ہیرو نک: تاریخی پس منظر، مسائل اور ممکنہ حل

تحریر۔۔۔اکرم علی بلوچ
ہیرو نک، تحصیل تربت کا ایک خوبصورت گاؤں ساٹھ کلو میٹر مشرق میں واقع ہے اس گاؤں کی کل آبادی تقریباً پندرہ ہزار نفوس پر مشتمل ہے کسی زمانے میں یہاں کے لوگوں کا ذریعہ معاش کھیتی باڑی ہوا کرتا تھا۔ اس گاؤں میں کھجور کے بڑے بڑے باغات تھے۔ اور یہ باغات آج بھی ایک منفرد نظارہ پیش کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں کے لوگ طویل عرصہ سے اپنے روزگار کیلئے یو اے ای اور عمان کا رخ کرتے رہے ہیں۔ تعلیم سے آراستہ بیشتر لوگ سرکاری اداروں سے منسلک ہیں جبکہ کچھ نوجوان ایرانی تیل کا کاروبار بھی کرتے ہیں۔
یہاں کی بزرگ اکثریت غیر تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود اس کی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہے۔ یہ لوگ محنت مزدوری کر کے اپنے بچوں کو پڑھا رہے ہیں۔ یہاں کی خواتین بھی مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں۔ زیادہ تر خواتین بلوچی کپڑوں کی کشیدہ کاری کر کے ذرائع آمدن میں اپنے مردوں کا ہاتھ بٹاتی ہیں۔ کشیدہ کاری کے اعلٰی میعار کی بدولت ان کے کام کو نہ صرف بلوچستان میں، بلکہ بین الاقوامی طور پر بھی سراہا جاتا ہے۔
ماضی میں یہاں بھی بلوچستان کے دوسرے حصّوں کی طرح سرداری نظام رائج تھا جو کہ وقت کے ساتھ ساتھ متروک ہو گیا۔ ان سرداروں کے ظلم و ستم سے مقامی لوگ بہت تنگ تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت کا واحد ذریعہ آمدن کھجوریں ہوا کرتی تھیں جنہیں اْن سرداروں سے چھپانے کیلئے بچوں کے جھولوں میں رکھ دیا جاتا تھا۔
ایک زمانے میں ہیرو نک کے لوگ بھوک اور افلاس کا شکار تھے۔ کھجور کے جو باغات ہمیں آج نظر آتے ہیں ایک زمانے میں یہ باغات موجود نہیں تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہیرو نک میں دو قومیں آباد تھیں یعنی بلوچ جو کہ اکثریت میں تھے اور ہندو جو کہ اقلیت میں تھے۔ بلوچی زبان میں ہندوؤں کو بّکال کہا جاتا ہے۔ اگرچہ ان کا مذہب الگ الگ تھا پر ان کے آپس کے تعلقات بہت اچھے تھے۔ ہندوؤں کا رہن سہن اور ان کے رسوم و رواج مقامی بلوچوں جیسے تھے۔ ہیرو نک میں ایک قدرتی چشمہ ہے جسے درنگ کہا جاتا ہے۔ ہندوؤں نے بلوچوں کیساتھ ایک معاہدہ کیا جس کے تحت اگر بلوچ درنگ کے پانی کو زرعی زمینوں تک لانے میں ان کی مدد کریں تو انہیں بھی زرعی زمینوں میں حصہ دار بنایا جائے گا چنانچہ بلوچوں نے اس معاہدے کے تحت ہندوؤں کے ساتھ مل کر چشمے کے پانی کو آب پاشی کیلئے زرعی زمینوں تک پہنچایا۔ ہیرو نک کی زمین سخت اور پتھریلی ہونے کی وجہ سے وہاں کاشتکاری نہ ہونے کے برابر تھی۔ لوگوں کی گزربسر جنگلی درختوں اور جانوروں پر منحصر تھی۔ اگرچہ بعد میں بھی بہت سارے باغات لگائے گئے لیکن پانی کی فراہمی کی وجہ سے زیادہ تر کھجور کے ہی باغات لگائے گئے جن میں سے کچھ آج بھی موجود ہیں۔ اسی چشمے کے کنارے بلوچ اور ہندو اپنی اپنی بستیوں میں رہتے تھے۔ مقامی بلوچ ہندوؤں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور وہاں کسی بھی قسم کی مذہبی شدت پسندی کا شائبہ تک موجود نہیں تھا۔ ہندو اس علاقے میں ایمان دار اور اصول پسند ہونے کی وجہ سے مشہور تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اس زمانے میں ایک ہندو بزرگ کو کسی سردار کے سامنے پیش ہونا پڑا۔ بزرگ نے چار تہوں والی پگڑی باندھ رکھی تھی جس کا طرّہ بھی بہت بڑا تھا۔ سردار اتنی بڑی پگڑی دیکھ کر متجسس ہوا اور بزرگ سے اتنی تہوں اور طرے کی وجہ دریافت کی تو بزرگ نے کہا کہ یہ ہماری روایت ہے اور ہر تہہ کی خاص وجہ ہے مثلاً پہلی تہہ عزت، دوسری پہچان، تیسری ایمانداری اور چوتھی دیانت داری کو ظاہر کرتی ہے جبکہ طرہ میری خوشحالی کو ظاہر کرتا ہے۔ اسی زمانے کی ایک اور کہانی یہ بھی ہے کہ کسی بلوچ نے ہندو سے کچھ رقم ادھار لی اور اس سے پہلے کہ وہ یہ رقم واپس کرتا، تقسیمِ ہند کا واقعہ ہو گیا۔ ہیرونک کے ہندوؤں کو ہجرت کرنا پڑی اور ادھار کی رقم واپس نہ ہو سکی۔ وہ شخص اتنا پریشان ہوا کہ اس کی راتوں کی نیند اڑ گئی۔ شدید پریشانی کے عالم میں وہ ایک بزرگ کے پاس یہ مسئلہ لے کر پہنچا جس پر انہوں نے کہا کہ اگر وہ رقم خیرات کر دی جائے تو بہتر ہو گا چنانچہ اس شخص نے ایسا ہی کیا اور اپنے ذہن کو مطمئن کیا۔
جنذات، ہیرو نک اور تجابان گاؤں کے دامن میں واقع ایک پہاڑی کا نام ہے اور اسی طرح کی ایک اور پہاڑی قریب گونی میں بھی موجود ہے جن کا درمیانی فاصلہ لگ بھگ بیس کلو میٹر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انگریز فوج ان پہاڑیوں کے زریعے ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے تھے۔ جغرافیائی لحاظ سے یہ جگہ بہت اہمیت کی حامل ہے اور بہت محفوظ تصور کی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تقسیم کے وقت انگریز فوج بہت سارا اسلحہ یہاں چھوڑ کے بھاگی تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انگریز مقامی لوگوں سے کہتے تھے کہ آپ کا علاقہ قدرتی وسائل سے مالامال ہے اور آپ کا مستقبل بہت روشن ہے۔ ان کے مطابق یہ علاقہ کسی بھی ترقی یافتہ علاقے سے مختلف نہیں ہوتا۔ شومئے قسمت کہ یہاں لوگوں کو تعلیم اور دوسری بنیادی سہولتوں سے آج تک محروم رکھا گیا ہے۔ یہاں کے لوگوں کی سادہ دلی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ انہیں پاکستان بننے کی خبر دس سال بعد معلوم ہوئی۔
ریاست کی عدم توجہی اور عوامی نمائندوں کی غلط ترجیہات اور بدعنوانی کی وجہ سیبالخصوص ہیر ونک اور بلوچستان بالعموم نظر انداز ہوتا آ رہا ہے۔ پورے علاقے میں ایک بھی قابلِ ذکر ہسپتال اور تعلیمی ادارہ نہیں ہے۔ لڑکیوں کے لئے صرف ایک مڈل اسکول ہے اور میٹرک کے لئے انہیں لڑکوں کے اسکول یا گاؤں سے باہر جانا پڑتا ہے۔ زراعت کے شعبے میں حکومت کی عدم دلچسپی عیاں ہے۔ اعلیٰ نوعیت کی برآمدی میعار کی کھجور ضائع ہو جاتی ہے جس پر تھوڑی بھی توجہ دی جائے تو قابل قدر زرمبادلہ کما کر نہ صرف ملکی اقتصادیات کو بلکہ مقامی کاشتکاروں کی معاشی صورتحال کو بھی بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ یہاں کے نوجوان ذہین اور محنتی ہیں۔ میعاری تعلیم اور تخلیقی صلاحیتوں کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔ ان نوجوانوں کو مناسب ماحول، میعاری تعلیم اور صحت کی سہولتیں مہیا کرنا ریاست کا فرض ہے جس کا خاطر خواہ فائدہ بھی ریاست کو ہی ہوگا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی ترجیہات طے کریں اور بالآخر اپنے لوگوں کے لیے کچھ ایسا کر کے جائیں کہ ہمارا نام عزت و احترام سے لیا جائے