!زوال پزیر سیاسی جماعتیں

تحریر۔نسیم بلوچ
سیاسی جماعتیں اگر وقت و حالات کے ساتھ اپنے جائزہ لینے سے قاصر رہے,آئین و منشور کو فراموش کرتے رہے,آئین کو عمل میں لانے سے گریز کرتے رہے, افکار و نظریات پس منظرمیں چلے جائے,اظہار رائے کے آزادی کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے,جمہوریت پسندی محض خواب ہی رہے ,تنقید برائے تعمیر خود ساختہ منصبی و شخصی وقار و آبرو کی بے توقیری سے مربوط رہے,سیاسی سوال منصبی و شخصی مخالفت سے منسلک ہوتے رہے,کارکناں کی خدشات و تحفظات کی کوئی حیثیت نہ رہے,آئین و منشور سے منحرف اراکین, عہدیداران اور نماہندگان کے خلاف موثر تادیبی کاروائی(سزا و جزا کے عمل)ماند پڑھ جائے, تو یقینی طور پر ایسے سیاسی جماعتوں کو وقت کے بے رحم موجیں بہا کر لے جاتے ہیں۔یا حالات کی سخت تپش انہیں پگھلا دیتے ہیں۔وہ اپنے اصل ہیئت و ساخت سے ہٹ کر نئی روپ دھارنے لگتے ہیں۔پھر وہ سیاسی جماعت نہیں ہجوم بن جاتی ہیں۔اور رہنما ہجوم پسند ہوتے ہیں۔آخر کار وہ عوام, قوم اور وطن پرستی کے مقدم نمائندگی سے ہاتھ دھو کر زوال پزیر جماعتیں بن جاتے ہیں۔اور زوال پزیر جماعتیں کھبی بھی قومی و عوام کی نمائندگی نہیں کرسکتے ہیں۔نہ ہی قومی اہداف کے حصول کو ممکن بنا سکتے ہیں۔
تاہم وقت و حالات کے ساتھ ساتھ یہ سیاسی جماعتیں درحقیقت جماعتی اقدار و حیثیت کھودیتے ہیں۔اور حق نمائندگی کھونے کے بعد وہ گروئی مفادات کا محافظ گروہ یا ٹولہ بن کر نئی صورت میں عوام اور قوم کی سامنے نمودار ہوتے ہیں۔بظاہر وہ جماعتی حیثیت سے عوام اور قوم سے التجاء کرتی رہتی ہے۔اور اپنے جماعتی حیثیت منوانے میں مصروف عمل رہتے ہیں۔مگر عوام ان پر کھبی بھی اعتماد نہیں کرتی ہے۔کیونکہ ان کی بدترین و مایوس کن کارکردگی عوام پر عیاں ہوچکی ہوتی ہے۔اور وہ عوامی دکھ,درد, اورتکالیف کو محسوس کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔اسی طرح ان میں باہمی اختلافات شدت کے ساتھ نمایاں ہونے لگتے ہیں۔وہ شدید انتشار و خلفشار کی صورتحال میں اپنے بنیادی اور قومی اہداف کے حصول میں بری طرح ناکامی سے دوچار ہوتے ہیں۔
مزید براں,ان جماعتوں میں غصب کی بے حسی پروان چڑھتے ہیں۔ انہیں یہ احساس تک نہیں ہوتے ہیں۔کہ کارکنان کی قدر و منزلت کیا ہے؟اور کیسے سیاسی کارکنان فکر ونظریات پر کاربند راہ کر زندگی کے پر مسرت ایام جماعتوں کے نام پر وقف کرکے خدمت خلق کے عظیم جذبوں میں سرشار ہو کر خودی کو بھلادیتے ہیں۔کیسے سیاسی کارکنان زندگی دعوی پر لگا کر تپتی دھوپ اور سخت سردی میں قیادت کی ہر حکم بجا لاتے ہیں۔حتی کہ بعض اوقات احتجاجی مظاہروں,جلسے و جلوس,سخت تر ین احتجاجی حکمت عملی کے ردعمل میں یا بجلی کے شارٹ سرکٹ لگنے کی وجہ سے جام شہادت نوش کرتےہیں۔اسی طرح جوان, کماش اور بزرگ سیاسی کارکنان تمام تر تکالیف کے باوجود فکر ونظریات پر ثابت قدمی سے آخری سانس تک قائم رہتے ہیں۔حتی کہ اصول,فکر اور نظریات بالخصوص جماعتوں کے سربلندی پر جان تک نچاور کیے جاتے ہیں۔مگر جب یہ جماعتیں جیسے ہی اقتدار تک پہنچتی ہے۔تو بے حسی و لاپرواہی کی باعث سب سے زیادہ استحصال انہی کارکنان کا کیا جاتا ہے۔جو یقینا ان جماعتوں کی وجہ سے سب سےزیادہ ذلت اٹھاتے ہیں۔
بدقسمتی سے ان زوال پزیر جماعتوں میں چند نااہل ترین لوگ قیادت کرنے لگ جاتے ہیں۔اور انہیں جماعتوں کے اغراض ومقاصد,منشور اور آئین سے کوئی سروکار نہیں۔نہ وہ یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔کہ ان جماعتوں میں کیسے بااصول اراکین و رہنماء ہوا کرتے تھے۔جو اصول, میرٹ اور جمہوریت کو اپنا نصب العین سمجھتے تھے۔لیکن آج مقید نمودی عہدیداران مصالحت کی نذر ہوچکے ہیں۔اور آہین,آہینی مدت اور فورمز خواہشات کی تابع بن رہے ہیں۔چند بدعنوان لوگ مجموعی طور پر جماعتوں کی وقار, عظمت اور سربلندی کو خاک چھان کر تاریخی بے حسی اور بد عنوانی رقم کررہے ہیں۔اور احتسابی عمل مکمل طور پر اپاہج بن گیا ہیں۔کوئی کسی سے باز پرس نہیں کرسکتا ہے۔نہ ہی یہ نااہل قیادت خود کو کہی بھی جوابدہ سمجھتے ہیں۔
مزید یہ کہ عوامی سیاست ان کی ترجیعات میں نہیں ہیں۔نہ ہی وہ عوامی مفاد عامہ کو مدنظر رکھتے ہیں۔وہ تو یوں ہی چڑھتی سیڑیوں سے مقام بالا تک پہنچے ہیں۔پھر وہ انہی سیڑھیوں کے سہارے جہاں چاہے پہنچ سکتے ہیں۔تمام کارکنان انکی بدعنوانیوں پر ہکا بکا راہ گئے ہیں۔اور ان کی بدترین کارکردگی درحقیقت سیاسی عمل سے وابسطہ تمام دوستوں کو بیگانگی کی دلدل میں دھکیلے جا رہے ہیں۔لیکن وہ بدعنوان عہدیداران سے کوئی بھی کارکن اگر منظم سیاسی پلیٹ فارم کی بات کرے۔یا کوئی بھی سیاسی موضوع زیر بحث لائے۔تو وہ ہر عمل کے ذمہ دار کارکنان ہی کو ٹھہرا کر صبح و شام مگر مچھ کی طرح آنسو بہاتے رہتے ہیں۔حالانکہ حقیقت یہ ہے۔کہ ان کے اپنے مایوس کن کارکردگی کے باعث کارکنان اور ذمہ داران کی گلہ گھونٹ چکے ہیں۔اور وہ یقینی طور پر قیادت کے اہلیت بھی نہیں رکھتے ہیں۔لیکن بدقسمتی سے براجمان ہیں۔
علاوہ ازیں,میرٹ,نظم وضبط اور اصولیں بالخصوص نظریات،آئین،منشور اور اغراض و مقاصد کہی بھی زیر بحث نہیں۔نہ ہی سیاسی سر گرمیاں, تنظیم سازی,سیاسی عمل کو فروغ دینے کی کوشش کیے جارہے ہیں۔جماعتوں میں خود پیدا کردہ جمود کی کفیت ہے۔اندھیروں کی راج ہے۔اور ایسا لگ رہا ہے۔کہ یہ جماعتیں غیر معینہ مدت کے لیے التواع کا شکار ہیں۔یا انہیں کہی کچھ ٹھیکہ داروں,سرمایہ داروں یا اجارہ داروں کو کرایہ پر دیئے گئے ہیں۔اسی طرح سیاسی کارکنان کی غیر معینہ مدت کے لیے چھٹی کرادی گئی ہو۔جس کی نتائج آنے والے وقتوں میں انتہائی بیانک ہونگے۔
بخدا, یہ ان سیاسی جماعتوں کی زوال نہیں بلکہ بلوچ قومی و جمہوری سیاست کی زوال ہے۔ایسے صورت حال میں عام لوگ تو درکنار حقیقی سیاسی کارکنان اور پڑھے لکھے تعلیم یافتہ نوجوان سیاسی جماعتوں کی بدترین کارکردگی کو دیکھ کر سخت متنفر ہورہے ہیں۔سیاسی عمل سے دور ہورہے ہیں۔جس سے ان میں سیاسی بیگانگی جنم لے رہے ہیں۔اور سیاسی بیگانگی سے سماجی بیگانگی کے راہ ہموار ہورہی ہے۔ بعض اوقات یہی سیاسی کارکنان و تعلیم یافتہ نوجوان حقیقی سیاسی جماعتوں کی بجائے باپ,ق لیگ یا ان قوتوں کاسہارا لینے پر مجبور ہورہے ہیں۔جو عرصہ دراز سے بلوچستان میں بلوچوں پر جبر روا رکھا ہیں۔ یقینا ان نوجوانوں کے تابناک مستقبل کا ذمہ دار بھی یہی سیاسی جماعتیں ہونگے۔جو کہ سیاسی کارکن اور اعلی تعلیم یافتہ نوجوانوں کو سیاسی مقام یا رتبہ دینے میں بری طرح ناکام ہیں۔
آج ضرورت اس امر کی ہے۔کہ سیاسی جماعتیں وقت وحالات کے ساتھ خود کی خبر رکھیں,حالات کا جائزہ لینے کی کوشش کرے,آہین کو مقدم رکھ کر اسے عمل میں لائے۔ نظریات و انتخابی منشور کو اولیت دے کر سیاسی کارکنان و نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرے,انہیں ان کی جائز مقام دے,بدعنوان عناصر کا فوری محاسبہ کرکے احتسابی عمل کو مضبوط اور بلاتفریق قابل عمل بنائے۔آذادانہ اظہار رائے,تنقید برائے تعمیر اور جمہوریت کو فروغ دے۔تاکہ سیاسی جماعتیں پروان چڑھ کر اپنے مطلوبہ قومی و جمہوری اہداف و مقاصد کے حصول میں کامیابی سے ہمکنار ہو۔اسی طرح بہتریں انداز میں عوام کی نماہندگی کرنے میں مکمل طور پر کامیاب ہو۔

اپنا تبصرہ بھیجیں