اژدہام

جمشید حسنی
مارک ٹوئین امریکن مزاح نگار تھا۔ارنسٹ ہمنگو ے بھی بہت مشہور ہیں مارک ٹوئین نے کہا کہ لاکھوں اربوں لوگ پیدا ہوتے ہیں وہ ایک دوسرے سے معمولی مفادات کے لئے جھگڑتے رہتے ہیں۔آخر موت انہیں آن لیتی ہے کچھ لوگ چند روز انہیں یاد رکھتے ہیں اور انہیں ہمیشہ کے لئے بھلا دیا جاتا ہے پیغمبر ہادی نبی بھی تو اللہ کے چنے ہوئے لوگ ہوتے ہیں۔ان کی رہبری الہامی ہوتی ہے بات یہ ہے کہ یہاں کتنے فیصد لوگ زندگی مقصدیت کے تحت گزارتے ہیں معاشروں میں توازن عدل اعتدال کے لئے قدس ہوتی ہے معاشرہ سے برائی کے خاتمہ اور بھلائی کے لئے تعاون علی البر و تہنون عن المنکر ضروری ہوتا ہے انسان کے پیدا ہوتے ہی آزمائش کے لئے شیطان کو اس کا دشمن بنادیا گیا یہی سے خیر وشر پیدا ہو ئے انسان کا داخلی اردارہ کا تصور آیا۔کچھ معاملات میں کو فکر کی کچھ نہ کچھ آزادی حاصل ہے۔میں سوچتا ہوں زندگی میں کیاکیا۔کیا کھویا کیا پایا۔نہ فلسفی ہیں نہ مصلح نہ تو کسی خاص شعبہ میں انسانیت کی خدمت کرسکے زندگی ضائع کی اب سوائے پشیمانی کچھ نہیں۔کہتے ہیں لوگ معاشرہ کی پیداوار ہوتے ہیں کونسلا معاشرہ؟جہاں اقتداردولت طاقت پیمانہ ہوں سیاست کے لئے ارب پتی ہونا ضروری ہے۔یہاں مذہب ضابطہ اخلاق کی بجائے مفادات کی ڈھال ہے۔قانون طاقت ور ہے۔عام آدمی دو وقت کی روٹی کے لئے پریشان ہے کس کو کتنا ملتا ہے یہ طاقت ور طے کرتا ہے۔صرف پندرہ سیاستدانوں کی دولت کے حساب نے لوگوں کا سر چکرادیا ہے ان کی بیرون ملک دولت جائیدادیں ہیں اقتدار ہے کارخانے ہیں۔ووٹ لئے بغیر قومی فیصلے کرتے ہیں بابر اعوان کا اسپین میں ایک کروڑ کا جائیداد ہے۔شہباز گل گیارہ کروڑ کے مالک ہیں۔مگر مکر گئے میرے پاس کچھ نہیں۔رزاق داؤد 4ارب روپے کے اثاثے،عبدالحفیظ شیخ تیس کروڑ روپے،زلفی بخاری کا لندن میں 48لاکھ پچاس ہزار پاؤنڈ کا گھر ہے۔بیگم کے پاس سترہ لاکھ پاؤنڈ ہیں۔پانچ لاکھ پاؤنڈ کا سونا ہے۔ظفر مرزا کے پاس 5کروڑ 70لاکھ ہیں بیگم کے پاس تیس لاکھ کے زیوارات ہیں۔عثمان ڈار چھ کروڑ رپے،ندیم بابر دو کروڑ75لاکھ روپے،ثانیہ نشتر کہتی ہے وہ دو کروڑ قرض دار ہیں معلوم نہیں گھر میں آٹا نہیں تھا یہا ں بچوں کی فیس۔ کہتی ہے پانچ لاکھ کا سونا ہے یعنی پانچ تولے چلو مان لیا۔اب کہتے ہیں دو کروڑ اثاثے ہیں۔سردار عبدالرب نشتر جب ملتان میں فو ت ہوئے ان کی جیب میں اٹھہتر(78)روپے تھے۔۔شہزاد اکبر 9کروڑ گیارہ لاکھ،عشرت حسین کے پاس ایک ارب سترہ کروڑ ہیں ثانیہ کینیڈین سنگاپورپاکستانی شہریت ہے۔1300 کینال اراضی ہے5لاکھ پاؤنڈ کا سونا ہے پانچ کمپنیاں ہیں۔معید یوسف امریکی ہیں مگر وہ انکاری ہیں میرا کچھ نہیں 34 کنال کا اسلام آباد میں پلاٹ ہے ماشاء اللہ ہمارے سردار یار محمد رند بھی کروڑ پتی ہیں۔ کبھی ضلع کچھی کے بلدیاتی چیئرمین تھے۔ شہزاد اکبر پانچ کروڑ اثاثے ہیں سید قاسم امریکی ہیں۔ ندیم بابر امریکی ہیں کابینہ اور اس کے سترہ لاکھ پاؤنڈ بیرونی کمپنیوں میں ہیں ہاں تو صاحب یہ دولت کیسے آئی ہم تو پاکستان میں سول سروس کی بیس گریڈ نوکری میں تنخواہ ایک پہلی سے دوسری تک انتظار کرتے کرتے دم دم نکل جاتا۔ اللہ کی مرضی جسے چاہے بے حساب رزق دے پھر زرداری یہ شریف خاندان ملک ریاض میاں منشاء اب تو لوگ جہانگیر ترین کو بھول گئے ایوبی دور سہگل ہارون فیملی تھی جاگیر دار اس کے علاوہ تھے۔ سلطان چانڈیو پاکستان کے سب سے بڑے جاگیر دار تھے۔ نواب ذوالفقار مگسی کے دادا نواب محبوب علی خان کی پانچ لاکھ ایکڑ اراضی تھی۔ چانڈیو معتبرین کسی قبائلی مسئلہ میں فیصلہ کیلئے سلطان چانڈیو کے پاس کراچی گئے۔ کہا میں نہیں آسکتا چنانچہ ان کے لئے جہاز چارٹرڈ کیا گیا وہ فیصلہ کیلئے شہداد کوٹ آئے۔ نواب محبوب علی خان ویسٹ پاکستان اسمبلی کے ممبر تھے آج کل ان کے پوتے خالد خان ایم این اے اس سے پہلے اس کے بھائی طارق خان MNA رہے
معاشرہ میں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ترقی کی ضامن نہیں ہوسکتی اس لئے انقلاب فرانس 1789 میں آیا۔ روس چین میں سوشلسٹ انقلاب آئے۔ غیر مساوی معاشرہ میں شخصی صلاحتیں طبقاتی تقسیم کے سبب نہیں نکھر سکتیں۔ غریب گھر روٹی تعلیم صحت سے محروم رہتا ہے صلاحتیں ضائع جاتی ہیں ہم روز اسلئے ہیں اتنے کروڑ بچے سکول نہیں جانتے ملک میں اتنے فیصد غربت ہے مغربی ممالک کی ترقی کا راز تعلیم ہنر مندی میں تھا۔وہاں صنعتی انقلاب آیا۔ تحریک احیائے علوم آئی امریکہ نے برطانیہ سے آزادی حاصل کی جرمنی میں مارٹن لوتھرکنگ پروٹسٹ ازم کی بنیاد رکھی روس چین میں سوشسلٹ انقلاب آئے یورپ میں دو عظیم جنگیں لڑی گئیں۔ ہم انگریز کی غلامی مین سو سال سوتے رہے۔ ہندوستان کی ایک بدبختی اس کی خود کفالت تھی۔ فعل کمزور ہوگئے محمود غزنووی نے سترہ حملے کئے نادر شاہ ایران سے آیا دو سال دہلی میں رہا۔ دہلی میں رہا۔ روز کے قتل عام میں ساٹھ ہزار لوگ مروائے۔ تخت طارس بھی ایران لے گیا۔ لارڈ کلائیو جسے لوگوں نے لوٹ مار سے رہی سہی پوری کردی۔
بات یہ ہے کہ آج ہم کیا ہیں کہاں ہیں پہلے جہانگیر ترین کو اے ٹی ایم کہا جاتا تھا اب معلوم یہاں کے گربہ مسکین عمران خان اپنے کمپیوٹر کے کی بورڈ پرجہاں انگلی رکھے ایک اے ٹی ایم ہے۔۔۔ اب کو تین سال مزید سہنے ہیں انتخابات تک انتظار کرنا ہوگا حزب اختلاف والے کو لینے فرشتے ہیں انہیں قوم بار بار ٓزما چکی ہے حکومت وہی کرے گی جو ورلڈ بینک تا آئی ایم ایف کہے گا۔
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں