جانور
انور ساجدی
مرغزار پاکستان کے پایہ تخت اسلام آباد کے چڑیا گھر کا نام ہے مرگلہ پہاڑ کے دامن پر واقع یہ علاقہ انتہائی شاداب اور خوبصورت ہے اس علاقہ کی مرگلہ سمیت خوبصورتی بس چند سالوں کی مہمان ہے کیونکہ ہمالیہ کے اس آخری فٹ ہلزپر وسیع تعمیرات کا منصوبہ ہے ابھی تک اسلام آباد کا شمار دنیا کے خوبصورت ترین شہروں میں ہوتا ہے لیکن جس طرح یہاں آبادی بڑھ رہی ہے اوردرختوں کی جگہ کنکریٹ کے جنگل بڑھ رہے ہیں اس کا حال بھی دیگر پاکستانی شہروں کی طرح ہوگا دنیا کے تمام ادارے اس بات پر متفق ہیں کہ انسانی ترقی کے انڈیکس میں پاکستان کا شمار چند آخر ممالک میں ہوتا ہے مختلف عوامل کی وجہ سے یہاں صحیح مردم شماری بھی نہیں کرائی جاتی اس لئے یہاں کی آبادی اور آنے والے وقتوں کے چیلنجزکامقابلہ کرنے کی منصوبہ بندی نہیں ہورہی ایک وقت آئیگا جب ریاست اپنے شہریوں کو بجلی،پانی،صحت اور تعلیم سہولتیں فراہم کرنے سے قاصر رہے گی یہ سہولتیں اس وقت بھی آبادی کے مطابق نہیں ہیں حکومت کی غیر ذمہ داری کا یہ عالم ہے کہ ہر نئے گھر کیلئے گیس،پانی اوربجلی کے کنکشن منظور کئے جاتے ہیں جبکہ یہ سہولیات دستیاب نہیں ہیں 1952ء سے اب تک سوئی گیس کودیاسلائی جتنی اہمیت بھی نہیں دی گئی اسے ایسے بے دردی کے ساتھ ضائع کیا گیا جیسے کہ یہ دشمن کا مال ہو۔اگر محترمہ بے نظیر 1988ء اور1993ء میں بجلی کے پرائیویٹ منصوبے شروع نہ کرتیں توآج پورا پاکستان تاریکی میں ڈوب جاتا نوازشریف نے اپنے آخری دور میں 10ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی لیکن یہ سمجھ نہیں تھی کہ بجلی کی ترسیل کیلئے نئی ٹرانسمشن لائن بھی چاہئے چنانچہ اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری زیادہ کارگرثابت نہیں ہوئی عمران خان جب اپوزیشن میں تھے تو ہرروز زوردیتے تھے کہ جب تک وسائل انسانی ترقی پرخرچ نہیں کئے جاتے ملک ترقی نہیں کرسکتا لیکن اقتدار میں آکر وہ نوازشریف کے منصوبوں پر گزارہ کررہے ہیں اور انہی کے منصوبوں کی تختیاں بدل کر ان کا افتتاح کررہے ہیں گزشتہ دوسال میں انسانی ترقی کاانڈیکس مزید گرگیا ہے جس کے نتیجے میں 2کروڑ سے زائدلوگ خط غربت سے نیچے آگئے ہیں وزیراعظم اور انکی ٹیم گرجتے بہت ہیں برستے نہیں تحریک انصاف کی حکومت عملی کاموں کے برعکس سوشل میڈیا کے پروپیگنڈے پرچل رہی ہے لیکن کب تک آج نہیں توکل حقیقت سامنے آجائیگی اس حکومت میں ایسی کالی بھیڑیں ہیں جنہیں کنٹرول کرنا حکومت کے بس سے باہر ہے اسکی نااہلی کا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ گندم کی فصل اترے دو ماہ ہوگئے ہیں ابھی سے گندم اورآٹے کی قلت پیداہوگئی ہے اسکی وجہ گندم کی افغانستان سے تاجکستان تک اسمگلنگ ہے۔مشیروں کوگندم کی قلت پیدا کرکے باہر سے منگوانے کامنافع بخش کاروبار ہاتھ لگاہے۔
گزشتہ ادوار میں غیر منتخب مشیر کابینہ کے اجلاسوں میں نہیں بیٹھ سکتے تھے کیونکہ مشیر رازداری کے حلف نہیں اٹھاتے لیکن موجودہ دور میں یہ کابینہ کے اجلاس میں بھی شرکت کرتے ہیں گزشتہ روز مشیروں نے اپنے جو اثاثے ظاہر کئے ڈیکلریشن سے پتہ چلتا ہے کہ سات مشیر اور معاون خصوصی غیر ملکی شہری ہیں جہاں تک اثاثوں کا تعلق ہے ظاہر کردہ اثاثے جھوٹ کا پلندہ ہیں کیونکہ رزاق داؤد اس ملک کے بہت بڑے کاروباری شخص ہیں انکے پاس اتنی دولت ہے کہ انہوں نے مہمند ڈیم کا ٹھیکہ تین کھرب روپے میں حاصل کرلیا انکی دولت دوارب نہیں دو کھرب روپے ہے اسی طرح ندیم بابرکی بڑی آئل کمپنی ہے اور انکے اثاثے کہیں زیادہ ہیں زلفی بخاری کی سینکڑوں جائیدادیں برطانیہ میں ہیں انہوں نے محض چند ظاہر کی ہیں یہی مشیراصل میں حکومت چلارہے ہیں۔اگریہ دوغلے اور جھوٹے ہیں تو اس حکومت کا اللہ ہی حافظ ہے۔
میں دراصل پاکستان کے چڑیا گھروں کی حالت زار پر لکھنا چاہتا تھا لیکن انسانوں کے چڑیا گھر کی طرف نکل گیا اسلام آباد کے مرغزار اور چڑیا گھر سے خبر آئی ہے کہ وہاں کا واحد ہاتھی جو25برس سے قیدسے بیمار ہوگیا ہے یہ ہاتھی کمبوڈیا نے تحفے میں دیا تھا غذائی قلت اور دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے کمبوڈیا نے یہ واپس مانگ لیا ہے چنانچہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ اسے واپس بھیجا جائیگا اگریہ کمبوڈیا کے جنگلوں میں جانے تک بچا رہا تو اپنے اصل مسکن پہنچ پائے گا مجھے کوئی توقع نہیں کہ حکومت یہ قدم اٹھائے گی۔
پاکستان کے بڑے بڑے شہروں میں عرصہ دراز سے چڑیا گھر موجود ہیں کراچی اور لاہور کے ”زو“ توانگریزوں نے قائم کئے تھے جبکہ کراچی میں ایک سفاری پارک بھی بنایا گیا تھا ان چڑیا گھروں میں جانوروں کی بہت بری حالت ہے انکو بہت کم خوراک دی جاتی ہے۔میونسپل عملہ انکے حصے کی خوراک یعنی پیسے خود کھاجاتا ہے بیمار جانوروں کاعلاج معالجہ نہیں ہوتا جس کی وجہ سے اکثر جانور مرجاتے ہیں حالانکہ یہ جانور دنیا کے مختلف ممالک سے کروڑوں روپے خرچ کرکے منگوائے جاتے ہیں حکومت کو چاہئے کہ مظلوم اور بے زبان مخلوق پرمزید ظلم نہ ڈھائے اورزو ختم کرکے تمام جانوروں کو آزاد کردے اسلام آباد کے مرگلہ پہاڑ میں جو بندرہیں وہ صحت مند اور خوش وخرم ہیں جبکہ چڑیا گھر کے اندر بندر ایک سال ہی میں مرجاتے ہیں کراچی میں شیروں کاوہی حال ہے جو کچی آبادی میں رہنے والے غریب آبادی کا ہے کے ایم سی ہرمعاملہ میں بری طرح ناکام ہے ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ جس ملک کے عام انسانوں کی کوئی وقعت نہ ہواسکے پنجروں میں بند جانوروں کی کیا وقعت ہوگی۔
ہمارے سامنے مشرقی ایشیائے ممالک ویت نام لاؤس کمبوڈیا اور تھائی لینڈ بھوک سے مررہے تھے آج انکی حالت بدل چکی ہے۔حالانکہ امریکی حملوں میں ویت نام کی اینٹ سے اینٹ بج چکی تھی جبکہ کمبوڈیا لاؤس کافی عرصہ تک خانہ جنگی کاشکار رہے اس وقت ویت نام 8فیصد کی شرح سے ترقی کررہا ہے جو ساری دنیا سے زیادہ ہے۔کمبوڈیا اورتھائی لینڈ اپنے پیروں پر کھڑا ہوچکے ہیں،تھائی لینڈ کے سوا باقی ممالک میں فوج کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے انہوں نے اپنے اخراجات کنٹرول کرکے صنعتی پیداوار میں اضافہ کیا ہے۔جنگ زدہ ویت نام امریکہ کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے بیشترامریکی فرنیچر کمپنیوں نے اپنے کارخانے وہاں پر لگارکھے ہیں وہ ٹیکسٹائل گارمنٹ میں بھی بنگلہ دیش سے آگے ہے ان تمام ممالک کے مقابلے میں پاکستان بہت پیچھے چلا گیا ہے اسکی وجوہات تو پرویز ہودبھائی کئی بار بیان کرچکے ہیں ہود بھائی ایک پاگل انسان ہے اسکی اصلیت تو معلوم نہیں بظاہر وہ بہت سچ بولتا ہے اور سچ ہمیشہ کڑوا ہوتا ہے۔پاکستانی زعماء کو بیٹھ کوسوچنا چاہئے کہ جنوبی ایشیاء کادوسرا بڑا ملک اس حالت کو کیوں پہنچا۔جب تک اسکے اسباب وعوامل کا کھوج لگاکر درست علاج دریافت نہیں کیاجاتا یہ ملک مزید پستی کی طرف چلاجائیگا ایک وجہ تو منصوبہ بندی اور وسائل کو غلط جگہ خرچ کرنا ہے مثال کے طور پر لاہور کے لوگ اچھے اسپتالوں سے محروم ہیں لیکن شہبازشریف نے ایک ارب ڈالر کی لاگت سے اورنج ٹرین منصوبہ شروع کیا بجلی کے ایسے پلانٹ لگائے گئے جن کا ایندھن ہزاروں میل دورے لایاجاتا ہے حالانکہ چین اپنے ہاں کوئلہ کے پلانٹ ختم کرچکا ہے لیکن پاکستان میں وہ کوئلہ سے کام لے رہا ہے گوادر میں لوگوں کو پینے کا پانی نہیں ہے لیکن میرین ڈرائیو بناکر چند برقی قمقمے روشن کرکے دنیا کو بتایا جارہا ہے کہ گوادر ایک خوبصورت شہر کا روپ دھار چکا اس کا مقصد اوورسیز پاکستانیوں سے مزید رقم بٹورنا ہے حکومت بلوچستان نے گزشتہ روز ایک تیس سالہ منصوبے کااعلان کیا ہے جس کے تحت دعویٰ کیاجارہا ہے کہ اس عرصے میں پوری ساحلی پٹی کو ترقی یافتہ بنادیا جائیگا اس مقصد کیلئے غیرملکی سرمایہ کاروں کو آنے کی دعوت دی گئی ہے اس منصوبے کی ہم کافی عرصہ سے نشاندہی کررہے ہیں جس کا مقصد سی پیک اتھارٹی کو ایک مکمل خودمختار ادارہ بنانا ہے اور گوادر میں مصروف تمام اداروں کو اس کے تابع لانا ہے جن میں پورٹ اتھارٹی جی ڈی اے کوسٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی این ایچ اے سول ایوی ایشن وغیرہ شامل ہیں ارادہ یہی ہے کہ ساحلی پٹی کو کسی نہ کسی طرح وفاقی تحویل میں لیاجائے اور چین کوہروہ سہولت فراہم کی جائے جو اسے درکار ہے صوبائی حکومت تو اپنے منصوبے مکمل کرنے میں ناکام ہے وہ سات سوکلومیٹرساحل کو کیسے ترقی دے کر ہانگ کانگ یادوبئی بناسکتی ہے یہ کام اور ادارے کریں گے صرف پہلے مرحلے میں نام صوبائی حکومت کا استعمال ہوگا۔مجھے ذاتی طور پر یہ پریشانی ہے کہ ہنگول نیشنل پارک کا کیا بنے گا؟اور ”ورون“ میں جو بکرے ہیں ان میں سے چند دانے بچیں گے کہ نہیں کیونکہ پورے علاقے کا ایکوسسٹم تبدیل ہورہا ہے جس طرح مقامی آبادی ناپید ہوجائے گی اسی طرح مقامی جنگلی حیات بھی معدوم ہوسکتی ہے۔