فوربیڈن سٹی اور ہم ؟

تحریر از جان محمد انصاری

فوربیڈن سٹی چین کے دارالحکومت بیجینگ میں واقعہ ایک مشہور قدیم اور تاریخی شہر ہے ۔ اسے 1406 سے 1420 کے درمیان مینگ ڈاینسٹی نے بنایا تھا۔ اس شہر میں تقریباً بادشاہوں نے 500 سالوں تک اپنے خاندانوں اور خدمت کاروں کے ساتھ زندگی گزاری۔ اس قدیم شہر میں کل 980 کمپلیکس 8886 کمرئے اور 720000 مربع مل رقبے پر مشتمل ہے۔ ایسے قدیم چینی ثقافتی انفارسٹکچر کی شکل میں بنایا گیا ہے۔ اسے دیکھنے کیلئے سالانہ ہزاروں کی تعداد میں سیاح چین کے دارالحکومت بیجینگ کا روخ کرتے ہیں۔ اس شہر کو لکڑیوں سے بنایا گیا ہے۔ اس شھر کے تمام انفارسٹکچر لکڑیوں سے بنا ہوا ہے ۔ لکڑیوں کو آپس میں ایک دوسرے سے ایسا جوڈا گیا ہے کہ جس میں کم سے کم ( کیلیں)اور بلکہ نا ہونے کے برابر ( کیلیں ) استعمال کی گی ہے۔ جیسے دیکھ کر انسان حیرت میں چلا جاتا ہے کہ اس وقت جب انسانوں کے پاس موجودہ دور کی مقابلے میں اتنا جدید ٹیکنالوجی نہیں تھا لیکن جس طرح انہوں نے ایسے بنایا ہے ناقابل یقین ہے۔ اس شہر میں سینکڑوں سالوں تک بادشاہوں نے زندگی بسر کی ہے۔ یقیناً اس سے آپ دنیا کے عظیم تہذیبوں کا حصہ مانے گئے اور اس کے لوگوں کو شاید دنیا کا ترقی یافتہ سمجھتے ہونگے کہ بغیر اتنی جدید ٹیکنالوجی کے ایسا شہر کیسے انہوں نے بنایا ہوگا۔ لیکن تاریخ انہیں اپنے دور کا ماڈرن تو کہتے ہے لیکن تہذیب یافتہ نہیں کیونکہ وہاں ایک بہت بڑی خرابی تھا کہ شاید جس کی وجہ سے تاریخ میں ان لوگوں کو جو مقام ملنا چاہے تھا نہیں مل سکا۔ اس قدیم اور تاریخی شہر میں ایک بھی لیٹرین نہیں تھا۔ یعنی بادشاہیں تو اس شھر میں رہتے تھے لیکن اس تمام شہر میں ایک بھی لیٹرین لوگوں کیلئے نہیں بنایا گیا تھا بلکہ وہ ہر کمرے کے کسی ایک کونے کو وہ لوگ بطور لیٹرین استعمال کرتے تھے اور گندگی کی بدبو سے نمٹنے کیلئے وہ اس پر عطر چھڑکتے تھے تاکہ بدبو کو دور کیا جاسکے۔ اسی وجہ سے شاید ان لوگوں کو تاریخ اپنے دور کا ماڈرن ترین لوگ تو مانتے ہے لیکن تہذیب یافتہ نہیں۔
آج ہماری بھی وہی حالت ہے۔ آپ ہمارے گلی محلوں اور عوامی اداروں، عوامی مقامات اور قبرستانوں کو دیکھے۔ ہم لاکھوں روپے اپنے مکانات کی خوبصورتی کی آرایش کیلئے تو خرچ کرتے ہے ۔ لیکن ہماری گلیوں کی بند نالی ، جگہ جگہ کچرئے کی ڈھیر اور تنگ و تاریک گلیوں اور خراب اور کچی سڑکوں کی ہمیں کوئی فکر غالب نہیں۔ ہماری مسجدوں کو دیکھے ماشاءاللہ باہر سے انتہائی خوبصورت دیکھنے والا اندر لاکھوں روپیوں سے خریدا ہوا قالین بچایا جاتا ہے ۔ لیکن اگر کوئی انسان مسجد کے لیٹرین میں چلا جائے تو لیٹرین کی وہ حالت ہے کہ بندہ کچھ بتا بھی نہیں سکتا اور کچھ کربھی نہیں سکتا۔ نل خراب ، دورازے کی لاک خراب ، لوٹے کی تو حالت ہی نہ پوچھے سینکڑوں جگوں سے سوراخ جس میں پانی بھر ہی نہیں جاتا۔ جس سے کسی بھی انسان کی لباس کا ناپاک ، گندہ اور گیلا ہونے کا خطرہ ہوتا رہتا ہے۔ نماز ادا کرنے کی جگہ کا جیتنا پاک و صاف ہونے کی ضرورت ہے میرے خیال میں اس سے زیادہ نہیں تو برابر ہماری مسجدوں کے لیٹرین کا پاک و صاف ہونا بھی لازمی ہے۔ کیونکہ ناپاک لباس سے نماز نہیں ہوتا۔ لہذا کہنے کا مقصد یہ تھا کہ ماڈرن لباس ، ماڈرن انفارسٹکچر ، اور ماڈرن چیزوں کے استعمال سے ہم ماڈرن تو دیکھ سکتے ہے لیکن تہذیب یافتہ ہرگز نہیں بن سکتے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں