سانحہ 8 اگست کے ہیروز کے نام

تحریر؛نصیب اللہ ترین ایڈووکیٹ

دنیا کی تاریخ میں کچھ لمحات نہ بھولنے والے ہوا کرتے ہیں بعض حادثات و واقعات ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں انسان بھلانا چاہے تو بھی نہیں بھلا پاتابلکہ ان واقعات و حادثات کے بھیانک مناظر پوری زندگی کے لئے انسان کی زندگی کا حصہ اور سبق بن جاتے ہیں،اسی طرح میری زندگی میں بھی 8 اگست 2016 کے دن صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے سول ہسپتال کوئٹہ میں ہونے پیش آنے والا خونریز،خوفناک اور دل دہلا دینے والا واقعہ ہے جسے میں پوری زندگی بھولا نہیں پاؤں گا،واقعہ صبح اس وقت پیش آیا جب زندگی پوری آب و تاب کے ساتھ رواں دواں تھی سانحہ 8 اگست 2016 میں ہم سے ہمارے 56 سنئیر و جونئیر ایسے وکلاء جو صوبے کے وکلاء اور شہریوں کے محسن،آئین و قانون کے رکھوالے تھے چھین لئے گئے بلکہ اس دلخراش واقعہ میں صحافت،صحت،و دیگر شعبوں سے وابستہ افراد بھی لقمہ اجل بن گئے،واقعہ میں راقم الحروف سمیت 90 کے قریب وکلاء زخمی بھی ہوئے، اس واقعہ نے جہاں بلوچستان کی عوام کے چہروں سے مسکراہٹیں چھینی وہی اس کے باعث ملک بھر میں فضا سوگوار ہو کر رہ گیا، اس واقعہ سے ایک طرف تو ہم نے معاشرے کے انتہائی پڑھے لکھے طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد کو کھو دیا بلکہ عوام میں عدم تحفظ اور خوف کا احساس بھی پروان چڑھا،واقعہ کے بعد نا صرف سینکڑوں افراد ہسپتالوں میں موت و زیست میں مبتلا تھے بلکہ شہداء کی تدفین،فاتحہ خوانی کا سلسلہ کم وبیش صوبے کے تمام اضلاع میں جاری تھا سب سے بڑھ کے عجیب اور دل دہلا دینے والی صورتحال کوئٹہ کی تھی جہاں شہر کے ہر حصے میں فاتحہ خوانی اور تعزیت کا سلسلہ جا ی تھا،یہ بلوچستان اور ملکی سطح پر پیش آنے والے بدترین سانحات میں سے ایک تھا جس کی ملکی اور بین القوامی سطح پر پر زور مذمت کی گئی،ایک طرف پیاروں کے بچھڑنے کا غم تھا تو دوسری طرف عدالتی نظام کے ٹھپ ہو جانے کے بھی صدمے سے ہم دوچار تھے، کیونکہ سانحہ 8اگست میں معاشرے کے کریم یعنی سب سے پڑھے لکھے طبقے وکلاء کو نشانہ بنایا گیا تھا،وہ بھی ایسے صوبے میں جہاں تعلیم کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف ہو،نشانہ بنائے جانے والے افراد جہاں آئین پاکستان اور قانون کے پاسبان تھے وہی وہ عوام کو انصاف کی فراہمی کے مقدس کام کو بھی سنبھالے ہوئے تھے،ایسے کھٹن حالات میں صوبے کے وکلاء کو اپنے شہید ساتھیوں کے نامکمل مشن کو جاری ر کھنے اور پایہ تکمیل تک پہنچانے کا انتہائی مشکل چیلنج درپیش تھا ایسے میں وکلاء نے ایک مرتبہ پھر اپنے شہید ساتھیوں کے مشن کوہمت و جرات سے بڑھانے کا فیصلہ کیا اگرچہ ایک طرف المناک واقعہ سے ہم اپنے محسنوں اور پیاروں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے تو دوسری جانب اس واقعہ نے ہمیں ہر مشکل صورتحال سے نبردآزما ہونے کا درس دیا تھا،ہمیں اپنے زندہ دل،نڈر،بے باک ساتھیوں کے قابل تقلید جدوجہد پر فخر ہے وہ اس لئے کہ شہداء نے تمام تر مشکلات کے باوجود زندگی عظیم مقصد اور مشن کی تکمیل کے لئے جدوجہد میں گزاری بلکہ اسی پرخار راستے میں امر بھی ہوئے اسی لئے تو بین القوامی،ملکی اور معاشرتی سطح پر ان کی جدوجہد اور قربانی کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے بلکہ وکلاء اور معاشرے کے مختلف شعبوں سے وابستہ لوگ ان کے راہ حق کو اپنانا ا پنے لئے قابل فخر راستہ بھی سمجھتے ہیں،سانحہ 8اگست 2016ء کے بعد ملک اور صوبے کی حقیقی سیاسی جماعتوں،سول سوسائٹی کے افراد اور وکلاء نے حکومت وقت سے واقعہ کی انکوائری کے لئے جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کا مطالبہ کیا توسابقہ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لے کر اس سلسلے میں ایک رکنی جوڈیشل کمیشن کے قیام کا اعلان کیا،کمیشن بلوچستان سے ہی تعلق رکھنے والے سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل تھی جس نے بلا ناغہ 56 روز تک سانحہ سے متعلق اپنے فرائض انجام دئیے اور سانحہ کے محرکات و وجوہات کے لئے مرکزی و صوبائی اداروں کے حکام و دیگر کو طلب کیا،جنہوں نے اپنی رپورٹس جوڈیشل کمیشن کے روبرو پیش کیں،جس کے بعد جوڈیشل کمیشن نے غفلت برتنے والوں کی نشاندھی کی اور اس سلسلے میں اپنی سفارشات مرتب کی مگر ہمیں افسوس ہے کہ ان سفارشات پر عمل درآمد کی بجائے سابقہ چیف جسٹس آف پاکستان نے جوڈیشل کمیشن کی سفارشات کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ذاتی رائے سے تعبیر کرتے ہوئے اس کے خلاف فیصلہ دیا جس پر ہم نے مزکورہ فیصلے پر نظر ثانی کے لئے عدالت عظمیٰ سے نظر ثانی کی اپیل کی لیکن اس سلسلے میں لیت و لعل سے کام لیا جانے لگا بلکہ جوڈیشل کمیشن کے جج کو باقاعدہ ٹارگٹ کیا گیا اور ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کی گئی اور موقف اختیار کیا گیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے اثاثے چھپائے ہیں اس لئے انہیں بطور جج خدمات کی انجام دہی کا حق نہیں، معزز جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ہونے والی انتقامی کارروائیوں کا ادراک کرتے ہوئے ملک بھر کی حقیقی وکلاء تنظیموں نے ان کا بھر پور ساتھ دینے کا اعلان کیا اس سلسلے میں ایک مرتبہ پھر شروعات بلوچستان کے وکلاء نے کی اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ہونے والی انتقامی کارروائیوں کو دنیا پر آشکار کیا بعد ازاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے اپنا منی ٹریل بھی پیش کیا جس کے بعد سپریم کورٹ کا ایک اور تاریخی فیصلہ آیا اور ایک مرتبہ پھر جیت حق کی ہوئی،عوام کو سستے اور فوری انصاف کی فراہمی عدلیہ کی اولین ذمہ داریوں میں شامل ہے لیکن بد قسمتی سے ملکی تاریخ میں آزاد عدلیہ میں آزاد اور انصاف پر مبنی سوچ رکھنے والے جج خود انصاف کے کٹہرے میں کھڑے کر دئیے جاتے ہیں،یہ سب کچھ ملکی اداروں کا اپنے دائرہ کار سے تجاوز کرنے کا ثمر ہے اگر اب بھی ہوش کے ناخن نہ لئے گئے تو اداروں کے ایک دوسرے کے دائرہ کار میں مداخلت کے بھیانک نتائج برآمد ہوں گے،بلکہ پہلے سے موجود بے اعتمادی کی فضا مزید بڑھے گی، لیکن ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ جب تک شہید وکلاء کے ساتھی موجود ہیں تب تک کسی کے غیر آئینی و قانونی اقدامات کامیاب نہیں ہونے دئیے جائیں گے،ہمیں اپنے شہداء کے مشن اور اس کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات کا اچھی طرح ادراک ہے بلکہ ہمیں شہید ساتھیوں کی ہمت و جرات و بہادری کا سبق بھی اچھی طرح یاد ہے۔ ہم اس عہد کی ایک مرتبہ پھر تجدید کرتے ہیں کہ ہم بزدل دشمن جو قوم،قومی اداروں اور ملک کے درپے ہیں کے مذموم عزائم کو ہر صورت میں خاک میں ملایا جائے گا ہم اپنی آنے والی نسلوں اور قوم کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے،ہمیں فخر ہے کہ ہمارے شہید اور زخمی ساتھی آئین و قانون کے پاسبان تھے انہوں نے آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کے لئے ہر ممکن قربانی دی اور شہید ساتھی اس راہ حق میں امر بھی ہوئے،ہمارے شہید ساتھی روز اول سے ہی غریبوں اور لاچار لوگوں کی داد رسی،انصاف کا بول بالا کرنے میں زندگی کے آخری لمحے تک مگن رہے ہم اس عزم کا اعادہ کرتے ہیں کہ ہم اپنے شہداء کی سوچ و فکر سے خود کو کبھی الگ نہیں کریں گے ہمیں شہداء کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا مشکل چیلنج ضرور درپیش ہے تاہم یہ مشن مشکل ضرور پر ناممکن نہیں ہے، ہمارا آئین و قانون کی بالادستی کی جدوجہد ہمیشہ جاری رہے گا۔ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ شہداء کے درجات بلند فرمائیں اور ہمیں انہیں کی راہ پر استقامت نصیب فرمائیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں