بٹگرام ، قیدی لڑکی سے زیادتی، جیل سپرنٹنڈنٹ کی ضمانت قبل ازگرفتاری منسوخ

بٹگرام سب جیل سپرانٹینڈنٹ شہریار خان کی ایڈیشنل جج امان اللہ نے ضمانت قبل از گرفتاری منسوخ کردی۔ شہریار خان نے 2 اکتوبر 2024 کی صبح 20 سالہ نوجوان قیدی لڑکی صدف بی بی ولد خادی خان کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا حقائق کی ٹیم نے جب زیادتی کا نشانہ بننے والی صدف بی بی کے والد خادی خان سے سوال کیا کہ آخر صدف بی بی جیل میں تھی کیوں؟ تو ان کا کہنا تھا کہ صدف بی بی کے خلاف تھانے میں ایف آئی آر خود خادی خان نے درج کرائی تھی۔ ان کا کہنا تھا وہ گھر سے ناراض ہو کر چلی گئی تھیں۔ لیکن حقائق کی تحقیقات اور ایف آئی آر میں درج تفصیلات کے مطابق خادی خان نے پولیس کو بتایا کہ کچھ دن پہلے وہ، ان کی اہلیہ اور ان کا بیٹا عاطف خان ہسپتال ڈاکٹر کے پاس چیک اپ کے لئے گئے تھے۔ جب وہ واپس گھر آئے تو گھر کے دروازے کھلے تھے اور صدف گھر نہیں تھی۔ اس کے نمبر پر کال کی تو اس کا موبائل برآمدے میں پڑا تھا۔ جس کے بعد انھوں نے دیکھا کہ ان کے گھر سے سونے کے زیورات کا ایک سیٹ، لیپ ٹاپ اور موبائیل غائب تھے۔ اور اس کے بعد انھوں نے پولیس میں ایف آئی درج کروائی۔ ایف آئی آر مین انھوں نے صدف کے اغوا یا گمشد گی کا خدشہ ظاہر نہیں کیا۔ پولیس نے صدف بی بی پرتعزیراتِ پاکستان کی دفع 406 کے تحت مقدمہ درج کیا۔متعلقہ لوگوں سے بات چیت کرنے پر یہ بات سامنے آئی کہ جب کچھ دن بعد صدف بی بی سے رابطہ ہوا تو خادی خان نے اپنی بیٹی سے جھوٹ بولا کہ ان کی اہلیہ یعنی کہ صدف بی بی کی والدہ کو دل کا دورہ پڑا ہے۔ جس پر صدف بی بی واپس آگئیں اور خادی خان نے پولیس کو اطلاع کی۔ پولیس نے صدف بی بی کو حراست میں لے لیا۔ بٹگرام جیسے علاقہ میں کسی باپ کا بیٹی کے خلاف پولیس میں مقدمپہ درج کرانا اور پھر اسے پولیس کے حوالے کر دینا انتہائی تشویشناک بات ہے۔جیل میں قید کے دوران ملزم شہریار خان نے 2 اکتوبر 2024 کوصدف بی بی کو صبح تقریبا 8 بجے کے قریب جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ صدف بی بی نے جیل سے 3 اکتوبر کو رہا ہونا تھا اور جب اس دن اس کا بھائی اس سے جیل میں ملنے گیا تو صدف بی بی نے اس کو خود پر ہونے والی جنسی زیادتی کی اطلاع دی جس پر متعلقہ ایس ایچ او کو خبر دی گئی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس واقعہ کو چوبیس گھنٹے سے زیادہ کا وقت گزر گیا لیکن جیل کے عملے میں سے کسی کو اتنے بڑے واقعے کی کوئی خبر نہیں ہوئی۔ حقائق سے بات کرتے ہوئے ڈی ایس پی مطلوب خان نے بتایا کہ کہ جب ایس ایچ اور لیڈی پولیس جیل کے ساتھ جیل میں گیا تو شہریار خان وہاں موجود نہیں تھا۔3 اکتوبرکی شام پانچ بجے ایف آئی آر درج کی گئی اور صدف بی بی کا میڈیکل ہوا جس کی رپورٹ کے مطابق صدف بی بی کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ رپورٹ میں صدف بی بی کے گھٹنوں پر لگے زخموں کا بھی ذکر ہے۔ ڈی ایس پی مطلوب خان کا کہنا تھا کہ ڈی این اے کے لئے نمونے ٹیسٹ کے لئے لاہور بھیج دیئے گئے ہیں لیکن ڈی این اے کے نمونے میچ کرنے کے لئے انھوں نے شہریار خان کے جسم کے کسی حصے کا نمونہ نہیں لیا۔وزیر اعلی خیبر پختونخواہ علی امین گنڈا پور نے اس واقعے کا نوٹس لیا اور دو دن میں انکوائری مکمل کر کے رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔ ۔ شہریار خان کو عہدے سے ہٹا کر او ایس ڈی کر دیا ہے اور اس واقعہ کی صاف شفاف محکمانہ انکوائری کے لئے دو رکنی کمیٹی بنا دی گئی ہے۔شہریار خان نے 4 اکتوبر کو ایڈیشنل سیشن جج امان اللہ کی عدالت سے عبوری ضمانت لے لی۔ صدف بی بی کے والد خادی خان نے حقائق سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ صدف بی بی شدید نفسیاتی دباو کا شکار ہیں اور انھیں اس واقعہ کے بعد کچھ دن تک گھر نہیں لایا گیا بلکہ کسی رشتہ دار کے ہاں وقتی طور پر چھوڑا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملزم کا ان سے یا ان کے خاندان سے کبھی کسی قسم کا تعلق نہیں رہا اور نہ کبھی کوئی خاندانی دشمنی رہی۔ خادی خان نے بتایا کہ ملزم شہریار خان کو علاقے کے لوگوں نے دربدر کر دیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ شہریار خان کو ایس ایچ اونے پورے پوٹوکول کے ساتھ عدالت مین پیش کیا جس کے بعد اس کی عبوری ضمانت ہو گئی۔ انھوں نے بتایا کہ ایس ایچ او کے اس اقدام پر ڈی پی او نے ان کا ٹرانسفر بھی کر دیا۔ تاہم پولیس نے اسے معمول کی ٹرانسفر بتایا ہے۔علاقہ کے لوگوں کا کہنا ہے کہ شہریار خان کچھ سیاسی شخصیات سے ملاقت کر رہا ہے اور صلح کے لئے ہر طرح سے اپنا اثرورسوخ استعمال کر رہا ہے۔ اس حوالے سے جب حقائق کی تیم نے متعلقہ ڈی ایس پی سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ بٹگرام جیسے علاقے مین ریپ بدترین جرم سمجھا جاتا ہے اور مدعی کی طرف سے صلح نامہ ہو جانا بہت مشکل ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں