ٹروتھ اینڈ ری کنسیلیشن کمیشن

تحریر: انور ساجدی
بلوچستان میں حالیہ واقعات کے بعد دو قسم کے ردعمل سامنے آئے ہیں، حکومتی اکابرین حسب سابق ان واقعات کی شدید الفاظ میں مذمت کررہے ہیں اور عندیہ دے رہے ہیں کہ بلوچ عسکری پسندوں کے خلاف شدید کارروائی ہوگی، دوسری جانب بعض سیاسی مبصرین اور حالات کا ادراک کرنے والے لوگ ان اسباب و عوامل کو سامنے رکھ کر یہ کہہ رہے ہیں کہ امن و آشتی کی کوئی حکمت اور ترکیب اپنائی جائے ، چونکہ مسئلہ بہت پرانا ہے، 77 سال بیت چکے ہیں آج تک اس کا کوئی حل نہیں ڈھونڈا جاسکا اس لئے ریاست کے لئے یہ بات باعث تشویش ہے۔ تاہم ریاستی اکابرین کا یہ فرض ہے کہ وہ سوچیں ان کی ناکامی کی وجوہات کیا ہیں۔
اگر گزشتہ ادوار کا جائزہ لیا جائے تو ایوب خان کے دور میں گرفتاریوں، پھانسیوں اور بدعہدیوں کی وجہ سے مسئلہ گمبھیر ہوگیا۔ جبکہ 1973 میں پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بدترین فوجی آپریشن کرکے بلوچوں کو ریاست کے خلاف باغی بنا دیا۔ بھٹو نے اگست 1975 میں عام معافی کا نام نہاد اعلان کیا اور اعلان کیا کہ جو لوگ حکومت کے آگے سرنڈر کریں گے انہیں عام معافی دی جائے گی اور انہیں سیٹل کرنے میں مدد دی جائے گی۔ اس اعلان کے بعد ایک ڈرامہ شروع ہوا، ڈپٹی کمشنروں کے ذریعے ایسے لوگوں کے جتھے جمع کئے گئے جو کبھی پہاڑوں پر گئے ہی نہیں تھے انہےں سرکاری بندوقیں دے کر سرنڈر کا ڈرامہ رچایا گیا۔ قبائلی سرداروں کو مراعات دے کر ان سے حکومت کے حق میں بیانات دلوائے گئے۔ بھٹو نے ایک جانب نیشنل عوامی پارٹی کو کالعدم قرار دے کر اس کے اہم لیڈروں خان عبدالوالی خان، میر غوث بخش بزنجو، نواب خیر بخش مری، سردار عطاءاللہ خان مینگل ، میر گل خان نصیر سیاسی وابستگیوں سے آزاد میر شیر محمد مری عرف جنرل شیروف ، طالب علم لیڈر استاد افراسیاب خٹک ، بی ایس او کے رہنما میر اسلم کرد اور متعدد دیگر رہنماﺅں پر غداری کے مقدمات چلائے گئے۔ حیدر آباد جیل کے اندر ٹریبونل نے کارروائی شروع کردی، جج حےران تھے کہ یہ کیا مقدمہ ہے، نہ کوئی ثبوت ہیں نہ شہادت، چند پولیس کے افسران اور ایک آدھ صحافی وعدہ معاف گواہ بنا کر پیش کئے گئے۔ یہ کارروائی 5 جولائی 1977 تک چلی۔ اسی روز جب ضیاءالحق نے مارشل لاءنافذ کردیا تو حیدر آباد سازش کیس اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیا۔ ضیاءالحق نے حیدر آباد جیل جا کر ولی خان، بزنجو اور سردار عطاءاللہ مینگل سے ملاقات کی اور یقین دہانی کروائی کہ انہیں جلد آزاد کردیا جائے گا۔ کہا جاتا ہے کہ نواب مری نے ضیاءالحق سے گفتگو سے گریز کیا جس کی وجہ سے ملاقات مختصر رہی۔ یہ بات ریکارڈ پر لانے کی ضرورت ہے کہ بھٹو نے گرفتاری کے بعد بلوچ رہنماﺅں کو الگ رکھا اور پختون رہنما کو جدا رکھا۔ 1974 میں بھٹو نے بلوچ رہنماﺅں کے ساتھ شرارت اور مذاق شروع کردیا۔ انہوں نے مختلف شخصیات کو راولپنڈی کے سہالہ ریسٹ ہاﺅس بھیجا اور ان سے کہا گیا کہ وہ بلوچ رہنماﺅں سے پوچھیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ پہلے رئہنما میر احمد نواز بگٹی تھے جو سردار مینگل کی کابینہ کا حصہ رہ چکے تھے۔ خیر وہ تو بڑی شخصیت تھے ان کی ملاقات سمجھ میں آتی تھی لیکن اس کے بعد محترمہ فضیلہ عالیانی کو ملاقات کے لئے بھیجا گیا، نواب صاحب ان کو سخت ناپسند کرتے تھے جب محترمہ نے پیپلز پارٹی میں شمولیت کا فیصلہ کیا تو اسی روز کوئٹہ کے ایوب اسٹیڈیم میں نواب مری کا جلسہ تھا۔ انہوں نے اشارتاً ان کا ذکر کیا اور نازیبا الفاظ کہے اس کے باوجود بھٹو نے انہیں ملاقات کے لئے بھیجا۔ امکانی طور پر نواب مری نے ملاقات سے انکار کردیا۔ محترمہ فضیلہ بقد حیات ہیں اور وہ اس ملاقات کے بارے میں صحیح صورتحال بیان کرسکتی ہیں۔ فضیلہ کے بعد بھٹو صاحب کے بلوچستان امور کے بارے میں مشیر رحیم ظفر نے بتایا کہ بلوچ لیڈروں سے آئندہ ملاقات صحافیوں کی ہوگی اس مقصد کے لئے ڈیلی نیوز کے ایڈیٹر واجد شمس الحسن، اخبار جہاں کے ایڈیٹر محمود شام کا انتخاب کیاگیا۔ یہ دونوں صاحبان بھٹو صاحب کے قریبی دوست تھے۔ رحیم ظفر نے کہا کہ آپ کا نام بھی شامل ہوگا ۔ میں نے کہا کہ میں اس درجہ کا آدمی نہیں ہوں لہٰذا مجھے بخش دیا جائے ۔ لیکن پھر ملاقات ہوئی اکیلے اکیلے۔ نواب صاحب جیسے بردبار خاموش اور مدبر جو بھٹو پر برس پڑے۔ الامان والحفیظ۔ بعد میں رحیم ظفر نے کہا کہ نواب صاحب نے بھٹو کو جو صلواتیں سنائی ہیں انہیں پوشیدہ رکھنے کی کیا ضرورت ہے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب بھٹو صاحب سمجھتے تھے کہ تمام طاقتیں ایک پیج پر ہیں اور سب کی مہار ان کے ہاتھ میں ہے۔ 1975ءمیں جب بھٹو سیاسی و عسکری طور پر عروج پر تھے اور تمسخرانہ انداز اپنائے ہوئے تھے۔ ہمارے دوست اور مہربان ڈاکٹر مبشر حسن نے بتایا کہ بھٹو کا زوال شروع ہوچکا ہے، بیورو کریسی سرکشی اختیار کررہی ہے، وزراءکے احکامات رد کئے جارہے ہیں لیکن بھٹو کچھ سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ایمرجنسی کے مسلسل نفاذ، انسانی حقوق کی پامالی، لاہور قلعہ کے عقوبت خانہ اور دلائی کیمپ میں سیاسی رہنماﺅں اور کارکنوں پر تشدد نے بھٹو کی جڑیں کھوکھلی کردی تھیں۔ اور بلوچستان میں جاری فوجی آپریشن نے ان کی سیاسی کمر توڑ کر رکھ دی تھی۔ آپریشن کا دائرہ بہت وسیع ہوگیا تھا اور بھٹو کی گرفت کمزور ہوگئی تھی۔ بریگیڈیئر عثمان حسن جو کہ چمالنگ آپریشن کے انچارج تھے جنہیں بدقسمتی سے بلوچستان میں سیکریٹری مقرر کیا گیا ان کے مطابق چمالنگ آپریشن میں کم از کم 15 سو مری جان کی بازی ہار گئے۔ ان لوگوں نے مرنے سے پہلے خواتین اور بچوں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کردیا تھا تاکہ وہ ان کے ہاتھ نہ لگ سکیں۔ اگر عثمان حسن حیات ہیں تو ان سے بلوچستان کی تاریخ کے اس بدترین سانحہ کی روداد معلوم کی جاسکتی ہے۔ انہوں نے ایک کتاب بھی لکھی ہے لیکن حقائق چھپا دیئے ہیں۔ بلوچ کی کی نفسیات کو سمجھنے کے لئے چمالنگ آپریشن کے دوران بلوچوں نے جو انتہائی قدم اٹھایا اس کا جائزہ لینا ضروری ہے۔
مارشل لاءکے چند ماہ کے بعد ضیاءالحق نے نیپ کے رہنماﺅں کو رہا کردیا۔ 5 جنوری 1978ءکو نواب مری ، میر بزنجو ٹرین کے ذریعے کوئٹہ پہنچے، ایئرپورٹ پر ہی ان کی راہیں جدا ہوگئیں ۔ نوجوان نواب مری اور جنرل شیرف کے استقبال کے لئے جمع تھے۔ انہیں جلوس کی شکل میں جناح روڈ لایا گیا جبکہ میر بزنجو اورمیر گل خان ریلوے سوسائٹی میں واقع سردار مینگل کے گھر گئے، سردار صاحب کو ضیاءالحق نے دل کے آپریشن کیلئے امریکا بھیجا تھا۔ ایک افسوسناک امر یہ ہے کہ بھٹو کو ڈاکٹروں نے بتایا تھا کہ سردار صاحب کا فوری آپریشن نہیں ہوا تو وہ چند ہفتوں کے مہمان ہیں۔ لیکن بھٹو نے دانستہ طور پر ان کو اسپتال نہیں بھیجا۔
فروری1978 کو ضیاءالحق نے سبی دربار کے موقع پر میر غوث بخش بزنجو اور سردار مینگل کو ملاقات کے لئے بلایا۔ ایک گھنٹہ کے بعد ملاقات ختم ہوئی اور بلوچ رہنما واپس چلے گئے۔ اگلی ملاقات اسی سال اگست میں کوئٹہ کے گورنر ہاﺅس میں ہوئی، ملاقات کے بعد جب تینوں رہنما باہر آئے تو اخبار نویسوں نے حسب سابق میر غوث بخش کی طرف رجوع کیا لیکن وہ سخت غصے میں تھے اور انہوں نے سب کو جھٹک کر کہا میں نے کوئی ٹھیکہ نہیں اٹھا رکھا ہے آپ نواب صاحب سے بات کریں۔ اس پر سردار صاحب نے مداخلت کرکے کہا کہ میں تفصیل بتاتا ہوں۔ ملاقات مختصر ہوئی ، ہم نے کوک کا ایک ایک گلاس پیا ، ہم نے کچھ حال دل سنایا اور ضیاءالحق نے سنی ان سنی کردی بس یہی روداد ہے اس ملاقات کی۔
میر صاحب کیوں غصے میں تھے یہ تو معلوم نہیں ہوسکا البتہ گمان یہی تھا کہ کسی نکتہ پر ان کے اور نواب صاحب کے درمیان کوئی ناگوار بحث ہوئی تھی ۔ ملاقات کے بعد ضیاءالحق کے سمدھی اور گورنر بلوچستان لیفٹیننٹ جنرل رحیم الدین نے انکشاف کیا کہ بلوچ رہنماﺅں نے فوجی آپریشن کے دوران ہونے والے جانی و مالی نقصانات کے ازالے کے لئے معاوضوں کا مطالبہ کیا ہے اور حکومت نے یہ مطالبہ منظور کرلیا۔ کچھ عرصہ بعد جنرل رحیم الدین نے سابقہ چیف سیکریٹری راجہ احمد خان کو اپنا مشیر مقرر کرکے اعلان کیا کہ معاوضہ حکومت اپنے ہاتھوں سے دے گی۔ اس بات پر اختلاف پیدا ہوا جبکہ اس مسئلہ پر بابو شیروف نے ایک تباہ کن بیان جاری کرکے راہ ہموار کی کہ بڑے لیڈر خود کو معاوضہ والے معاملہ سے الگ کرلیں۔ کچھ ہی عرصہ بعد عطاءاللہ مینگل لندن اور نواب خیر بخش پیرس چلے گئے جبکہ میر غوث بخش بزنجو نال اور کوئٹہ میں مقیم رہے۔ انہوں نے اپنی سیاسی پارٹی بھی بنائی۔ نواب پیرس سے کابل چلے گئے اور سردار صاحب 1996 تک وہاں موجود رہے۔ جبکہ نواب صاحب کے کابل جانے کے بعد انہوں نے مری قبیلہ کے ہزاروں افراد کو افغانستان نقل مکانی کا حکم دیا۔ اس ماس مائی گریشن کی وجہ سے ہزاروں مری بے گھر اور دربدر ہوئے تاہم نواب صاحب فیصلہ کرچکے تھے کہ انہیں کیا کرنا ہے۔ افغانستان سے واپس آنے کے بعد انہوں نے خاموشی کے ساتھ اپنا کام جاری رکھا اور بلوچستان کی نئی مزاحمت کی بنیاد ڈالی جو تاحال جاری ہے۔
بدقسمتی سے پاکستانی حکمرانوں نے 1948ئ، 1958، 1973 اور 2006 کو نواب بگٹی کی شہادت سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ جو ایوب خان نے کیا، جو بھٹو نے غلطی کی وہ آج بھی دہرائی جارہی ہیں۔ 80 سال کی عمر میں نواب بگٹی کو قتل کرنے کی کیا ضرورت تھی یا مسنگ پرسنز کا معاملہ پیدا کرنے سے کون سی بہتری آسکتی تھی۔ 18 برس میں معاملات بہت دور جا نکلے ہیں، آج بلوچستان کے مسئلہ سے ساری دنیا آگاہ ہے، اقوام متحدہ سے لے کر یورپی یونین اور مریکہ تک یہ مسئلہ پہنچ چکا ہے۔ لہٰذا حکومت کو چاہئے کہ مسئلہ کے حل کی جانب پیش رفت کے لئے کچھ فوری اور کچھ دیرپا اقدامات کرے۔
(1) دونوں فریقین کچھ وقت کے لئے جنگ بندی کے لئے راضی ہوجائیں۔
(2) حکومت مسئلہ کی تہہ تک پہنچنے کے لئے ایک ٹروتھ اور ری کنسیلیشن کمیشن قائم کرے، کمیشن میں غیر جانبدار مدبرین، صحافیوں، وکلائ، ریٹائرڈ جج صاحبان کو شامل کیا جائے۔ حامد میر، زاہد حسین، ڈاکٹر توصیف احمد، مشاہد حسین سید ، محفوظ علی خان جیسے دانشوروں کو اس کمیشن میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ بے شک حکومت اپنے نمائندے مقرر کردے۔ کمیشن کو ایک وقت دیا جائے کہ وہ اس مدت میں اپنی رپورٹ پیش کرے۔ بے شک اس رپورٹ پر پارلیمنٹ تفصیلی بحث کرے اور اپنی تجاویز دے۔
(3) اس دوران بلوچستان کے لوگوں کو جو خدشات ہیں انہیں ایڈریس کیا جائے، ایسے مسنگ افراد جو حیات ہیں انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے۔
(4) ہر طرح کے ایسے پرائیویٹ سرکاری لشکروں کو ختم کیا جائے جو مختلف مقاصد کے لئے برسرپیکار ہیں۔
(5) ریکوڈک سینڈک اور دیگر قدرتی وسائل کے بارے میں یک طرفہ فیصلے ختم کئے جائیں۔ وفاق اعلان کرے کہ گوادر پورٹ بننے کی صورت میں اہل بلوچستان کو کیا حصہ ملے گا۔
(6) ٹروتھ کمیشن کی رپورٹ کے بعد باضابطہ مذاکرات کا آغاز کیا جائے۔ بے شک یہ مذاکرات کسی غیر جانبدار ملک میں منعقد کئے جائیں۔ اگر ضروری ہوا تو غیر ملکی ثالثین کو بھی شامل کیا جائے تاکہ ان پر عملدرآمد کی گارنٹی ہو۔
(7) مذاکرات کس سے کئے جائیں یہ حکومت طے کرے گی کیونکہ اسے معلوم ہے کہ کن مزاحمتی گروپوں سے بات چیت کرنا سود مند ہوگا۔ وہ اپنی طرف سے جو نمائندے مقرر کرے اسے اس کا اختیار ہوگا۔
(8) اگر کسی ایک فریق نے مذاکرات سے انکار کیا تو پھر دونوں آزاد ہوں گے کہ وہ ایک فیصلہ کن مرحلے تک معاملے کو لے جائیں کیونکہ جب کوئی معاملہ مذاکرات سے حل نہ ہو تو اس کا فیصلہ میدان جنگ میں ہوگا اور ظاہر ہے کہ میدان جنگ میں کسی کو فتح اور کسی کو شکست ہوگی۔ اس صورتحال میں کسی کو شکایت کرنے کا حق نہ ہوگا اور یہی آخری حل ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں