کیاتعزیت کیا تہنیت

تحریر: انورساجدی
ایک بری خبر یہ ہے کہ واجہ جمعہ خان بلوچ یواے ای میں انتقال کرگئے وہ ایک لیجنڈی کردارتھے کرہ ارض کے طول وعرض میں جہاں جہاں بلوچ آباد تھے ان کی شخصیت سے واقف تھے جمعہ خان ہوں عبدی خان ہو واجہ امیری ہوں عبداللہ سیاوی ہوں یا دادشاہ انہوں نے اپنی جدوجہد سے مغربی بلوچستان پر ناقابل فراموش نقوش چھوڑے۔جمعہ خان کو مرنے سے پہلے کلانچ کے مستقبل کی فکر تھی کیونکہ وہ اپنے جنم بھومی کو دیکھنے سے محروم رہے۔
سوشل میڈیا پر دوسری خبر یہ گشت کررہی ہے کہ نواب ثناء اللہ زہری اور جنرل عبدالقادر بلوچ پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کررہے ہیں نواب ثناء اللہ کی آخری پارٹی ن لیگ تھی اس جماعت نے انہیں بلوچستان کی وزارت اعلیٰ کا عہدہ دیا جنرل عبدالقادر ان کے لاحقہ کی حیثیت رکھتے ہیں وہ بھی ن لیگ کے ایم این اے رہے جبکہ اس سے قبل وہ سابقہ کنگز پارٹی ق لیگ کو بھی رونق بخش چکے ہیں۔
چونکہ پیپلزپارٹی اسٹیٹس کورکی نمائندہ جماعت ہے اس کی مجبوری ہے کہ وہ الیکٹیبلز کو اکاموڈیٹ کرے دونوں سیاسی رہنما الیکٹیبل ہیں پیپلزپارٹی کو امید ہے کہ یہ نہ صرف اپنی نشستیں حاصل کریں گے بلکہ حالات موافق رہے تو کئی دیگر الیکٹیبلز کو بھی پارٹی میں لاسکتے ہیں جس کی وجہ سے پیپلزپارٹی ایک بار پھر بلوچستان میں حکومت سازی کی پوزیشن میں آجائے گی۔
آصف علی زرداری نے پیپلزپارٹی کے دروازے ہمیشہ سرداریار محمد رند کیلئے کھلے رکھے لیکن2008ء کی حکومت سازی کے بعد سے سردارصاحب نے زرداری سے فاصلے رکھے اس کی ایک بڑی وجہ نواب شاہ کی مقامی اور قبائلی سیاست ہے وہاں پر رند بڑی تعداد میں آباد ہیں اگرچہ شیر محمد کو اپنے بڑے بھائی کی حمایت حاصل نہیں لیکن گزشتہ انتخابات میں انہوں نے جی ڈی اے کے تعاون سے ہزاروں ووٹ لئے اور زرداری بڑی مشکل سے جیتے چونکہ بلوچستان میں پارٹی کا کوئی پرسان حال نہیں تھا اس لئے نمایاں شخصیات کی شمولیت کو غنیمت سمجھا جارہا ہے جہاں تک نواب ثناء اللہ کا تعلق ہے وہ اگرچہ پہلی مرتبہ پیپلزپارٹی میں آرہے ہیں لیکن ان کے والد محترم 1973ء سے1977ء تک پیپلزپارٹی ضلع خضدار کے صدر تھے اور1977ء میں پارٹی ٹکٹ پر ایم پی اے بھی منتخب ہوئے نواب ثناء اللہ نے ہمیشہ زرداری،خورشید شاہ اورمرادعلی شاہ سے اچھے تعلقات رکھے جب وہ ن لیگ کے وزیراعلیٰ تھے تو ان کا مسلسل رابطہ رہتا تھا ایک مرتبہ میرے قریبی دوست سردار یعقوب ناصر مسلم لیگ ن بلوچستان کے صدر تھے تو انہوں نے فون کرکے کہا کہ بہت بڑی خوشخبری ہے میں نے پوچھا کیا فرمانے لگے نواب ثناء اللہ ہماری جماعت میں شامل ہورہے ہیں میں نے کہا سردار صاحب یہ بتاؤ آپ کہاں جائیں گے کچھ عرصہ بعد یعقوب ناصر کی جگہ نواب ثناء اللہ ن لیگ کے صدر ہوگئے یہی کچھ غریب علی مدد جتک کے ساتھ ہوگا وہ بہت مشکل دور میں پارٹی کے صوبائی صدر بنے نام زندہ رکھا نئی تبدیلیوں کے بعد انہیں دوبارہ ورکر کی حیثیت سے کام کرنا پڑے گا۔
پیپلزپارٹی میں بنیادی تبدیلی کب آئی یہ میں ایک واقعہ کے ذریعے بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔
1977ء کے مارشل لاء کے بعد نامور وکیل یحییٰ بختیار پارٹی کے صدر مقرر ہوئے تو خوف کا یہ عالم تھا کہ پارٹی کی صوبائی کمیٹی کے اجلاس میں کورم پورا نہیں ہوتا تھا سارے نامی گرامی لوگ پارٹی کو خیرباد کہہ چکے تھے پارٹی کا یہ حال تھا کہ اس کے روز مرہ کے اخراجات پورے کرنے کیلئے ورکرز کو ذاتی چندہ دیناپڑتاتھا۔
1986ء میں محترمہ طویل جلاوطنی کے بعد واپس آئیں تو میر امان اللہ گچگی پارٹی کے صدر تھے کوئٹہ میں محترمہ کا شاندار استقبال ہوا انہوں نے اچانک زیارت جانے کا فیصلہ کیا مسئلہ یہ درپیش تھا کہ ان کا قیام کہاں ہوگا ہاشم کاکڑ پارٹی کے صوبائی سیکریٹری تھے انہوں نے آفر دی کہ ان کے گھر میں محترمہ قیام کریں اگرچہ ان کا گھر ایک سادہ سادیہی مکان تھا اور وہاں پر مغربی سہولیات کی بھی کمی تھی لیکن محترمہ نے ایک رات قیام کیا اگلے دن کسی نے ان سے کہا کہ بی بی آپ پاکستان کی سب سے بڑی لیڈر ہیں یہ جو زیارت تک آپ آئی ہیں تو آپ کی ذاتی سیکورٹی کاکوئی انتظام نہیں ہے محترمہ نے اس بات سے اتفاق کیا اور اس کے بعد سے انہوں نے قبائل اور ذاتی اثرورسوخ والے لوگوں کو عہدے دینا شروع کردیا اور یہ روایت سارے ملک میں قائم ہوگئی حالانکہ یہ کارکنوں کی جماعت تھی۔بااثر لوگ آتے اور جاتے تھے لیکن کارکن ہمیشہ قائم رہتے تھے چند سال قبل جب محترمہ دوبئی میں جلاوطنی کی زندگی گزاررہی تھیں تو انہوں نے اپنے اعتماد والے جاوید احمد کو صدر مقررکردیا وہ ایک کارکن تھے جیل بھی گئے تھے لیکن کوئی بااثر شخص نہیں ملا تو انہیں یہ بڑا عہدہ دیا گیا اسی دوران صابر بلوچ سے لندن میں ملاقات ہوئی جو کینیڈا سے طویل قیام کے بعد آئے تھے وہ پاکستان کے حالات سے بے خبر تھے مجھ سے پوچھا کہ آج کل پیپلزپارٹی بلوچستان کا صدر کون ہے تو میں نے کہا کہ جاوید اس پر اس نے حیرت سے کہا نایارنا ایسا ہو ہی نہیں سکتا جب صابر بلوچ لندن سے واپس آئے تو نہ صرف جاوید احمد کی قیادت میں کام کرنے لگے بلکہ سینیٹ کاٹکٹ بھی لے اڑے اور ڈپٹی چیئرمین بھی بن گئے ایک مرتبہ دوبئی میں محترمہ سے ملاقات تھی پارٹی کے ایک رہنما آئے جاوید احمد کی شکایت شروع کردی محترمہ نے کہا کہ آپ بلوچستان جاکر الیکشن کی تیاری کریں اور جاوید احمد سے مکمل تعاون کریں۔2013ء میں جب پارٹی کی حکومت ختم ہوگئی تو سارے پنچھی اڑگئے اور پیپلزپارٹی کا دامن خالی ہوگیا اس مجبوری کی وجہ سے علی مدد جتک کاسہارا لیا گیا چنانچہ جب سابق جب بڑے لوگ آجائیں گے تو علی مدد ان کیلئے جگہ خالی کرکے دوبارہ اپنے اصلی کام کی طرف لوٹ جائیں گے۔
پیپلزپارٹی ہو ن لیگ ہو یا تحریک انصاف یہ الیکٹیبلز کی پارٹیاں ہیں انہوں نے معاشرے کو ساکت کرکے اسٹیٹس کوبرقرار رکھا ہے مجبوری یہ ہے کہ ان کی جگہ کوئی اور جماعت نہیں آسکتی کیونکہ فی زمانہ جماعت چلانے کیلئے اربوں روپے کی ضرورت ہوتی ہے جو ان تین جماعتوں کے سوا اور کسی کے پاس نہیں ہے باقی جماعتوں کا حال جواداحمد کی برابری پارٹی جیسا ہی ہے۔
لہٰذا ریاست اور اداروں کی یہی ضرورت ہے کہ یہی جماعتیں برقراررہیں اور باری آنے پر حکومت سازی میں حصہ لیں ان کے علاوہ جے یو آئی اور جماعت اسلامی بھی کام کررہی ہیں لیکن ان سے صرف پریشر گروپ اور معاونت کا کام لیاجارہا ہے ان کی مرکزی حیثیت ختم کردی گئی ہے اسی طرح پشتونخوا اور بلوچستان کی جماعتوں سے بھی استاد کے ”چھوٹو“ کاکام لیاجارہا ہے ان کی اور کوئی افادیت رہنے نہیں دی گئی ہے۔
گزشتہ روز کی بڑی خبر نئے مالی سال کا بجٹ تھا چونکہ بلوچستان کے لوگوں کا بجٹ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے اس لئے انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
البتہ بجٹ میں جنوبی بلوچستان کیلئے20ارب روپے رکھے گئے ہیں جو 101ارب روپے کے پیکیج کاحصہ ہے یہ رقم بھی انفرااسٹرکچر بنانے کیلئے مختص ہے یہ جو جنوبی بلوچستان ہے اس کے انفرااسٹرکچر کوترقی دینا ریاست کی اشد ضرورت ہے کیونکہ اس کے بغیر کامل رٹ قائم نہیں ہوسکتی جو بھی پروجیکٹ ڈیزائن کئے گئے ہیں ان کا مقصد بنیادی تبدیلی لانا ہے اور یہ بنیادی تبدیلی یہاں کے بے خانماں لوگوں کیلئے نہیں بلکہ ریاست کی ضروریات کیلئے ہوگی۔
مکران جو بلوچستان کا اٹوٹ انگ اور شہہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے اس کے پہلے حصے بخرے کئے جارہے ہیں اور پھر انہیں جوڑ کر اٹوٹ انگ بنایاجائیگا۔
اگر کوئی حسین واڈیلا جیسا فرزانہ روئے گا تو اسے کون اہمیت دے گا باقی لوگ تو ساتھ ہیں بلوچستان یا ساؤتھ بلوچستان میں جو ہورہا ہے اس کے نتائج آئندہ ایک دوعشرے میں سامنے آئیں گے۔فی الحال تو راحت ملک اور حمید انجینئر نے انکشاف کیا ہے کہ پسنی کے ساحل پر امریکی طیارہ بردار جہاز لنگرانداز ہے یہ کوئی نئی بات نہیں افغانستان سے انخلا کے دوران امریکہ اگر زمین سے حفاظتی اقدامات نہ کرسکا تو سمندر اورفضا سے کرے گا اڈے تو اڈے ہوتے ہیں چاہے زمینی ہوں یا فضائی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں