احوال پنجگور

حضور بخش قادر کے قلم سے
ایک زمانے میں احوال پنجگور کے نام سے روزنامہ انتخاب اور جنگ میں پنجگور کے مسائل کے حوالے سے لکھتا تھا جبکہ لکھنے کا آغاز اخبار جہاں سے شروع کیا، آپ کے خط میں پنجگور کے بنیادی مسائلِ تقریباً یہ سلسلہ 1990ءکی دہائی سے شروع کیا گیا، اس دور میں پی ٹی وی کے علاوہ نہ کوئی نیوز چینل تھا نہ سوشل میڈیا صرف پرنٹ میڈیا تھا، اگر ہم 1990ءسے 2025ءتک کا حساب لگائیں تو 35 سال بنتے ہیں۔ اس وقت نوجوان تھا خون گرم تھا آج تو بوڑھا ہوگیا ہوں۔ پنجگور کے مسائل لکھتے لکھتے تقریباً اب تھک بھی چکا ہوں نہ آنکھ ساتھ دے رہی ہے اور نہ ہاتھ، ایک چیز ساتھ دے رہا ہے وہ ضمیر، ہم نے آج تک ضمیر کا سودا نہ کیا اور نہ کریں گے جس پر فخر ہے۔ صحافت میں چمچہ گیری، طرف داری نہ کی ہے نہ کرینگے، البتہ مجھے خود معلوم نہیں کہ اس ملک میں صحافت کتنی آزاد ہے جبکہ سوشل میڈیا بے لگام ہے اور آزاد بھی، آج میرے کچھ الفاظ لکھنے کا مقصد اپنی تعریف یا کسی پر تنقید نہیں کرنا ہے ایک بات ہے کہ بہت سے معاملات پر ہم بیک ہوگئے ہیں، واپڈا آفس کے ساتھ بجلی کے جو جنریٹرز لگے ہوئے تھے، ان سے دن رات کچھ نہ کچھ گھنٹے بجلی اگر دی جاتی وہ بھی ترتیب وار جن جن علاقوں میں واٹر سپلائی تھا دن میں دو بار پینے کا پانی دیا کرتے تھے، روزانہ دو سے تین فلائٹ تھیں، کوئٹہ کراچی خضدار گوادر پسنی کے لئے، سول اسپتال پنجگور میں اگر چار ڈاکٹر تھے تو ڈاکٹر کا کوئی ایشو نہیں تھا ،ڈاکٹر نور احمد مرحوم کی ایک خوبی اب تک یاد ہے ان کے پاس جتنے بھی مریض ہوتے جب تک سب کو فارغ نہیں کرتے چھٹی نہیں کرتے تھے، اسی طرح اس سے قبل معروف فزیشن ڈاکٹر محمد حسین بلوچ، ڈاکٹر عمر بلوچ، ڈاکٹر اکرم بلوچ، ڈاکٹر عبدالواحد بلوچ، ڈاکٹر جاوید بلوچ، ڈاکٹر پاشا، ڈاکٹر عبدالصمد بلوچ، ڈاکٹر سید علی آغا، ڈاکٹر تاج بلوچ، ڈاکٹر فضل فیضی، ڈاکٹر امین اللہ، ڈاکٹر خالد بلوچ، ڈاکٹر نور بلوچ، ڈاکٹر ثناءاللہ، ڈاکٹر امان اللہ، ڈاکٹر فاروق، ڈاکٹر عبدالقادر، ڈاکٹر عبدالغفور تا ر آفس، ڈاکٹر نور احمد نائب، ڈاکٹر نور، ڈاکٹر فاروق اعظم چند ایک لیڈی ڈاکٹر شامل تھیں ان سب نے اسی علاقے اور اسپتال میں خدمات انجام دی ہیں، ان کے دور میں کوئی ڈاکٹر کا ایشو نہیں تھا اور نہ ہی ڈاکٹروں میں گروپ بندی تھی جن جن ڈاکٹرز کی بات مندرجہ بالا کی گئی وہ 1990ءیا اس سے قبل کی بات کررہا ہوں، کچھ 2000 تک کی، اس کے بعد مطلب 2000 کے بعد تبصرے کرنے کی ضرورت نہیں مگر جن جن ڈاکٹرز صاحبان نے مشکل حالات میں پنجگور میں رہ کر اپنے عوام کی خدمت کی ان پر میرا ایک آرٹیکل ڈیلی انتخاب کی ویب سائٹ پر پہلے سے موجود ہے، حضور بخش قادر لکھ کر سرچ کرنے سے کوئی بھی پڑھ سکتا ہے، اس میں تمام ینگ ڈاکٹرز کا ذکر کیا گیا ہے، آج بھی ان کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ ایک بات کرنا ضروری ہے کہ جس بھی محکمے کے بارے میں رپورٹنگ کریں محض اصلاح اور عوامی مفادات کے لیے تو صحافیوں کو بلیک میلر کا نام دے کر اپنے کروڑوں روپے کے کرپشن، اقربا پروری کو تحفظ دیتے ہیں، اسی وجہ سے محکموں کی اصلاح کی بجائے تباہی ہورہی ہے، آج کل اگر سنجیدگی سے دیکھا جائے ماسوائے انتظامیہ اور چند ایک محکموں کے دیگر تمام دفاتر غیر فعال ہیں، ان کے عام ملازمین تک موجود نہیں، افسران تو کئی کئی مہینوں تک کوئٹہ کراچی میں ہوتے ہیں جب کسی محکمے کا سربراہ ڈسٹرکٹ آﺅٹ ہوتا ہے تو اس کے دیگر ملازمین کیسے ڈیوٹی انجام دیتے ہیں، وہ تو صاحب کے اس عمل سے خوش ہوں گے، اسی وجہ سے بہت سے معاملات پر پنجگور پیجھے چلا گیا ہے، ترقی کی نئے نئے ڈبل روڈ، بلڈنگ، یونیورسٹی، کالج، اسپتال وغیرہ بن گئے ہیں مگر اس کے باوجود پیچھے جانے کی وجہ پھر کیا ہے، سیاسی لوگ اور دانشور طبقے ہمیں آگاہی دیں، دور جدید میں پنجگور کے لوگ پینے کے صاف پانی سے کیوں محروم ہیں، اسپتال کی اتنی بڑی بلڈنگ اور جدید آلات کے باوجودِ طبی سہولیات سے کیوں محروم ہیں، پولٹری فارم موجود ہے، عوام الناس پولٹری فارم کی سہولیات سے سالہا سال کیوں محروم ہیں، پنجگور دونوں سائیڈ سے بجلی کی ٹرانسمشن لائن سے منسلک ہے مگر اس کے باوجود بجلی کا نظام کیوں درہم برہم ہے، اسی طرح اس زمانے میں شہر کی رابطہ سڑکوں اور گچک پروم گر سمیت دیگر لوکل سڑکوں کو نہ صرف گریڈنگ کیا جاتا بلکہ مزرور گڑھے پر کرتے تھے ، اگر دور جدید ہے تو مشینری سے کیوں کام نہیں لیا جارہا۔ 2022/23 کی طوفانی بارشوں سے شہر کے مختلف علاقوں کی رابطہ سڑکوں کو جو نقصانات ہوئے تھے تاحال ان کو کیوں بحال نہیں کیا گیا ہے حالانکہ صوبائی حکومت نے رابطہ سڑکوں کی بحالی کے لیے فی ڈسٹرکٹ 6 کروڑ روپے دینے کا اعلان کیا تھا، عملدرآمد ہوا کہ نہیں یہ الگ بات ہے، مختلف علاقوں کے تعلیمی ادارے خصوصاً پرائمری اسکول جو تعلیم کے فروغ کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں کیوں بند ہیں، ڈسٹرکٹ پنجگور کے مختلف دیہی اور شہری علاقوں کے تمام بند اسکولز کو بحال کرنے کی ضرورت ہے، انٹر نیٹ تو پہلے زمانے میں تھا نہیں کہ موازنہ کریں مگر دور جدید کی ضرورت ہے اس دور میں پی ٹی سی ایل کے لینڈ لائن فون اتنا درہم برہم نہیں تھا جو آج ہے، بہت سے مسائل اور بھی ہیں جن کا ذکر ان شاءاللہ کسی اور ٹائم۔ بہت سے مسائل ایسے ہیں جن پر اگر بات کریں تو مختلف ذرائع سے فون آنا شروع ہوجاتے ہیں چونکہ پنجگور کے عام عوام خوابیدہ ہیں لہٰذا وہ اس وقت تک تنقید کی بھی زحمت نہ کریں جب تک نیند سے بیدار نہ ہوں، ویسے تنقید کرنا سب سے آسان کام ہے۔ ایک دوست نے گزشتہ روز بازار میں ہمیں تنقید کا نشانہ بنایا کہ منشیات کے عادی افراد چوریاں کررہے ہیں، گھروں کے صحن کا سامان بھی لے جا رہے ہیں، آپ لوگ کچھ نہیں کررہے تو میں نے بتایا کہ ہم تو پولیس والے نہیں اور نہ انتظامیہ ہیں وغیرہ وغیرہ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

Logged in as Bk Bk. Edit your profile. Log out? ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے