی جا رہی تھی لیکن لوگ کیا کرتے اگر گھروں میں رہتے تو کچھ دنوں میں یہ چور سب کے گھروں میں دستک دے رہے ہوتے، اسی لیے کووڈ 19کی موجودگی کے باوجود لوگوں نے احتجاج و مظاہرے جاری رکھے۔ سانحہ ڈنک کا زخم بھرا ہی نہیں تھا، برمش کے ہاتھ کی پٹی ابھی تک اُتری نہیں تھی، احتجاج و ریلیوں کا سلسلہ جاری تھا، ملک ناز کے خون ابھی تک خشک نہیں ہوئے تھے کہ انہی جرائم پیشہ افراد نے تمپ میں ایک اور گھر پر حملہ کرتے ہوئے کلثوم نامی خاتون کو ان کی بچوں کے سامنے ذبح کر کے شہید کر دیا تھا، ملک ناز نے مزاحمت کی تھی اس لیے ان ڈرے ہوئے قاتلوں نے اس کو شہید کر دیا تھا لیکن کلثوم بی بی تو ڈر گئی تھی چیخ و پکار شروع کر دی کہ انہیں بھی ان کے بچوں کے سامنے قتل کر دیااور گھر کو پوری طرح لوٹ لیا گیا۔اس واقعے پر نوجوانوں نے بولنا شروع ہی کر دیا تھاکہ ایچ ای سی نے آن لائن کلاسز کا اجرا کر دیا، نوجوان ایک ہی مہینے کے اندر تین سانحات کا سامنا کر رہے تھے، چوتھی طرف کورونا کی وبا جس نے سب کو مشکل میں ڈال دیا،دنیا کورونا سے حفاظت کیلئے آئیسولیشن کی طرف جا رہی تھی جبکہ بلوچستان سانحے پر سانحہ کے خلاف احتجاج کر رہا تھا،ویسے بلوچستان کے لوگوں کے پاس احتجاج کے سوا ہے بھی تو کیا؟ حکومت بغیر احتجاج و مظاہرے آن لائن کلاسز کا بھی مسئلہ حل کرنے کے لائق نہیں ہے۔ کووڈ 19کے خطرات اپنی جگہ لیکن دوسری طرف عزت پامال ہو رہی تھی گھروں میں چور گھس رہے تھے، آن کلاسز ہو جاتی ہیں تو ہزاروں طلباء کی تعلیمی زندگی سخت متاثر ہوتی۔ عام طور پر کوئی بھی انسان تکلیف اٹھانا نہیں چاہتا لیکن جب انسان مجبور بن جاتا ہے تو لازمی ہے کہ وہ ہاتھ پاؤں ہلانا شروع کر دیتا ہے۔
خیر مجھے لگتا ہے کہ ہم اپنے موضوع سے ہٹ گئے ہیں تو اسی کی طرف آ جاتے ہیں کچھ دنوں پہلے بلوچستان یونیورسٹی اسکینڈل کی رپورٹ سامنے آئی ہے جس میں ایک سیکورٹی گارڈ کو برطرف کر دیا گیا ہے جبکہ دیگر تمام ملوث کرداروں کو زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔کسی کو علم نہیں، یہ گزشتہ سال اکتوبر کی بات ہے کہ جب ہائیکورٹ نے فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کو ہدایات دی تھی کہ وہ بلوچستان یونیورسٹی میں طلباء کو ہراساں کرنے کے معاملے کی چھان بین کرے، ایف آئی اے کی طرف سے جاریکردہ رپورٹ سے بلوچستان کے ہزاروں طلباء و والدین کو پریشان ہو چکے تھے، ایف آئی اے کی طرف سے دعوی کیا گیا تھا کہ بلوچستان یونیورسٹی میں مبینہ طورپر خفیہ کیمرے لگائے گئے تھے جن سے طلباء و طالبات کی ویڈیوز بنائے گئے ہیں ایف آئی اے کے مطابق ویڈیوز بنانے کے بعدطلباء و طالبات ان ویڈیوز کے ذریعے بلیک میل کیا گیا، ایف آئی اے نے دعویٰ کیا تھا کہ لڑکوں کو ویڈیوز کے ذریعے بلیک میل کرکے پیسہ لیے گئے جبکہ لڑکیوں کو بلیک میل کرکے جنسی ہراسگی کا نشانہ بنایاگیا۔
لیکن جو سب سے شرمناک عمل اور بلوچ روایات پر کاری ضرب تھا وہ ایف آئی اے رپورٹ کے مطابق گرلز ہاسٹلز کے واش روم تک ان بلیک میلروں نے خفیہ کیمرے نصب کیے تھے، ایف آئی اے کے بقول اس پوری سازش اور شرمناک اعمال میں تقریبا 200کے قریب ملازمین ملوث ہیں اور 12ویڈیوز بھی برآمد کی گئی تھیں، جوں ہی یہ خبر میڈیا کی زینت بنی تو طلباء نے احتجاج و مظاہرے شروع کیے تاکہ اس کیس میں ملوث تمام مجرموں کو سزا مل سکے، اس اسکینڈل کے خلاف بلوچستان کے طلباء تنطیموں اور سیاسی جماعتوں نے بھرپور احتجاج کرتے ہوئے اس گھناؤنے عمل کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار کیا، طلباء و طالبات کے احتجاج سے خوفزدہ ہوکر حکومتی سطح پر جلد ایک اسپیشل کمیٹی کی تشکیل دی گئی ہائیکورٹ نے بھی ایک کمیٹی تشکیل دے دی، جبکہ ایف آئی اے کی تحقیقات جاری رہی، تمام کمیٹیوں کی طرف سے یقین دہانی کرائی گئی کہ اس معاملے میں انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا جائے گا اور اس عمل میں ملوث تمام کرداروں کو سزادی جائے گی لیکن یہاں یقین دہانی کا صاف مطلب ہے کہ کچھ وقت اس معاملے کو رفع دفع کیا جائے گا بلکہ یقین دہانی لوگوں کی سیاسی جدوجہد کو روکنے کا اب ایک موثر ہتھیار بن چکی ہے۔ جب بھی سیاسی و پرامن جدوجہد کا آغاز کیا جاتا ہے دوسری طرف یقین دہانی آ جاتی ہے اور پھر کچھ وقت کے بعد معاملے کو گم کرنے کی عملی سازش شروع ہو جاتی ہے۔
جب سے ہوش سنبھالا ہے کبھی انصاف کا تقاضا پورا ہوتے نہیں دیکھا ہے اور خاص کر بلوچستان کے معاملے میں تو قانون مکمل طور پر اندھا ہو جاتا ہے، یہاں عدل و انصاف کے نام پر مزاق کیا جاتا ہے، کل ہی بلوچ دانشور انور ساجدی صاحب نے اس بات کی وضاحت کی تھی کہ یہاں کے حکمران معافی مانگنے سے لیکر زیادتیوں پر بات کرنے تک صرف مزاق ہی کرتے ہیں، اگر ہم انور ساجدی صاحب کی بات کو گہرائی سے سمجھنے کی کوشش کریں تو یونیورسٹی کی حالیہ رپورٹ بھی اسی کا شاخسانہ ہے، تین کمیٹیوں سے لیکر حکومت و عدلیہ اور ایف آئی اے نے بھی مزاق کیا تھا، خود ہی اس بات کا انکشاف کرکے تمام طلباء کو زہنی کوفت میں مبتلا کر دیا اور آج خود ہی تمام ملزموں کے نام کو گم کرکے مزاق کیا گیا۔اس پورے اسکینڈل میں محض ایک گارڈ کو قصوروار ٹھہرانا میرے خیال سے بھونڈا مزاق اور انصاف کے قتل کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ کیا یہ تمام کیمرے سیکورٹی گارڈ نے نصب کئیتھے؟ کیا کسی سیکیورٹی گارڈ کی اتنی جراتہو سکتی ہے کہ وہ چھ کیمرے لائیں اور ان کو خفیہ مقامات پر لگانا، ان سے ویڈیوز بنانا، پھر ان سے طلباء و طالبات کو بلیک میل کرنا، یہ بھی صورت تین چار بندوں کا کام نہیں ہو سکتا بلکہ اس میں درجنوں افراد شریک ہوں گے لیکن تاریخ بڑھا کر تمام ملزموں کا چھپا دیا گیا ہے۔اس فیصلے سے بہت سی چیزیں کھل کر سامنے آئی ہیں اب طلبا کو اس بات کا احساس کرنا چاہیے کہ انصاف کی یقین دہانی کے نام پر یہ لوگ ہمیشہ مزاق کرتے ہیں اور ان پر بھروسہ کرنا سچائی کو قتل کرنے کے مترادف ہے۔وہ سیاسی جماعتیں جو کل اپنی سیاسی ساکھ کو زندہ رکھنے کیلئے طلباء کے ساتھ کھڑی تھیں لیکن آج جب سات آٹھ مہینے بعد یہ رپورٹ آئی ہے اس پر مکمل طور پر خاموش ہیں۔
جب کسی ریاست میں قانون مزاق بن جائے وہاں پر انصاف کی حالت یہی ہوگی،لیکن جہاں انصاف کے ادارے لوگوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالیں، جہاں جھوٹ اور فراڈ کرکے ظاہر مجرموں کو چھپا دیا جائے، جہاں طلباء کی عزت و نفس کی پامالی میں ملوث کرداروں کی پشت پناہی کی جائے وہ نظام بہت دیر تک کبھی بھی قائم نہیں رہ سکتا اور جتنی جلدی اس بات کا احساس یہاں کے حکمران کر لیں ان کیلئے بہترہے۔
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں