ہائی کورٹ کو قانونی دائرے میں رہنا چاہئیے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

اسلام آباد(صباح نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ہائی کورٹ کو قانونی دائرے میں رہنا چاہیئے، پھر ساری چیزیں ختم کریں، سارے کام ہائی کورٹ کرے۔ سادہ سی بات ہے جس ادارے کے سٹیچیوٹری رولز نہ ہوں تواس کے خلاف ہائی کورٹ کا دائرہ اختیار استعمال نہیں ہوسکتا۔ وکیل کیس کی وضاحت کرتا ہے،اِدھر پڑھو،اُدھر پڑھو،اوپر پڑھو، نیچے پڑھو۔ ہم جمع ہوتا ہے یا بادشاہ سلامت ہوسکتا ہے، وکیل میں کہہ سکتے ہیں۔ جب کوئی مرجاتا ہے توکیا کیس ختم ہوجاتا ہے، مجھے سمجھ نہیںآرہی وکیل کیا معاونت کررہے ہیں، اگر ریونیو ریکارڈ میں لکھا ہے تووکیل بیٹھ جائیں ہم خود ہی کیس چلالیں گے۔جبکہ عدالت نے پشاور بس ٹرمینل کی نیلامی کے حوالہ سے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلہ میں ترمیم کرتے ہوئے قراردیا کہ اگر مدعا علیہ اپنی بس ٹرمینل پر کھڑی کرنا چاہتا ہے تواس پر درخواست گزار کو اعتراض نہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس نعیم اخترافغان اور جسٹس عقیل احمد عباسی پر مشتمل 3رکنی بینچ نے جمعہ کے روز فائنل کاز لسٹ میں شامل 8کیسز کی سماعت کی۔ینچ نے ڈپٹی سیکرٹری III،لوکل کونسل بورڈ ، پشاور اوردیگر کی جانب سے خیال محمد اوردیگرکے خلاف جنرل بس اسٹینڈ پر گاڑیاں کھڑی کرنے کے تنازعہ پر پشاور ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ دوران سماعت صوبائی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا شاہ فیصل الیاس پیش ہوئے جبکہ مدعا علیہ خود یا ان کا وکیل عدالت میں پیش نہ ہوئے۔ دوران سماعت کورٹ ایسوسی ایٹ حنا امتیاز کی جانب سے بتایا گیا کہ مدعا علیہ خیال محمد کے بیٹے کی جانب سے عدالتی نوٹس وصول کیا گیا۔ اس پر چیف جسٹس نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے پی کو ہدایت کی کہ وہ بیٹھیں بعد میں یہ کیس دوبارہ سنتے ہیں شاید مدعا علیہ آجائیں۔ جب کیس کی دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے بتایا کہ اگر مدعا علیہ کی بس ہے تووہ کنٹریکٹر کے پاس جائے، بس اسٹینڈ کی نیلامی کردی ہے، روزانہ کے حساب سے بس اسٹینڈ کا ٹھیکیدار پیسے ادا کرتا ہے۔ جسٹس نعیم اخترافغان کا کہنا تھا کہ مدعا علیہ نے بس اسٹینڈ کی نیلامی کو چیلنج نہیں کیا۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم آرڈر پاس کریں توکوئی گڑ بڑنہ ہوجائے۔ شاہ فیصل الیاس کاکہنا تھا کہ ٹھیکیداردلاور روزانہ کے حساب سے 2لاکھ 87ہزار روپے ادا کرتا ہے، بس اڈے سے لاہور، کراچی،کوئٹہ سمیت پورے پاکستان کے لیے بسیں جاتی ہیں۔ شاہ فیصل الیاس کا کہنا تھا کہ یہ پراپرٹی 2011میں سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ سے ٹرانسپورٹ ڈیپارٹمنٹ کو منتقل ہوئی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قراردینا ہے اس کے لئے ہمارے پاس کچھ ہونا چاہیئے، دستاویزات جمع کروادیں۔ اس پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کاکہنا تھا کہ انہوں نے دستاویزات جمع کروادی ہیں۔ جسٹس نعیم اخترافغان کا کہناتھا کہ جو نیلامی کی کیا وہ ریکارڈ پر ہے۔ اس پر شاہ فیصل الیاس کا کہنا تھا کہ ریکارڈ پر ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آج کون ٹھیکیدار ہے۔ اس پر شاہ فیصل الیا س کاکہنا تھا کہ دلاور خان ہے اور2020سے بس اسٹینڈ اس کے پاس ہے۔ شاہ فیصل الیاس کا کہنا تھا کہ مدعا علیحان کی بس بھی نہیں ہے۔ جسٹس عقیل عباسی کاکہنا تھا کہ مدعا علیہ سے زیادتی کی گئی بغیر نوٹس بس اٹینڈ واپس لیا گیا، کیا توجیح پیش کرتے ہیں یکطرفہ طور پر کیا۔ شاہ فیصل الیاس کا کہنا تھا کہ مدعاعلیہ اب بھی آجائے اور بس کھڑی کرلے ، مدعا علیہ نمبر 1دیگر لوگوں کی طرح بس ٹرمینل پر بس پارک کرسکتا ہے۔ چیف جسٹس کا حکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ پشاو رہائی کورٹ کا فیصلہ دوسرا تاثر پیدا کررہا ہے۔ مدعا علیہ کو بس ٹرمینل استعمال کرنے سے نہیں روکا گیا اس سے درخواست گزار مطمئن ہو گا۔ 12فروری 2020کو نیلامی ہوئی اور دلاورخان نے بولی جیتی، آج بھی بس ٹرمینل دلاور خان کے پا س ہے اور مدعا علیہ نے بولی کے عمل کو چیلنج نہیں کیا۔ گزشتہ سماعت پر مدعا علیہ نمبر 1اور5کو نوٹسز جاری کئے تھے تاہم وہ پیش نہیں ہوئے۔ عدالت نے متذکرہ بالا شرائط کے ساتھ پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے میں ترمیم کی جاتی ہے۔ بینچ نے محمد ہارون خان کی جانب سے محمد یعقوب خان اوردیگر کے زمین کے تنازعہ پر دائر درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزار کی جانب سے نوید اختربطور کیل پیش ہوئے۔چیف جسٹس کا وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا کہ کب سے دلائل دینے کے لئے اجازت لینا ہوتی ہے، کیس چلایئے۔ جسٹس نعیم اخترافغان کا کہنا تھا کہ جس وقت 890کنال14مرلے زمین محمد ہارون خان کے نام ہوئی وہ 11سال کاتھا، نانا اس کاگارڈین بنا، اگر یعقوب خان کی زمین تھی وہ اپنی دوسری بیوی ممتاز بیگم کے نام کردیتا۔ اس پر وکیل کاکہنا تھا کہ یہ بہنوں کی زمین تھی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ پراپرٹی کس کے پاس ہے، ہم جمع ہوتا ہے یا بادشاہ سلامت ہوسکتا ہے، وکیل میں کہہ سکتے ہیں۔ وکیل کاکہنا تھا کہ ہمارے پاس زمین ہے اور ہم اس پرکاشتکاری کررہے ہیں ۔ جسٹس نعیم اختر افغان کا کہنا تھا کہ خاتون نے ڈگری لینے کے بعد زمین بیچی۔ زمین خریدنے والے مدعاعلیحان کے وکیل کاکہنا تھا کہ انہوں نے 1977سے1980کے درمیان زمین خریدی۔ چیف جسٹس کا وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہسٹری نہیں سنوں گاسوالوں کے جواب دے دیں۔ جسٹس عقیل احمد عباسی نے وکیل سے سوال کیا کہ کیا زمین آپ کے نام بھی ہو گئی۔ اس پر وکیل کاکہنا تھا کہ ہوگئی۔ چیف جسٹس کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم گھر میں بیٹھ کر فائل پڑھ لیں، معاونت نہیں کررہے کوئی بات نہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جب کوئی مرجاتا ہے توکیا کیس ختم ہوجاتا ہے، مجھے سمجھ نہیںآرہی وکیل کیا معاونت کررہے ہیں، اگر ریونیو ریکارڈ میں لکھا ہے تووکیل بیٹھ جائیں ہم خود ہی کیس چلالیں گے۔ عدالت نے مزید دستاویزات جمع کروانے کے لئے وکلاء کو دوماہ کاوقت دے دیا۔بینچ نے راجہ طاہر محمود کی جانب سے منیجنگ ڈائریکٹر پنجاب منرل ڈیویلپمنٹ کارپوریشن لاہوراور دیگر کے خلاف غیر حاضری کی بنیاد پر نوکری سے فارغ کرنے کے معاملے پر دائر نظرثانی درخواست پر سماعت کی۔درخواست میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا ہے۔ درخواست گزار کی جانب سے محمد منیر پراچہ اور خواجہ محمد عارف بطور وکیل پیش ہوئے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سادہ سی بات ہے جس ادارے کے سٹیچیوٹری رولز نہ ہوں تواس کے خلاف ہائی کورٹ کا دائرہ اختیار استعمال نہیں ہوسکتا۔ وکیل خواجہ محمد عارف کا کہنا تھا کہ الزام ہے کہ درخواست گزار کی کوئی لڑائی ہوئی تھی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پروسیجر پر عمل ہوا، ہم ایپلٹ کورٹ نہیں ہیں اور نہ ہی ہائی کورٹ ایپلٹ کورٹ ہے، شوکاز ہوا، انکوائری ہوئی، ذاتی شنوائی کا موقع دیا گیا، پروسیجر پر عمل ہوا، کیا ہائی کورٹ ایپلٹ کورٹ بن جائے گی،ذاتی شنوائی کاموقع دیا گیا اورنوکری سے نکالا گیا۔ وکیل کاکہنا تھا کہ درخواست گزار نے محکمانہ اپیل دائر کی جوکہ 10نومبر2021کو مستردہوئی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمارا کام دیکھنا ہے کہ پروسیجر پر عمل ہوا کہ نہیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ کو قانونی دائرے میں رہنا چاہیئے، پھر ساری چیزیں ختم کریں، سارے کام ہائی کورٹ کرے۔چیف جسٹس کا وکیل محمد منیر پراچہ کی عدم حاضری پر برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہنا تھا کہ جب منیرپراچہ کاموڈ ہواُس وقت عدالت لگالیں، پہلے بھی ان کاانتظار کیاوہ نہیں آئے۔اس کے بعد منیر پراچہ بینچ کے سامنے پیش ہوگئے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ درخواست گزار کس گریڈ میں تھے۔ اس پر منیر پراچہ کاکہنا تھا گریڈ15میں تھے۔ منیر پراچہ کاکہنا تھا کہ پیڈا ایکٹ پنجاب کے تحت اگر انکوائری افسر کی جانب سے تجویز کی گئی سزا کو بڑھانا مقصود ہوتودوبارہ متعلقہ اتھارٹی کی جانب سے شوکاز نوٹس جاری کرنا ضرور ی ہے جو کہ جاری نہیں ہوا۔ منیر پراچہ کاکہنا تھا کہ متعلقہ اتھارٹی کی جانب سے فیصلہ جاری نہیں کیا گیا،قانون کے مطابق وزیر اعلیٰ پنجاب یااُس کانامزد کردہ شخص فیصلہ کرے گا۔ منیرپراچہ کاکہنا تھا کہ سیکرٹری کی جانب سے حکم جاری ہوا۔ چیف جسٹس کا منیر پراچہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اگر وقت ضائع کریں گے توہم جرمانہ کریں گے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کہاں لکھا ہے کہ ہائی کورٹ کے پا س دائرہ اختیار ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وکیل کیس کی وضاحت کرتا ہے،اِدھر پڑھو،اُدھر پڑھو،اوپر پڑھو، نیچے پڑھو۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہائی کورٹ نے آئینی دائرہ اختیار استعمال کیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پاکستان کے قانون میں قتل کی سزا یا پھانسی ہے یا عمر قید ، وکیل نظرثانی دائرہ اختیار سے باہرجارہے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ درخواست گزار کے وکلاء کی جانب سے اٹھائے گئے نکات قابل غو ر ہیں۔ عدالت نے مدعا علیحان اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں