ایران امریکا تنازعہ اور ایرانی اقلیتیں
جئیند ساجدی
گانا کے سابقہ صدر کوامے نکرومہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد مفروضے کی حد تک نو ابادیاتی نظام ختم ہو گیا. لیکن عملا” یہ ختم نہیں ہوا بلکہ نو ابادیات سے کہیں زیادہ خطرناک جدید نوآبادیات کی شکل میں یہ موجود ہے. وہ مزید لکھتے ہیں کہ نو آبادیاتی دور میں ایک ملک دوسرے ملک پہ قبضہ کر کے براہ راست وہاں حکومت کرتا تھا. لیکن جدید نو آبادیاتی دور میں بڑی بڑی ریاستیں چھوٹے چھوٹے ریاستوں پہ براہ راست حکومتیں نہیں کرتے لیکن اس کی جگہ وہاں اپنا مقامی نمائندہ بٹھا کر حکومت کرتے ہیں۔اس کی مثال امریکہ کا عرب بادشاہت اور ماضی میں لاطینی امریکی ممالک میں اثر و رسوخ رہا ہے۔
امریکہ نےلاطینی امریکہ میں کبھی بھی جمہوریت اور جمہوری رہنماؤں کو فعال ہونے نہیں دیا بلکہ فوجی بغاوتیں کروا کر وہاں آمریت کو فروغ دیا ہے اور متعدد آمر حکمران تعینات کیے ہیں جو اپنی عوام کی بجائے امریکہ کے نمائندےتھے اور وہی پالیسی اختیار کرتے تھے جو امریکہ کے مفادات کے مطابق تھیں۔مشرق وسطی میں بھی امریکہ کی یہی خارجہ پالیسی رہی ہے کہ وہ بادشاہت یا آمریت کو فروغ دیتارہا ہے اور مشرق وسطی میں وہ کسی بھی جمہوری تحریک کو برداشت نہیں کرتا ـ اس کے عوض میں عرب بادشاہ اور آمر اپنے ملک اور عوام کی بجائے وہ پالیسیاں اختیار کرتے ہیں جس سے امریکی مفادات وابستہ ہوں۔
ایران مشرق وسطی کا ایک اہم ملک ہے جو تیل اور گیس کے ذخائر سے مالا مال ہے،اس کے علاوہ اس کی جغرافیائی اہمیت بھی ہے،آبنائے حرمز ایران کی قربت میں واقعہ ہے جہاں سے دنیا کا تیس فیصد تیل گزرتا ہے۔دوسری عالمی جنگ کے بعد ایران دو مغربی ممالک برطانیہ اور امریکہ کا ایک نو جدید آباد کا ریاست بن گیا تھا اور برطانوی کمپنی کو ایران کے تیل پر تجارت کا اختیار حاصل تھا۔اس وقت کے ایرانی حکمران شاہ مغربی ممالک کا ایک کٹھپتلی بادشاہ تھا۔ 1952 میی مصدق حسین نے شاہ کا تختہ الٹ دیا اور ایرانی تیل کو نیشنلائز کر دیا۔یہ اقدا م امریکی اور برطانوی کمپنیوں کے مفادات کے برعکس تھا۔اسی لیے امریکہ نے مصدق حسین کے خلاف سازش کر کے شاہ کو پھر سے تخت نشین کروا دیا۔
1979 میں آیت اللہ خمینی کی قیادت میں ایران میں ایک مذہبی انقلاب آیا اور شاہ ایران سے فرار ہو کر امریکہ چلے گئے۔اس وقت سے لے کر اب تک امریکہ اور ایران کے درمیان ایک سرد جنگ جاری ہے۔ موجودہ ایرانی قیادت کو یہ خدشہ ہے کہ امریکہ پھر سے ایران میں حالات خراب کر کے ایک رجیم چینج لانا چاہتا ہے۔جس کا مقصد ایران کو پھر سے امریکہ کا ایک نو جدید آباد کار ریاست بنانا ہے۔ 1980 میں عراق نے امریکہ کی ایماء اور مدد سے ایران پر حملہ کیا اور آٹھ سال تک یہ جنگ جاری رہی۔یقیناً امریکہ کا مقصد یہ تھا کہ اس جنگ کی وجہ سے ایران عدم استحکام کا شکار ہو جائے گا وہاں پہ رجیم تبدیل کرنا آسان ہو جائے ۔ لیکن امریکہ کی یہ خواہش پوری نہیں ہو سکی۔اس کے علاوہ ایران کو کمزور کرنے کے لیے اس پر متعدد معاشی اور تجارتی پابندیاں عائد کی گئی ہیں ۔ماہر تعلیم ان پالیسیوں کو معاشی دہشت گردی قرار دیتے ہیں۔
امریکہ کی مشرق وسطی میں پالیسیوں کو چیلنج کرنے کے لیے اور اپنے اثرورسوخ کو بڑھانے کے لیے ایران نے بہت سے غیر ریاستی عناصر جیسے کہ حزب اللہ، حماس٫ اخوان المسلمین اورحال ہی میں حوثیوں کے ساتھ اتحاد قائم کیا ہے۔ اس کے علاوہ خطے میں اپنے سافٹ پاور کو میں اضافہ کرنے کے لیے ایران نے شعیہ ازم کا کارڈ بھی استعمال کیا ہے۔یہ کہنا درست ہوگا کہ امریکہ کی کاوشوں کے برعکس ایران کا شمار خطے کے ایک طاقتور ملک میں ہوتا ہے۔لیکن پھر بھی ایران میں کافی کمزوریاں ہیں۔اس کی ایک بڑی کمزوری یہ ہے کہ خطے میں اکثر عرب ممالک ایران کے خلاف ہیں اور اکثر انہی ممالک میں امریکہ نے اڈے قائم کیے ہوئے ہیں اور اگر اسرائیل ایران تنازعہ مزید آگے بڑھا تو اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ امریکہ اس میں براہ راست شامل ہو جائے گا اور عرب ممالک میں جہاں اس کے اڈے ہیں اس کو استعمال کر کے ایران کو با آسانی نشانہ بنا سکتا ہے۔
ایران کی ایک اور کمزوری اس کی فضائیہ ہےجسکی کمزوری کو اسرائیل نے بے نقاب کر دیا ہے اور ایران کے فضائی حدود پر حملہ کر کے حماس کے سابق سربراہ اسماعیل حانیہ کا بھی قتل کیا ہے۔ اس کے علاوہ ایران کی سب سے بڑی کمزوری اندرونی ہے۔یہ ایک کثیر القومی ریاست ہے۔ریاست میں غالب لسانی گروہ فارسی بان ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق فارسی بان ہے ۔ایران کی آبادی کا 50 فیصد حصہ ہیں۔ اس کے علاوہ ایران میں کرد،عرب ،بلوچ ،اظہری ترک ،ترکمن، مزاندارانی اور گلاک وغیرہ بھی بڑی تعداد میں آبادہیں۔ ایران کی مرکزی حکومت کی امتیازی سلوک کی وجہ سے ان اقلیتوں کے تعلقات مرکزی حکومت کے ساتھ کبھی خوشگوار نہیں رہے۔ ان اقلیتوں کو اپنی مادری زبان پر تعلیم حاصل کرنے کی کوئی اجازت نہیں ہے اور سرکاری اداروں اور جامعات میں صرف فارسی زبان کو ہی استعمال کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ انتظامی حوالے سے بھی اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک رکھا گیا ہے۔
عرصہ قبل ایران کے اخلاقیات کی پولیس(Moral Police) نے ایک کرد خاتون کو قتل کر دیا تھا۔اس کے نتیجے میں ملک بھر میں احتجاج ہوئے اور اکثر احتجاج وھاں ہوے جہاں اقلیتیں آباد ہیں۔ایران کے اکثر سرحدی علاقوں میں بھی اقلیتیں آباد ہیں۔شمالی سرد میں اظہری ترک آباد ہیں اور ایران کی یہ سرحد اظہر بھائیجان سے ملتی ہے،جہاں ایرانی اظہری ترکوں کے ہم زمان آباد ہیں۔ شمال مغرب میں کردستان واقع ہے اور اس کی سرحدیں ترکی اور عراق کے کرد علاقوں سے ملتی ہیں،کردوں اور ایرانی قیادت کی رنجشیں کافی پرانی ہیں۔
کردوں نے کردستان کو ایران سے الگ کرنے کے لیے متعدد تحریکیں چلائی ہیں۔جس کی وجہ سے ایران کردستان کو لے کر عدم تحفظ کا شکار ہے۔ اسی عدم تحفظ کی وجہ سے ایران نے عراقی کردستان کے علاقوں پر حملے کیے ہیں تاکہ عراقی کرد جنگجو زیادہ طاقتور نہ ھوں۔اس کے علاوہ کرد قومپرستی کو کمزور کرنے کے لیےلور جو تاریخی اعتبار سے کرد بتائے جاتے ہیں انکو کردوں سے جتا کرنے کے لیے ایران نے انکو ایک الگ شناخت دی ہے اور لورستان کے نام سے صوبہ بھی بنایا ہے۔جنوبی ایران کے سرحدی علاقوں میں بلوچ آباد ہیں۔مرکز اور بلوچ رہنماؤں کے درمیان بھی کبھی خوشگوار تعلقات قائم نہیں ہوئے۔بلوچوں نے ہمیشہ ایران کی اندرونی جنگوں کے وقت آزادی حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔
لگ بھگ 1920 کے وقت ایران میں قچر اور پہلوی خاندان میں اقتدار کی جنگ ہوئی اس وقت بلوچ رہنما دوست محمد بارانزئی نے آزادی کا اعلان کیا اور شاہ بلوچستان کا لقب لیا۔ مغربی طاقتوں کی مدد سےایرانی بادشاہ نے شورش پر قابو حاصل کر لیا۔موجودہ دور میں بھی پاسداران انقلاب کےسپاہیوں کو بلوچستان میں نشانہ بنایا جاتا ہے۔بلوچ مزاحمتی تنظیموں کو ایران نے امریکہ کا پروکسی قرار دیا ہے۔ سرحدی علاقوں کے علاوہ اقلیت ایران میں وسائل سے مالا مال اور جغرافی حوالے سے اھم خطوں میں بھی آباد ہیں۔ایران کے سب سے بڑے تیل کے ذخائر خوزستان صوبے میں ہیں۔جو عرب اکثرتی علاقہ ہے اور ماضی میں اس کا نام عربستان تھا۔
آبناے حرمز اور اہم چاہ بہارپورٹ بلوچستان میں واقع ہیں۔ ایک اہم ایرانی رہنما نے امریکی لکھاری سیلنگ ہیریسن کو بلوچستان کی جغرافیائی اہمیت کے حوالے سے بتایا کہ بلوچ ہمارے ملک میں ایک معمولی اقلیت میں رہتے ہیں ان کی یہی حیثیت ہے کہ ان کا علاقہ ایک اہم جیوگرافی میں واقع ہے اگر ہمارا بس چلےتو ہم بلوچوں کو اٹھا کے یہاں سے کہیں دور آباد کریں اور ان کی جگہ کسی اور لسانی گروہ کویہاں لا کے اباد کریں۔ مستقل میں اگر امریکہ ایران جنگ ہوئی تو امریکہ ان اقلیتوں کی رنجشوں کا ایران کے خلاف استعمال کر سکتا ہے۔ یوگو سلاویا جو ایک کثیر القومی ریاست تھا اور یورپ کا وہ ملک تھا جس نے امریکی پالیسی کے سامنے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کیا تو امریکہ نے اس کی اقلیتوں کی رنجشوں کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ وہاں پر غالب لسانی گروہ سربین تھا۔امریکہ نے جنگ کے بعد اس کو چھ ریاستوں میں تقسیم کر دیا۔
2001 میں جب امریکہ نے جب افغانستان میں حملہ کیا تو اس نے افغانستان کی اقلیتوں کے عدم تحفظات کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور رجیم چینج کرنے کے بعد انہوں نے غیر پشتون رہنماؤں کو اقتدار میں ایک بڑا حصہ دیا۔ جب 2003 میں امریکہ نے عراق میں حملہ کیا تو وہاں کے بھی کثیر القومی ریاست ہونے کا امریکہ نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ عراق میں اکثریت شیعہ عربوں کی تھی لیکن حکومت سنی عربوں کے پاس تھی اور دونوں فرقوں کے درمیان کافی اختلافات تھے۔اس کے علاوہ کرد بھی عراق میں ایک بڑی تعداد میں آباد تھے اور مرکزی حکومت کے ساتھ ان کے خوشگوار تعلقات نہیں تھے۔
رجیم تبدیل کرنے کے بعد امریکہ نے اقتدار شیعہ عربوں کو دیا اور کردستان کو ایک نیم خود مختار ریاست کا درجہ دیا۔ان تمام ریاستوں میں جہاں امریکہ نے رجیم چینج کیا وہاں پہ ایک چیز مشترکہ تھی اور وہ یہ تھی کہ رجیم تبدیل کے بعد وہ حکمران قیادت میں آئے جو امریکہ کے حمایتی تھے اور یہ تمام ریاستیں امریکہ کی جدیدنو آباد کار ریاستیں بن گئیں ۔اگر مستقل میں امریکہ ایران جنگ ہوئی تو امکانات یہی ہیں کہ عراق اور افغانستان کی طرح ایران بھی امریکہ کے سامنے پسپا ہو جائے گا ہاں البتہ اس کی مزاحمت ان دونوں کی نسبت زیادہ ہوگی۔ ایرانی شکست کے بعد امریکہ کے پاس دو آپشنز ہونگے۔ایک یوگوسلاویا ماڈل ہوگا جس میں ایران کے اقلیتیوں کو ایران سے الگ کر کے متعدد آزاد ریاستیں قائم کرنا اور دوسرا آپشن عراق ماڈل ہو سکتا ہے کہ وہ رجیم تبدیل کرنے کے بعد ایران کے اقلیتی صوبوں کو نیم خود مختاری کا درجہ دیں۔ عراقی کردستان میں ریفرنڈم کی حمایت نہ کر کے اور کثیرالاقومی عراق اور افغانستان کو نہ توڑ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ، ایران میں یوگو سلاویا ماڈل کی بجائے عراق اور افغانستان ماڈل کو ترجیح دے اور ایک ایسی حکومت قائم کرے جو امریکہ کی کٹھپتلی ہو اور ایران پھر سے امریکہ کا جدید نو آبادکار ریاست بن جائے۔