اقتدار کی جنگ کا ایک اور مرحلہ

تحریر: انور ساجدی
لگتا ہے کہ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اپوزیشن کی عدم موجودگی میں حکومت مخالف کردار ادا کر رہے ہیں۔ انہوں نے آئی ایم ایف کے ساتھ جو خفیہ معاہدہ کیا رفتہ رفتہ اس کی تفصیلات سامنے آ رہی ہیں۔اس معاہدہ کے تحت بجلی گیس اور دیگر اشیاء کی قیمتوں میں ہوشربا حد تک اضافہ شامل ہے۔دو روز قبل حکومت نے بجلی کے ٹیرف میں جو ڈیڑھ سوفیصد اضافہ کیا اس کے بعد بجلی کی قیمت70اور90 روپے فی یونٹ رہے گی۔یعنی اگر ایک صارف8سو یونٹ خرچ کرے تو اس کا بل70 ہزار روپے آئے گا حکومت ایک طرف آئی پی پی ایز کے مہنگے معاہدوں کو بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کا سبب بتا رہی ہے دوسری جانب چوری کو مورد الزام ٹھہرا رہی ہے۔جو بھی ہو عام آدمی کو تفصیلات کا علم نہیں وہ بس اتنا جانتے ہیں کہ بجلی کے بل دینا ان کی قوت برداشت سے باہر ہے۔یہی وجہ ہے کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ اور قیمتوں میں اضافہ کے خلاف ملک بھر میں وقتاً فوقتاً مظاہرے اور ہنگامہ آرائی ہوتی رہتی ہے۔پختونخوا میں وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور ان کے وزیر اور اراکین اسمبلی خود گرڈ اسٹیشنوں پر جا کر بجلی زبردستی کھول دیتے ہیں دو روز قبل بلوچستان میں بھی کافی مظاہرے ہوئے جبکہ جماعت اسلامی اکثر و بیشتر بے جان قسم کے مظاہرے کرتی رہتی ہے جن کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔اگر کوئی عوامی جماعت ہوتی تو وہ عوام کو درپیش مسائل کو لے کر ایک ملک گیر تحریک چلاتی اور حکومت کا دھڑن تختہ کرتی لیکن کوئی بھی ایسی بات نہیں۔سب مصلحتوں اور مراعات کا شکار ہیں۔ان میں تحریک انصاف بھی شامل ہے۔کوئی بھی جماعت ریڈ لائن کراس کرنا نہیں چاہتی حالانکہ تحریک انصاف اس وقت شدید انتشار کا شکار ہے۔ اس میں دھڑے بندی عروج پر ہے جن لوگوں نے عمران خان کو دھوکہ دے کر انتخابات میں کامیابی حاصل کی وہ نمائشی شور شرابے کے علاوہ اور کچھ کرنے سے قاصر ہیں۔عمران خان کے کزن اور بہنوئی حفیظ اللہ نیازی کے مطابق یہ لوگ ایجنسیوں کے بندے ہیں اور عمران خان کے بجائے انہی کے کہنے پر چل رہے ہیں۔ایک طرف تو تحریک انصاف شدید انتشار کی شکار ہے تو دوسری جانب حکومت عمران خان پر سنگین غداری کے مقدمات قائم کرنے جا رہی ہے۔حکومت جانتی ہے کہ عمران خان کے خلاف بیشتر مقدمات ثبوت نہ ہونے یا عدلیہ کی جانب سے ریلیف ملنے کی وجہ سے زائل ہوئے ہیں اس لئے اس بات کا امکان ہے کہ عمران خان کسی بھی وقت ضمانت ملنے کے بعد قید سے آزاد ہوسکتے ہیں۔اس لئے حکومت نے انہیں جیل میں رکھنے کی خاطر غداری کے مقدمات تیار کئے ہیں۔عجیب بات ہے کہ یہ مقدمات حکومت پنجاب نے بنائے ہیں حالانکہ ماضی میں سیاسی رہنمائوں کے خلاف غداری کے مقدمات ہمیشہ وفاقی حکومتوں نے ہی بنائے تھے لیکن اس مرتبہ مریم بی بی کو یہ ذمہ داری سونپ دی گئی ہے جس کا لازمی طور پر یہ نتیجہ نکلے گا کہ تمام تر روسیاہی اور بدنامی ن لیگ کے کھاتے میں جائے گی۔سب کو معلوم ہے کہ غداری کے مقدمات کس کی نگرانی میں تیار ہوئے ہیں لیکن اس کی اونرشپ پنجاب حکومت کو دی گئی ہے۔حکومت کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ماضی میں غداری کے مقدمات کا کیا حشر ہوا مثال کے طور پر1951 میں غداری کا پہلا مقدمہ راولپنڈی سازش کیس جناب فیض احمد فیض اور انکے ساتھیوں کے خلاف قائم کیا گیا تھادیگر لوگوں میں میجر جنرل اکبر رنگ روٹ، میجر اسحاق وغیرہ شامل تھے۔یہ مقدمہ کسی منطقی انجام کے بغیر ختم ہو گیا تھا۔تاہم جنرل اکبر آرمی چیف بننے سے رہ گئے تھے۔دوسرا مقدمہ ایوب خان کے دور میں شیخ مجیب الرحمن کے خلاف بنایا گیا تھا جسے ایوب خان نے خود ختم کر دیا تھا۔اتفاق سے تیسرا مقدمہ بھی یحییٰ خان نے شیخ مجیب کے خلاف ہی بنایا تھا اس کے تحت انہیں گرفتار کر کے مغربی پاکستان میں لایا گیا تھا اور وہ سقوط ڈھاکہ تک مغربی پاکستان کی مختلف جیلوں میں بند رہے۔اس مقدمے کا یہ نتیجہ نکلا کہ پاکستان دولخت ہوگیا اور بھٹو نے شیخ صاحب کو خصوصی طیارے کے ذریعے لندن بھیجا۔جہاں سے وہ ڈھاکہ چلے گئے۔ غداری کا چوتھا کیس بھٹو نے نیشنل عوامی پارٹی کے خلاف1975 میں قائم کیا تھا جسے حیدرآباد سازش کیس کا نام دیا گیا تھا یہ کیس ضیاء الحق کے مارشل لاء کے نفاذ کے چھ ماہ بعد ختم کر دیا گیا اور نیپ کی قیادت کو باعزت رہائی ملی تھی۔غداری کا پانچواں مقدمہ سابق وزیراعظم نوازشریف نے جنرل پرویز مشرف کے خلاف2014 میں قائم کیا تھا ان پر الزام تھا کہ انہوں نے آئین توڑکر منتخب حکومت کا تختہ الٹا تھا چونکہ مولانا فضل الرحمن نے آئینی ترمیم کے ذریعے جنرل مشرف کی جان بخشی کر دی تھی اس لئے خصوصی عدالت نے 12؍اکتوبر1999ء کے اقدام کے تحت کوئی کارروائی نہیں کی۔ 3نومبر 2007 کو جنرل مشرف نے ایمرجنسی لگا کر آئین کو معطل کرنے کا جو عمل کیا تھا عدالت نے انہیں مجرم قرار دے کر موت کی سزا سنائی تھی لیکن اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے انہیں نہ صرف عدالت میں پیشی سے روکا بلکہ ملک سے باہر بھیج دیا لہٰذا اب اگر عمران خان کے خلاف غداری کا ایک اور مقدمہ قائم کیا جائے گا تو اس کا حشر بھی پرانے مقدمات جیسا ہوگا۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ چار چھ پیشیوں میں عدالت اسے اڑا کر رکھ دے۔ بہرحال اس وقت طاقت کے دو عناصر کے درمیان اقتدار کی جنگ جاری ہے۔مقتدرہ نے ن لیگ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کو اپنے ساتھ ملا کر رکھا ہے جنہیں8 فروری کے انتخابات میں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔اس شکست کے باوجود انہیں حکومت دے دی گئی۔کوشش یہی ہے کہ عمران خان کو سیاست اور قیادت سے دور رکھا جائے حالانکہ اڈیالہ جیل میں طویل خفیہ مذاکرات کے ذریعے ایک معاہدہ بھی ہوا تھا لیکن عمران خان کے بقول اس معاہدہ کو حاکمان بالا نے توڑا۔شنید یہی ہے کہ عمران خان سے کہا گیا تھا کہ وہ5سالہ جلاوطنی اختیار کریں ان کی جماعت کو چلنے دیا جائے گا یہ تو معلوم نہیں کہ معاہدہ کی خلاف ورزی کس نے کی جس نے بھی کی اس نے کئی بحرانوں کو جنم دیا کیونکہ معیشت سدھرنے کا نام نہیں لے رہی ہے بجلی کا جن قابو سے باہر ہے۔حکومت بری طرح ناکام ہے۔باہر سے کوئی امداد عطیہ اور سرمایہ کاری نہیں آ رہی ہے۔حکومت اپنے ہی عوام کی کمائی لوٹ کر اپنے شاہانہ خرچ چلا رہی ہے۔ہر بات میں آئی ایم ایف کا نام لیا جا رہا ہے لیکن یہ نہیں بتایا جا رہا کہ دو نمبر جعلی اشرافیہ کی مراعات میں مزید اضافہ بھی آئی ایم ایف کا مطالبہ ہے جو ظالمانہ بجٹ بنایا گیا ہے اس کا ہدف صرف عام آدمی ہے جبکہ فوج سمیت اشرافیہ کے اراکین کو ٹیکسوں میں چھوٹ دے دی گئی ہے۔اگر وزیر خزانہ کے جابرانہ اقدامات جاری رہے تو ملک بھر میں فسادات کا آغاز ہوسکتا ہے اور ملک میں انتشار اور خلفشار کی صورت پیدا ہوسکتی ہے۔اگر شہبازشریف کو ہٹانا مقصود ہوا تو یہ کام آسانی کے ساتھ ہوگا۔پختونخواہ کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور حسب ضرورت ایک مسلح جتھہ لے کر اسلام آباد پر چڑھائی کا اعلان کریں گے تاہم اٹک پار کرنے سے پہلے یا تو ایمرجنسی نافذ کی جائے گی یا پھر عارضی مارشل لاء بھی آسکتا ہے۔کیونکہ موجودہ نظام میں خیرپختونخوا اور بلوچستان میں جاری آپریشن کو تیز کرنا ممکن نہیں ہے۔خاص طور پر پختونخواہ اپنی تحویل میں لئے بغیر آپریشن نہیں ہوسکتا۔ البتہ بلوچستان میں کوئی رکاوٹ درپیش نہیں ہوگی کیونکہ بلاول آپریشن کا جائزہ لینے بذات خود کوئٹہ آئے ہیں۔وہاں انہوں نے اصل پلان آشکار کردیا ہے۔یعنی بلوچستان میں دہشت گردی کے بیانیے کو شکست دینا ہوگی۔بلاول بچہ ہے وہ تاریخ سے واقف نہیں ہے۔ان کے نانا نے کوئٹہ میں ہاکی اسٹیڈیم کے جلسہ عام میں خطاب کرتے ہوئے1973 میں کہا تھا کہ دہشت گردوں کو شکست دینا ہوگی چنانچہ اس کے بعد ایک بدترین آپریشن شروع کر دیا گیا لیکن چار سال بعد ان کے نانا کا تختہ الٹ گیا۔اگر بلاول نے سیاست کرنی ہے تو زمینی حقائق کے مطابق چلنا ہوگا۔مطالعہ وسیع کرنا ہوگا اور معلومات کودرست رکھنا ہوگا ورنہ تاریخ بڑی ظالم ہے جس کا ادراک بلاول کو ہونا چاہیے۔

پھرسے ایک بار اجڑ جاتے ہیں
چل تیرے عشق میں پڑ جاتے ہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں