قرب قیامت

تحریر: انور ساجدی
اسرائیل نے ایران کی ایٹمی تنصیبات پر ایک اور ناکام حملہ کیا ہے۔یہ حملہ اصفہان میں واقع ایٹمی سائٹس پر کیا گیا لیکن کوئی نقصان نہیں ہوا۔تنصیبات محفوظ رہیں۔گزشتہ ہفتہ ایران نے اسرائیل پر حملہ کیا تھا بعد کی اطلاعات کے مطابق کچھ میزائل اسرائیل کی ایٹمی تنصیبات کے قریب گرے ہیں تاہم کوئی نقصان نہیں ہوا۔ کھیل کھیل میں یہ حملے کسی وقت بھی خطرناک صورت اختیار کرسکتے ہیں اور کوئی ایسی انہونی ہوسکتی ہے جس سے مشرق وسطیٰ تباہی کے دہانے پر پہنچ سکتا ہے۔مثال کے طور پر اگر کوئی ایسا حملہ ہوا کہ اس سے تابکاری پھیل گئی تو بڑے پیمانے پر تباہی پھیل سکتی ہے جس کی وجہ سے یہ خطہ باالخصوص اور پوری دنیا باالعموم متاثر ہوگی۔امریکہ نے گزشتہ شب سلامتی کونسل میں پیش کی گئی اس قرارداد کو ویٹو کر دیا جس میں فلسطین کو اقوام متحدہ کی مستقل رکنیت دینے کی سفارش کی گئی تھی۔امریکہ واحد ملک تھا جس نے قرارداد کی مخالفت کی جبکہ اسرائیل کے خالق ملک برطانیہ اور سوئٹزرلینڈ نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔اس طرح امریکہ ایک بار پھر تنہا رہ گیا لیکن واحد سپرپاور ہونے کی وجہ سے وہ تنہا بھی سب پر بھاری ہے۔اگرچہ اسرائیل اور ایران کے حملے فرینڈلی فائر ثابت ہوئے ہیں تاہم ان حملوں سے اور ایران کے اسلحہ کی اسرائیل تک رسائی سے اس کے ناقابل تسخیر ہونے کا تاثر ملیامیٹ ہوگیا ہے۔اگر امریکہ اس کی حمایت ترک کر دے تو عرب عوام صیہونی ریاست کی تکہ بوٹی کر دیں گے۔مشرق وسطیٰ باالخصوص ایران میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے علاقائی امن و سلامتی خطرے میں پڑ گئی ہے۔اس صورتحال نے پاکستان کے لئے بھی مشکل حالات پیدا کر دئیے ہیں جس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایرانی صدر کے دورے کی تفصیلات طے کرنے کے لئے فارن آفس میں جب ایرانی سفیر پہنچے تو وہاں پر عین اس وقت امریکی سفیر کی آمد بھی ہوئی۔اسرائیل سے حالیہ کشیدگی کے بعد پاکستان پہلا ملک ہے کہ ایرانی صدر اس کا دورہ کر رہے ہیں۔ پاکستان امریکہ اور ایران سے تعلقات کے ضمن میں انتہائی محتاط ہے۔اگرچہ اس کا دل ایران کے ساتھ ہے لیکن عملی حمایت امریکہ کے ساتھ ہے۔پاکستان بحیثیت ریاست اس حد تک مضمحل ہے کہ وہ امریکہ کی ناراضی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ہمارے ریجن کے قریب روس اور یوکرین کے درمیان ایک جنگ بھی چل رہی ہے۔ پاکستان نے غیر جانب داری کا اظہار کیا ہے لیکن ایسے شواہد موجود ہیں کہ امریکہ نے اسے کسی نہ کسی طرح یوکرین کی مدد کرنے پر مجبور کیا ہے۔حالانکہ مستقبل میں جو پاور بلاک بن رہے ہیں ان میں ایک کی قیادت روس کرے گا جن میں ایران،شام،شمالی کوریا اورکچھ دیگر ممالک شامل ہیں۔ چین بھی اس میں شامل ہوسکتا ہے لیکن چین ایسا منافع خور ساہوکار ہے کہ وہ کسی تنازع میں حصہ لے کر ایک دن کا نقصان بھی برداشت کرنے کا روادار نہیں ہے تاہم نوبت مکمل جنگ تک آگئی تو دنیا کا دو بلاکوں میں تقسیم ہونا ناگزیر ہوگا۔بادی النظر میں یہ تیسری جنگ عظیم کا شاخسانہ ہوگا۔خدا نہ کرے کہ تیسری عالمی جنگ چھڑ جائے کیونکہ اس سے کرہ ارض کی اینٹ سے اینٹ بج جائے گی اور کروڑوں یا اربوں لوگ ہلاک ہو جائیں گے۔پہلی اور دوسری جنگ کا سارا فائدہ امریکہ نے اٹھایا تھا کیونکہ یہ جنگیں یورپ میں لڑی گئی تھیں جبکہ امریکہ اس کے اتراث سے بہت دور تھا لیکن ٹیکنالوجی کی خطرناک ترقی نے ایسی صورت پیدا کر دی ہے کہ دنیا کا کوئی بھی ملک اس سے محفوظ نہیں ہے۔

چند سال قبل شمالی کوریا نے ایک خوفناک کمپیوٹر ڈیمو میں خبردار کیا تھا کہ اس کے پاس ایسے خطرناک ہائیڈروجن بم اور دیگر اسلحہ ہے کہ جس سے دنیا کے تمام سمندروں میں خوفناک سونامی برپا کئے جا سکتے ہیں اور اس کے نتیجے میں کرہ ارض پر موجود ہر قسم کی حیات نیست و نابود ہو کر رہ جائے گی۔حال ہی میں یہ رپورٹ آئی ہے کہ چین خلا میں فوجی اڈے بنا رہا ہے جبکہ امریکہ پہلے بنا چکا ہے یعنی مستقبل میں زمین کے علاوہ خلا سے بھی حملے ہوں گے۔سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کا ایک خطرناک نمونہ تو کورونا تھا جس کے بارے میں امریکہ نے الزام لگایا تھا کہ یہ چین کے شہر دوہان کی ایک لیبارٹری میں تیار کیا گیا تھا جو لیک ہوکر ساری دنیا میں پھیل گیا تھا۔اسی طرح کے بے شمار تجربات جاری ہیں اور انسان اپنے ہاتھوں سے خود اس خوبصورت دنیا اور اپنے مسکن کرہ ارض کو تباہ کرنے کے درپے ہے۔عہد حاضر کے عظیم سائنس دان اور مفکر اسٹیفن ہاکنگ کی پیش گوئی ہے کہ انسان اپنے خطرناک تجربات سے دنیا کو تباہ کرے گا اور یہی قیامت ہوگی۔اس کے علاوہ اور کوئی قیامت آنے والی نہیں ہے۔ہماری دنیا میں مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس جیسے لوگ بھی ہیں جن کی خواہش ہے کہ دنیا کی آبادی کم ہو کر ایک ارب تک محدود ہو جائے۔دوسرے سیٹھ یا موجد ٹیسلاکے بانی ایلن مسک ہیں جو دنیا کی تباہی کی صورت میں خلا میں شہر بسا کر آبادی کے ایک حصے کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں ان کا اسپیس ایکس پروگرام کا یہی مقصد ہے۔جہاں تک جنوبی ایشیا کے ممالک کا تعلق ہے تو وہ ابھی تک سوچ رہے ہیں کہ اپنے عوام کی بھوک کیسے مٹائیں۔بدقسمتی سے ان ممالک میں پاکستان اور انڈیا بھی شامل ہیں۔پاکستانی اکابرین نے ابتداءہی میں قرارداد مقاصد لا کر ریاست کی سمت کو انتہاپسندی اور فرقہ واریت کی طرف موڑ دیا تھا۔1958 کے ڈائریکٹ الیکشن کے ذریعے ملک کی قسمت چند درجن سیٹھوں اور ملاصاحبان کے حوالے کر دی تھی جبکہ ذوالفقار علی بھٹو نے سوشلزم لاتے لاتے قرارداد مقاصد کو 1973ءکے آئین کا حصہ بنا دیا۔اس طرح و خوش حالی کی راہیں مسدود کر دی گئیں۔ نہ جانے آج پاکستان کیا ہے آیا یہ اسلامی ریاست ہے جمہوری ملک ہے،پارلیمانی نظام ہے یا پھرہر فرد واحد کی آمریت ہے کیونکہ اس کے نام کے ساتھ جو لاحقے ہیں وہ کسی تعریف پر پورا نہیں اترتے۔یہاں پر ہمیشہ الیکشن کے نام پر فراڈ یا سلیکشن ہوتا ہے۔اس کے نتیجے میں جعلی نمائندے مسلط کر دئیے جاتے ہیں جن کی دماغی استعداد ذاتی خوشحالی کے حصول سے آگے نہیں ہے۔ جب پاکستانی حکمران یہ کہتے ہیں کہ جلد ملک خوش حال ہو جائے گا تو مطلب یہی ہے کہ ان کی ذاتی خوشحالی میں مزید اضافہ ہوگا یا جب یہ کہا جاتا ہے کہ عوام کی تقدیر جلد بدل جائے گی اس سے مراد ان کی خاندانی تقدیر ہوتی ہے۔اس کے پارلیمان کا یہ حال ہے کہ گدھا گاڑی ہانکنے والے ایک رکن باجا اندر لاتے ہیں اور اسے بجا کر سمجھتے ہیں کہ ان کی تکریم اور شوکت بڑھ گئی ہے۔سیاسی جماعتوں کا یہ حال ہے کہ پہلے ان کی حالت بلوچستان میں این جی او جیسی تھی اب سارے ملک میں اور ساری جماعتوں کی یہی پوزیشن ہوگئی ہے۔تحریک انصاف سے لے کر ن لیگ، پیپلزپارٹی اور علاقائی جماعتوں تک کے پاس سنجیدہ اور باوقار سیاسی پلیٹ فارم نہیں ہے۔ کسی جماعت کا باقاعدہ منشور نہیں ہے۔ اگر ہے تو کسی جماعتی سربراہ نے اسے پڑھا تک نہیں ہے۔سوال یہ ہے کہ یہ لوگ کیسے اتنی بڑی ریاست کو 21 ویں صدی کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرسکتے ہیں جب مستقبل قریب میں ریاست کو درپیش چیلنجز میں اضافہ ہوگا تو تمام لیڈر اور اہم شخصیات بندروں کی طرح اچھل کود کے سوا اور کچھ کرنے کے قابل نہیں ہوں گے۔پاکستان کے پڑوسی بھارت میں بھی معاشی ترقی کے سوا حالات اچھے نہیں ہیں۔وہاں پر صرف یک جماعتی نظام قائم ہوگیا ہے۔بی جے پی کے مقابلے میں کوئی مدمقابل جماعت نہیں ہے۔ملک کی خالق جماعت کانگریس کا بہت برا حال ہے۔عام آدمی پارٹی کو بھی مودی نے زیر کررکھا ہے۔ایک ارب ووٹروں کا ملک دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ سماجی اعتبار سے پستی کی جانب رواں دواں ہے۔ہاں وہ معاشی اعتبار سے تیز رفتار ترقی سے ضرور ہمکنار ہورہا ہے اور آئندہ عشرے میں یا دو عشروں میں وہ دنیا کی تیسری بڑی معاشی پاور ضرور بن جائے گا لیکن مذہبی جنون کی وجہ سے اسے ناگفتہ بہ حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں