کافی عرصہ سے دھمکیاں مل رہی تھیں،سکیورٹی کی مد میں ماہانہ3کروڑ روپے اداکرنے کے باوجود ہمیں تحفظ حاصل نہیں، دکی کان ما لک

دکی /کوئٹہ ( آئی این پی )بلوچستان کے ضلع دکی میں مسلح شدت پسندوںکے حملے میں 20کانکن جاں بحق جبکہ 7 زخمی ہو گئے ہیں واقعہ کے خلا ف دکی شہر میں شٹر ڈاﺅن ہڑتال کی گئی بلکہ سیاسی جما عتوں کی جا نب سے احتجاج بھی جا ری ہے ۔وزیر اعلیٰ بلو چستان میر سرفرازبگٹی نے واقعہ کی مذمت کر تے ہو ئے کہا ہے کہ اس میں ملوث دہشتگردوں کو منطقی انجام تک پہنچا یا جا ئے گا ۔کوئٹہ سے تقریبا 220کلومیٹر دور ضلع دکی میں جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب کو مسلح حملہ آوروں نے کو ئلہ کا ن میں کا م کر نے والے مزدوروں کو فائرنگ کا نشانہ بنایا اس سلسلے میںایس پی دکی آصف شفیع نے میڈیا کو بتایا کہ 30سے 40مسلح حملہ آوروں نے دکی شہر سے تقریبا آٹھ سے دس کلومیٹر دور جنید کول کمپنی ایریا میں کوئلہ کانوں میں کام کرنےوالے مزدوروں کے رہائشی کوارٹرز پر حملہ کیاپولیس افسر کے مطابق حملے کے وقت زیادہ تر کانکن رات کو کان سے باہر نکل کر اپنے کچے کمروں میں سو رہے تھے انہوں نے بتایا کہ حملہ آوروں نے ٹولیوں کی شکل میں مختلف رہائشی کوارٹرز جاکر مزدوروں کو اندھا دھند گولیوں کا نشانہ بنایا ان کے مطابق کوئلہ کانوں کی سکیورٹی پر مامور نجی محافظوں نے کچھ دیر مزاحمت کی لیکن حملہ آوروں کے پاس جدید اسلحہ، راکٹ اور دستی بم تھے جس کی وجہ سے وہ غالب آ گئے۔ فائرنگ اور دھماکوں کا یہ سلسلہ ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہا۔ایس ایچ او دکی ہمایوں ناصر کے مطابق حملہ آوروں نے متعدد انجنوں سمیت کوئلہ نکالنے میں استعمال ہونےوالی مشینری کو بھی نذر آتش کیا۔آصف شفیع نے 20مزدوروں کی ہلاکت اور7کے زخمی ہونے کی تصدیق کی اور بتایا کہ نشانہ بننے والے سارے مزدور پشتون ہیں۔ایس پی کے مطابق مقتولین میں سے تین کا تعلق افغانستان جبکہ باقیوں کا تعلق بلوچستان کے پشتون اکثریتی اضلاع ژوب ، قلعہ سیف اللہ، لورالائی، قلعہ سیف اللہ، پشین، موسیٰ خیل اور کوئٹہ سے تھا۔انہوں نے کہا کہ بلوچ عسکریت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے دکی میں کوئلہ کان مالکان اور مزدوروں کے خلاف سرگرمیاں دیکھی گئی ہیں اور ممکن ہے کہ اس حملے میں بھی یہی تنظیم ملوث ہو لیکن اب تک کسی نے ذمہ داری قبول نہیں کی۔ڈسٹرکٹ کونسل دکی کے چیئرمین حاجی خیر اللہ ناصر جو کوئلہ کان کے مالک بھی ہیں نے واقعہ کی تفصیلات بتا تے ہو ئے کہا کہ یہ حملہ رات ساڑھے گیارہ بجے شروع ہوا اور تقریبا دو بجے تک جاری رہا۔ان کا کہنا تھا کہ حملہ آوروں کے پاس نہ صرف جدید ہتھیار، راکٹ لانچر بلکہ ڈرون بھی تھے جن کی مدد سے وہ جھاڑیوں اور درختوں کی آڑ میں چھپنے والے مزدوروں کو بھی تلاش کررہے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ حملے کے فوری بعد انہوں نے ضلع میں موجود اعلی سکیورٹی افسران اور آئی جی پولیس تک سے رابطہ کیا مگر علاقہ صرف ڈیڑھ کلومیٹر دور ہونے کے باوجود صبح روشنی ہونے تک پولیس اور سکیورٹی فورسز جائے وقوعہ تک نہیں پہنچیں ۔ان کا کہنا تھا کہ شہر رات بھر فائرنگ اور دھماکوں سے گونجتا رہا مگر کوئی مزدوروں کی مدد کو نہیں آیا۔حاجی خیر اللہ کا کہنا تھا کہ مزدوروں کی لاشیں اور زخمیوں کو بھی انہوں نے خود جاکر ہسپتال پہنچایا۔سول ہسپتال دکی کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر جوہر خان شادوزئی نے بتایا کہ مزدوروں کو سر اور جسم کے مختلف حصوں میں نہ صرف گولیاں ماری گئی تھیں بلکہ ان کے جسم پر دستی بم کے ذرات سے لگنے و الے نشانات بھی تھے۔انہوں نے بتایا کہ کئی مزدوروں کو ایک سے زائد گولیاں سروں میں ماری گئی تھیں جن کی وجہ سے ان کی موقع پر ہی موت ہو گئی تھی۔ایم ایس کے مطابق بیشتر زخمیوں کو بھی گہرے زخم آئے ہیں جنہیں ابتدائی طبی امداد دینے کے بعد مزید علاج کے لیے کوئٹہ منتقل کردیا گیا۔ ایک زخمی کی حالت انتہائی تشویشناک تھیدکی کی ڈسٹرکٹ کونسل کے چیئرمین اور کوئلہ کان کے مالک حاجی خیراللہ ناصر نے دعویٰ کیا کہ کوئلہ کان مالکان اور مزدوروں کو لسانی بنیادوں پر سرگرم شدت پسند تنظیموں کی جانب سے کافی عرصہ سے دھمکیاں مل رہی ہیں۔ مسلح تنظیم نے اس سے پہلے بارہ کانکنوں کو اغوا کیا جن میں سے 9 رہا ہو گئے جبکہ3 اب بھی ان کی قید میں ہیں۔حاجی خیراللہ ناصر کا کہنا تھا کہ دکی میں ایک ہزار سے زائد چھوٹی بڑی کانیں ہیں یہاں سے روزانہ چھ ہزار ٹن کوئلہ نکالا جاتا ہے۔ روزانہ تقریبا 120گاڑیاں کوئلہ لے کر پنجاب اور ملک کے دوسرے صوبوں کو جاتی ہیں۔انہوں نے بتایا کہ کوئلہ کان مالکان سکیورٹی کے نام پر فی ٹن 220روپے کے حساب سے ماہانہ تقریبا تین کروڑ روپے سکیورٹی فورسز کو ادا کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہمیں تحفظ حاصل نہیں، ہم سکیورٹی سے مطمئن نہیں۔ما رے جا نے والے اور زخمی ہو نے والوں میں مزدوروں میں جلال خروٹی، مولا داد لون، روزی خان لون ، فضل کاکڑ، عبدالمالک لون اور سید اللہ لون ژوب ، ملنگ تاروزئی، حمد اللہ گردیزئی اورعبداللہ بارکزئی کا تعلق پشین، نصیب اللہ غرشین ،سمیع اللہ میرزئی، عبداللہ میرزئی ا ور نصیب اللہ کاکڑ کا تعلق ضلع قلعہ سیف اللہ، جلات خان ملاخیل لورالائی، عبدالصمد ضلع موسیٰ خیل، بسم اللہ کوئٹہ کے علاقے کچلاک جبکہ ولی ملاخیل ضلع ہرنائی کی تحصیل شاہرگ اورحیات اللہ بارکزئی، عبداللہ بارکزئی، عطا اللہ بارکزئی اور مجید گل بارکزئی کا تعلق افغانستان، پائے محمد اچکزئی اور حضرت عمر بارکزئی کا تعلق پشین جبکہ جمعہ خان کاکڑ ساکن ژوب شامل ہیں ۔ ادھر واقعہ کے خلا ف دکی میں انجمن تاجران اور آل پارٹیز کی اپیل پر شٹر ڈاﺅن ہڑتال کی گئی ہے جس کے دوران شہر کے تمام کاروباری و تجارتی مراکز بند ہیں۔ دوسری جا نب سیاسی جماعتیں، مزدور تنظیمیں اور شہری سراپا احتجاج ہیں۔ مزدوروں کے ساتھ ساتھ شہریوں کی بڑی تعداد اور سکول کے طلبہ بھی سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔مظاہرین نے پہلے باچا خان چوک پر میتیں رکھ کر احتجاج کیا بعد ازاں میتیں لے کر ایف سی چھانی کے سامنے دھرنا شروع کر دیا۔مظاہرین سے خطاب میں مقررین نے کہا کہ سکیورٹی فورسز کی موجودگی میں 20مزدوروں کو قتل کرنے کے بعد دہشتگرد کیسے بآسانی فرار ہو گئے۔مظاہرین نے مقتولین کے لواحقین کو معاوضے کی ادائیگی کا بھی مطالبہ کیا ہے۔پاکستان ورکرز فیڈریشن، نیشنل لیبر فیڈریشن اور دیگر مزدور تنظیموں نے بھی احتجاج کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان ورکرز فیڈریشن کے ضلعی صدر شیر محمد کاکڑ کا کہنا ہے کہ بے گناہ اور نہتے مزدوروں کو بے دردی سے نشانہ بنایا گیا ہے جو اپنے بچوں کے لیے صرف دو وقت کی روٹی کمانے یہاں آئے تھے۔انہوں نے بتایا کہ دکی میں لگ بھگ 15ہزار کان کن کام کرتے ہیں جو بدامنی سے متاثر ہو رہے ہیں۔بلوچستان میں اس سے پہلے بھی کان کنوں، ٹرک ڈرائیوروں اور کوئلہ کانوں سے وابستہ افراد کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ زیادہ تر حملوں کی ذمہ داری ذمہ داری کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے قبول کی جاتی رہی ہے تاہم دکی واقعہ کی ذمہ داری اب تک کسی مسلح تنظیم نے قبول نہیں کی ہے۔دریں اثنا ءوزیر اعلیٰ بلو چستان میر سرفراز بگٹی نے واقعہ کی مذمت کر تے ہو ئے دہشت گردوں کے خلاف فوری و موثر کارروائی کا حکم دیا ہے اور ہدایت کی ہے کہ مذکورہ علاقے کو سیل کرکے دہشت گردوں کے گرد گھیرا تنگ کیا جائے، دہشت گردوں نے ایک بار پھر غریب مزدوروں کو نشانہ بنا کر ظلم و بربریت کی انتہا کردی ہے دہشت گردوں کا ایجنڈا پاکستان کو غیر مستحکم کرنا ہے عام غریب مزدوروں کو سافٹ ٹارگٹ سمجھ کر نشانہ بنایا جاتا ہے دہشت گرد بزدل ہیں دہشت گردوں کو ان کے منطقی انجام تک پہنچایا جائے گاایک ایک بے گناہ کے قتل کا حساب لیں گے بے گناہوں کا لہو رائیگاں نہیں جائے گا، دہشت گردوں کو ان بے گناہوں کا ناحق قتل لے ڈوبے گا، میر سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ دہشت گردوں کا قلع قمع کرکے ان کے وجود سے دھرتی کو پاک کریں گے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فتح حق کی ہوگی دہشت گردوں کو منہ کی کھانی پڑےگی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں