ان کہی رہ گئی وہ بات سب باتوں کے بعد

تحریر: انور ساجدی
چونکہ منظور پشتین کا قومی جرگہ ایک صدی کے بعد اٹھنے والی تحریک ہے لہٰذا اسے انتہا کی ابتدا کہا جا سکتا ہے اس سے جو توقعات باندھی گئیں وہ درست نہیں تھیں۔جہاں تک جرگہ کا تعلق ہے تو یہ بلوچ اور پشتون سماج کی ایک دیرینہ روایت ہے لیکن بدلتے وقت میں قومی جرگوں کے بجائے عوامی طاقت کی علامت کے طور پر عوامی جرگہ کی اصطلاح استعمال کرنی چاہیے۔منظور پشتین کی کامیابی یہ ہے کہ خیبر میں لاکھوں افراد اکٹھے ہوئے اور وہ پشتون قوم کو درپیش اصل مسائل کی تہہ تک پہنچے۔ناکامی یہ ہے کہ ریاست کے جتنے سیاسی و غیر سیاسی دینی و غیر دینی آلہ کار تھے وہ جرگہ کا حصہ بن گئے اور انہوں نے جرگہ کی خاص سمت طے کرنے اور درست اہداف کی طرف پیش رفت کو ناکام بنایا۔پختونخواءوطن کے تمام چیدہ چیدہ سیاسی جماعتوں کے لیڈر کود پڑے جبکہ ریاست کے بڑے سہولت کار وزیراعلیٰ امین گنڈا پور نے چالاکی سے کام لے کر کچھ ٹینٹ اور راشن بھیج کر اپنا الو سیدھا کیا۔ہوا یہ کہ جب حکمرانوں نے جلد بازی میں پی ٹی ایم پر پابندی لگا دی اور جرگہ کے کیمپ پر حملہ کر کے چار افراد مار دئیے تو حالات مخدوش ہوگئے چنانچہ حکمرانوں کو پہلے عمل اور بعد میں سوچنے کا احساس ہوا اور انہوں نے اپنے آلہ کار وزیراعلیٰ کو ہدایت کی کہ سرکاری سطح پر گورنر ہاؤس میں فوری طور پر جرگہ بلایا جائے اس جرگہ میں دو ایسی شخصیات بھی شریک ہوئیں جو پی ٹی ایم کے خلاف کارروائی میں براہ راست ملوث تھے ایک وزیر داخلہ نقوی اور دوسرے ان کے کزن گورنر کنڈی یہ دونوں بھیگی بلی کی طرح آنکھیں نیچے کئے بیٹھے تھے امین گنڈا پور کو ٹاسک دیا گیا تھا کہ آپ پی ٹی ایم کے جرگہ کو سنبھالیں تاکہ اس کا زہرنکل جائے اور وہ بے اثر ہو جائے۔ اس سے قبل اے این پی کے لیڈر ایمل ولی خان سے ایک بیان دلوایا گیا تھا کہ پی ٹی ایم کے رہنماؤں کو ریاست کے خلاف زہر افشانی سے گریز کرنا چاہیے۔ایمل ولی خان اسفند کے صاحبزادہ ہیں خان عبدالولی خان کے پوتے اور بادشاہ خان کے پڑپوتے ہیں۔بدقسمتی سے جو باچا خان تھے وہ ولی خان نہ بن سکے جو ولی خان تھے اسفند یار ان کی طرح نہ نکلے اور ان کے صاحبزادہ تو کبھی کبھار ڈراموں یا فلموں کے مزاحیہ کردار لگتے ہیں۔بلوچ یک جہتی کمیٹی کے بارے میں ان کا عامیانہ بیان اور بعد ازاں معافی اسی طبیعت کی غمازی کرتی ہے۔اگرچہ حکومت پی ٹی ایم کے جرگہ کو کوئی چونکا دینے والا اور نازک اعلان کرنے سے روکنے میں کامیاب رہی لیکن وہ پشتون قوم کو یک جا ہونے اور اپنے اصل مسئلہ کی نشاندہی کرنے میں نہ روک سکی۔
ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ پشتون خود مختاری جو کہ اصل مسئلہ ہے کوئی آسان ہدف نہیں ہے انگریزوں نے تیسری افغان جنگ میں کامیابی حاصل کر کے پختونخوا وطن کے موجودہ حصوں کو افغانستان سے الگ کر کے برٹش انڈیا کا حصہ بنا دیا۔اس سے قبل پہلے پنجابی حکمران راجہ رنجیت سنگھ نے آخری لڑائی میں جو آج پختونخوا وطن ہے اسے چھین لیا سکھوں نے تو شاہ شجاع سے کوہ نور ہیرا چھین لیا تھا لیکن کوہ نور سے زیادہ قیمتی ہیرا تو پشاور تھا جو طویل عرصہ تک افغانستان کا سرمائی دارالحکومت بھی تھا یعنی1823 میں یہ علاقے جو آج کا پختونخوا ہے افغانوں کے ہاتھ سے نکل گیا۔وہ دوبارہ کبھی افغانستان کا حصہ نہ بن سکا سکھوں کے زوال کے بعد انگریزوں نے ان پر قبضہ کرلیا اور بعدازاں اسے پنجاب سے جدا کر کے ایک صوبہ این ڈبلیو ایف پی بنایا لہٰذا جو معروضی حقائق ہیں ان کے مطابق اس علاقے کو دوبارہ افغانستان کا حصہ بنانا یا الگ خودمختار علاقہ بنانا بہت ہی مشکل کام ہے۔ دو صدیوں تک اس کے لوگوں کا پنجاب سے تعلق رہا۔معاشی اور سماجی اثرات بہت دور رس ہیں اگرچہ باچا خان نے انگریزوں کے خلاف تحریک چلائی تھی لیکن وہ ہندوستان کی تقسیم اور ریاست پاکستان کو روکنے میں ناکام رہے۔ریاست نے آتے ہی اپنے قیام کے اگلے سال ڈاکٹر خان کی حکومت برطرف کر دی اور پاکستانی تاریخ کے پہلے ڈیتھ اسکواڈ کے سربراہ قیوم خان کو وزارت اعلیٰ سونپ دی۔انہوں نے چن چن کر خدائی خدمت گار تحریک کو نشانہ بنایا اور بالآخر 12اگست1948 کو قیوم خان چارسدہ کے قریب خدائی خدمت گاروں پر قہر بن کر ٹوٹ پڑے اور سینکڑوں لوگوں کا اجتماعی قتل عام کر ڈالا یہ وہ بیہمانہ عمل تھا کہ اس نے باچا خان اور خدائی خدمت گار تحریک کی کمر توڑ دی اور پختونخوا وطن پر تادیر مرکزی حکومت یا پنجابی حکمرانوں کی بالادستی قائم کر دی۔حکمرانوں نے تجربات کرتے کرتے صوبے ختم کر کے ون یونٹ بنا دیا جس کے خلاف باچاخان نے دیگر چھوٹے صوبوں کو ملا کر تحریکر چلائی آخرکار انہوں نے نیشنل عوامی پارٹی کی بنیاد رکھی جو پیپلز پارٹی کے قیام تک مغربی پاکستان کی سب سے بڑی جماعت رہی۔1969 میں ون یونٹ کے خاتمہ اور صوبوں کے قیام کے موقع پرنیپ کے سربراہ خان عبدالولی خان اور ان کے ساتھیوں میر غوث بخش بزنجو نواب خیر بخش مری اور سردار عطاءاللہ خان مینگل نے یحییٰ خان سے مذاکرات کے دوران صلح کرلی اور ایک سمجھوتہ کے تحت یہ لیڈر جیکب آباد ڈیرہ غازی خان کو بلوچستان اور میانوالی کو صوبہ سرحد میں شامل کرنے کے اپنے مطالبہ سے دستبردار ہوگئے جس کے نتیجے میں موجودہ صوبے وجود میں آ گئے۔ان رہنماؤں نے 1964 میں صدارتی انتخاب سے ایوب خان کو ہٹانے کے لئے محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت بھی کی۔ایوب خان کا تعلق ہری پور ضلع ہزارہ سے تھا وہ اپنے آپ کو نسلی طور پر پختون کہتے تھے لیکن ان کا مائنڈ باقی پنجابی جرنیلوں کی طرح تھا وہ ایک مرکزیت کے حامی تھے اور قوم پرستی کے مخالف تھے وہ بنگالی اکثریت کو تسلیم کرنے کے خلاف تھے۔انہی کے جابرانہ اقدامات کی وجہ سے بنگال میں علیحدگی پسند رجحانات نے جنم لیا۔چونکہ وہ ورثہ میں نئی ریاست کو برطانوی فوج سے ملے تھے اس لئے وہ عوام کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں تھے ان کے جانشین آغا یحییٰ خان بھی قزلباش تھے لیکن وہ پنجابی کلچر سے زیادہ متاثر تھے انگزیزوں نے اپنے دور میں صوبہ سرحد کے پختونوں کو فوج میں بھرتی کر کے اور بیوروکریسی میں جگہ دے کر مین اسٹریم میں شامل کیا تھا قیام پاکستان کے بعد بھی یہ روایت جاری رہی اس کی وجہ سے پختون آبادی میں دوطرح کی سوچوں نے جنم لیا ایک یہ کہ ان کا وطن متحد ہو جائے دوسرا یہ کہ ہمارا افغانستان سے کوئی تعلق نہیں۔اس کی بنیاد پر ایک طبقہ نے یہ کہا کہ افغان اور قوم ہے اور پختون مختلف قوم ہے۔فوج اور بیوروکریسی میں وسیع نمائندگی نے ایک ایلیٹ کلاس کو جنم دیا جو یہ ایک آسودہ حال زندگی گزارنے کو ترجیح دیتی تھی۔ان لوگوں کی معاشی اور سماجی ضروریات افغانستان سے مختلف ہو گئیں چونکہ پختونوں کی آبادی افغانستان سے زیادہ تھی اس لئے انہیں اپنے کاروبار کے لئے پاکستان کے دیگر علاقے خاص طور پر پنجاب کا صوبہ درکار تھا اس لئے پنجاب کے ہر مقام پر پختونوں کا بزنس نظر آتا ہے جبکہ بیشتر ٹرانسپورٹ پر ان کا کنٹرول ہے۔یہ بھی ہوا کہ وفاقی پایہ تخت پختونوں کی زد میں آگیا آج اس شہر میں اکثریت پختونوں کی ہے پختون پھیلتے پھیلتے کراچی پر چھا گئے جو اس وقت دنیا کا سب سے بڑا پختون شہر ہے۔ کابل اور پشاورسے زیادہ پختون رہتے ہیں۔ان عظیم معاشی مفادات اور سماجی اثرات کو یکسر تبدیل کر دینا تقریباً ناممکن کام ہے البتہ اسلام آباد کے حکمرانوں نے افغان جہاد1980ءاس کے بعد نام نہاد انتہا پسند ملاؤں کی حمایت جہاد کی ترویج اور پختون سرزمین کو سامراجی مفادات کے لئے استعمال میں لانے کی وجہ سے گزشتہ نصف صدی سے پختون عظیم سانحات اور نقصانات سے دوچار ہوئے ہیں۔لاہور میں کئی بار اس سوچ کا اظہار کیا جاتا رہا ہے کہ پختونخوا صوبہ راجہ رنجیت سنگھ کا فتح کردہ ہے اس لئے یہ ہمارا مقبوضہ علاقہ ہے۔اسی طرح وہ بلوچستان کو بھی زیردست مفتوحہ علاقہ اور یہاں کے لوگوں کو اپنا سبجیکٹ یا رعایا سمجھے ہیں۔انہی وجوہات نے پختونخوا میں پی ٹی ایم اور بلوچستان میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کو جنم دیا۔بلوچستان کا معاملہ قدرے جدا ہے اور بلوچ1948 سے وقتاً فوقتاً مزاحمت کرتے آ رہے ہیں۔لیکن پی ٹی ایم پختونوں کی پہلی مزاحمتی تنظیم ہے جسے قائم ہوئے8 برس ہو چکے ہیں۔پختونخوا کی معاشی اور معاشرتی مجبوریوں نے اس تنظیم کو آگے بڑھنے نہ دیا اور حکمرانوں کے مقامی سہولت کاروں نے بھی تحریک کو دبائے رکھا لیکن بالآخر پی ٹی ایم توجہ کا مرکز بن گئی۔خیبر جرگہ اس کی پہلی کامیابی ہے لیکن مشکلات زیادہ ہیں اگر حکمرانوں نے درست حکمت عملی اختیار نہیں کی تو یہ پرامن تحریک کے بجائے مسلح یا مزاحمتی شکل اختیار کرے گی۔بیشتر خان ملک اور طالع آزما سیاست دان تو اس کا ساتھ نہیں دیں گے البتہ عوام ضروراس کا ساتھ دیں گے۔اگر ناانصافی اور ظلم جاری رہا تو پختونوں کی اس بے نامی تحریک کو نام بھی مل جائے گا۔جرگہ کے اختتام پر جو ڈیکلیئریشن جاری ہوا اس میں اگرچہ22مطالبات شامل ہیں جن میں سیکورٹی اداروں اور طالبان کو نکل جانے کا الٹی میٹم دیا گیا ہے لیکن سردست سیکورٹی فورسز اور طالبان مسلح ہونے کی وجہ سے زیادہ طاقت رکھتے ہیں۔ظاہری بات ہے کہ ڈیکلیئریشن پر حکمران کبھی عمل درآمد نہیں کریں گے اور نہ ہی ان کے اتحادی طالبان علاقہ سے نکل جائیں گے۔یہ صورتحال منظور پشتین کے لئے ایک بڑی آزمائش کی حیثیت رکھتی ہے۔انہوں نے جو تحریک شروع کی ہے اس کے خدوخال اور مقصد کا تعین کچھ عرصہ کے بعد ہوگا۔ٹاسک بہت بڑا ہے ہدف ظاہر ہے لیکن پوشیدہ ہے۔
فیض صاحب کے بقول
ان کہی رہ گئی وہ بات
سب باتوں کے بعد

اپنا تبصرہ بھیجیں