لگتا ہے این ڈی ایم اے کو ہی ختم کرنا پڑے گا: چیف جسٹس

سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ این ڈی ایم اے کو کرونا، سیلاب اور ٹڈی دل سے نمٹنے کا کام سونپا گیا ہے۔کرونا وبا کے دوران حکومتی اقدامات سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ نیشنل ڈیزازسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) اخراجات میں شفافیت دیکھانے میں ناکامیاب رہی ہے۔

منگل کو چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ نے کرونا وائرس پر حکومتی اقدامات سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی جس میں این ڈی ایم اے کی جانب سے دستاویزات نہ جمع کرانے پر چیف جسٹس نے کہا کہ ‘لگتا ہے این ڈی ایم اے کو ہی ختم کرنا پڑے گا۔’

عدالت کا کہنا تھا کہ چیئرمین این ڈی ایم اے وضاحت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ‘شاید بہت کچھ غلط ہوا ہے جس پر پردہ ڈالنے کی کو شش کی جارہی ہے۔ کیوں نا چیئرمین این ڈی ایم اے کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کر دیں۔’

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ این ڈی ایم اے نے ابھی تک اہم دستاویز جمع نہیں کرائے۔ الحفیظ کمپنی کی مشینری کی درآمد کی اجازت دینے کی دستاویز کہاں ہیں؟ تین بار حکم دینے کے باوجود دستاویز کیوں نہیں دیے گئے؟’

ڈائریکٹر ایڈمن ائن ڈی ایم اے نے عدالت کو بتایا کہ الحفیظ کمپنی کی مشینری این ڈی ایم اے نے درآمد نہیں کی۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا: ‘ابھی تک الحفیظ کمپنی کا مالک سامنے نہیں آسکا۔ اصل مسئلہ کسٹم اور دیگر قوانین پر عمل نہ ہونا ہے۔ چارٹر کے لیے ایک کروڑ سات لاکھ سے زائد نقد رقم ادا کی گئی۔ چارٹر معاہدے کے مطابق ادائیگی کیسے کرسکتے ہیں۔ کراچی میں اتنا کیش کوئی کیسے دے سکتا ہے۔ لگتا ہے ہمارے ساتھ کسی نے بہت ہوشیاری اور چالاکی کی ہے۔’

چیف جسٹس نے ویکسین اور ادویات کی درآمد کے دستاویز کے حوالے سے پوچھا کہ وہ کہاں ہیں؟ ‘اٹارنی جنرل صاحب، کیا تماشہ چل رہا ہے؟’چیف جسٹس نے کہا کہ ‘کیوں نا این ڈی ایم اے کو ختم کرنے کے لیے سفارش کر دیں۔ کسی کو ایک روپے کا فائدہ بھی نہیں پہنچنے دیں گے۔ ملک کے اداروں کو شفاف انداز میں چلنا چاہیے۔’ چیف جسٹس نے کہا کہ نقد ادائیگی اس کمپنی کو کی گئی جس کا کوئی واسطہ ہی نہیں تھا۔ ‘لگتا ہے چین میں پاکستانی سفارت خانے نے چین کو نقد ادائیگی کی ہے۔’

جسٹس اعجاز الااحسن نے ریمارکس دیے کہ این ڈی ایم اے کو کھلا ہاتھ اور بھاری فنڈز دیے گئے تا کہ کرونا سے لڑا جا سکے۔ ‘کرونا، سیلاب، ٹڈی دل اور سب کچھ این ڈی ایم اے کو سونپا گیا ہے۔ این ڈی ایم اے عدالت اور عوام کو جوابدہ ہے۔’

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ این ڈی ایم اے ٹڈی دل کے لیے جہاز اور مشینری منگوا رہا ہے۔ ‘صرف زبانی نہیں دستاویز سے شفافیت دکھانی پڑے گی۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ اربوں روپے کیسے خرچ کررہا ہے۔ این ڈی ایم اےکے میمبر ایڈمن کو خود کچھ معلوم نہیں ہے۔’اٹارنی جنرل نے این ڈی ایم اے کے جمع شدہ جواب واپس لینے کی استدعا کردی اور کہا کہ دستاویز سمیت جامع جواب جمع کرائیں گے۔

عدالت نے این ڈی ایم کا جواب ممبر ایڈمن کو واپس دے دیا اور تمام تفصیلات پر مبنی جامع جواب طلب کر لیا۔ اس کے علاوہ عدالت نے ایس ای سی پی سے الحفیظ کمپنی کی تمام تفصیلات طلب کر لیں۔

چیف جسٹس نے ادویات کے معاملے پر سوال کیا کہ ڈریپ نے نان رجسٹرڈ ادویات کی درآمد کی اجازت کیسے دی؟ کس ہسپتال نے مشینری اور ادویات مانگی تھیں؟ بھارت سے آنے والی ادویات کون سی تھیں؟

چئیرمین ڈریپ نے عدالت کو بتایا کہ ایمر جنسی میں ادویات اور مشینری درآمد کرنے کی اجازت دے سکتے ہیں۔ بھارت سے آنے والی ادویات کی درآمد پر پابندی لگی تھی۔ بھارت سے خام مال دوبارہ آرہا ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بھارت سے آنے والی ادویات غیر قانونی تھی اور اس کی حیثیت کیا تھی؟اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ وفاقی کابینہ نے چند ادویات کی اجازت دی لیکن درآمد بہت زیادہ ہوئیں، شہزاد اکبر نے رپورٹ جمع کرائی کہ اجازت کا غلط استعمال کیا گیا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ڈریپ کی ملی بھگت کے بغیر کوئی بھی دوا نہیں آسکتی۔ انہوں نے کہا کہ ڈریپ کی ناک کے نیچے جعلی ادویات مل رہی ہیں۔ ‘جعلی ادویات بنانے والوں اور فروخت کرنے والوں کو سزائے موت ہونی چاہیے۔ پاکستان میں زیادہ سے زیادہ دو ہفتے کی سزا ہوتی ہے۔ جعلی دوائی بیچنے والے کو زیادہ سے زیادہ 10 ہزار روپے جرمانہ ہوتا ہے۔’

اپنا تبصرہ بھیجیں