لائبریری سے شعور کا راستہ

تحریر؛ ابوبکر دانش بلوچ
ہمارے ہاں اکثر لوگ تعلیم نہیں، ڈگری حاصل کرتے ہیں۔ مقصد ملازمت کا حصول ہوتا ہے۔ جیسے ہی نوکری مل جاتی ہے اور کھانا کمانا شروع ہو جاتا ہے تو مطالعہ یوں رک جاتا ہے جیسے مرتے شخص کی سانسیں،
یعنی ملازمت کا مل جانا علمی سفر کی موت ثابت ہوتا ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ اور تو اور، درس و تدریس سے منسلک لوگ یعنی اساتذہ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔ کسی کے گھر میں لائبریری نہ ہو تو بھلا وہ کیسے استاد ہونے کا دعویٰ کر سکتا ہے، وہ طالب علم کو کیا سکھا سکے گا سوائے ان چند نظریات و تصورات کے جو ماضی کے کسی دور میں سیکھے تھے،کتاب علم سے بھرا خزانہ اور دانش مندی سے بھرا پیمانہ ہے۔
یہ عام طور پر تصور کیا جاتا ہے کہ کسی ملک کی ترقی جانچنے کے لئے یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہاں تعلیمی نظام کیسا ہے اور کسی بھی تعلیمی نظام کو جانچنے کے لئے یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہاں کتنی لائبریریاں کام کر رہی ہیں۔ اور کتنے لوگ اس سے استفادہ کر رہے ہیں۔ بدقسمتی سے رجحان پاکستان میں بہت کم ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ پورے پاکستان میں جتنی کتابیں موجود ہیں وہ امریکہ کی ایک یونیورسٹی لائبریری میں موجود ہیں۔ پاکستان میں کتب بینی کے فروغ نہ پانے کی وجوہات میں کم شرح خواندگی، صارفین کی کم قوت خرید، حصول معلومات کے لئے موبائل، انٹرنیٹ اور الیکٹرونک میڈیا کا بڑھتا ہوا استعمال، اچھی کتابوں کا کم ہوتا ہوا رجحان، حکومتی عدم سرپرستی اور لائبریریوں کے لئے مناسب وسائل کی عدم فراہمی کے علاوہ خاندان اور تعلیمی اداروں کی طرف سے کتب بینی کے فروغ کی کوششوں کا نہ ہونا بھی شامل ہے۔ کتب بینی کے فروغ کے لئے حکومت پاکستان نے چند سال پہلے قومی کتاب ڈے منایا اس حوالے سے ڈائریکٹر جنرل پبلک لائبریریز پنجاب ڈاکٹر ظہیر احمد بابر نے قائداعظم لائبریری باغ جناح لاہور، پنجاب پبلک لائبریری، گورنمنٹ ماڈل ٹاؤن لائبریری، ڈائریکٹوریٹ آف پبلک لائبریریز پنجاب اور پنجاب لائبریری فاؤنڈیشن کے اشتراک سے مختلف پروگرام ترتیب دیے جن میں بیک پریڈ، مشاعرہ، ویڈیو ڈسپلے، تراجم گول میز کانفرنس، تقریب رونمائی کتب اور نمائش کتب نمایاں تھیں۔ حکومت پنجاب کتاب کی ترویج و ترقی کے لئے پنجاب میں کتب خانوں کا جال پھیلا رہی ہے اس سلسلے میں لاہور میں بھی مختلف پارکوں میں لائبریریوں کے قیام کی تجویز ہے۔ بک ڈے پر ایک بک پریڈ کا اہتمام کیا گیا، بک پریڈ صبح دس بجے قائداعظم لائبریری سے شروع ہو کر چیئرنگ کراس پر اختتام پذیر ہوئی، قیادت اوریا مقبول جان نے کی۔ اوریا مقبول جان نے کہا کہ کتاب اور کتب خانوں کی افادیت اور اہمیت کو مہذب قوموں نے ہر دور میں تسلیم کیا ہے اہل علم کسی ملک میں پائے جانے والے کتب خانوں کو اس ملک کی ثقافتی، تعلیمی اور صنعتی ترقی کا پیمانہ قرار دیتے ہیں۔ آج کل نئی نسل میں کتب بینی کا رجحان تقریباً ختم ہوتا جا رہا ہے نوجوانوں اور نئی نسل کو چاہیے کہ وہ ہمارے اسلاف کے کارناموں سے واقفیت کے لئے قائد اعظم محمد علی جناح کے فرمودات، علامہ اقبال کی شاعری، سرسید احمد خاں کی لکھی ہوئی کتابیں اور تحریریں،مولانا شبلی نعمانی کے خیالات، حالی کی شاعری، مولانا عبدالماجد دریا بادی ڈاکٹر رشید احمد صدیقی، فراق گورکھ پوری، خواجہ احمد عباس، اشفاق احمد، ممتاز مفتی، بانو قدسیہ، فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، جوش ملیح آبادی، احمد فراز، جون ایلیا، حبیب جالب، منیر نیازی، عطاء الحق قاسمی اور دیگر مشاہیر کے خطبات و کلام پڑھیں اور انکے نظریات اور افکار کو عملی جامہ پہنائیں۔ کتب بینی سے انسان میں الفاظ کا ذخیرہ بھی بڑھ جاتا ہے اور وہ اس سے اپنے ما فی الضمیر کو جس طرح چاہے بیان کر سکتا ہے یہ ایک قدرتی تحفہ ہے کتب بینی کی عادت ہمیں ڈالنی ہو گی، تاکہ ایک بہتر اور سمجھ دار معاشرے کا وجود یقینی بنایا جا سکے۔ ہمیں چاہیے کہ بچوں کو لائبریری بھی لے جائیں۔ کہتے ہیں کہ لائبریری بچے کے دماغ کی بہترین میزبان ہوتی ہے۔ ڈھیر ساری کتابیں دیکھ کر بچہ خوش بھی ہوتا ہے۔ وہ اپنی مرضی سے مزاج اور پسند کے مطابق کتابوں کا انتخاب کر کے اپنی دماغی صلاحیتیں اجاگر کر سکتا ہے۔ کتاب بہت اچھی ہم نشین اور رفیق ہے۔ کتاب علم سے بھرا ہوا خزانہ اور دانش مندی سے بھرا ہوا پیمانہ ہے۔ کتابیں فطرت کی بخشی ہوئی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے، عقل و شعور کی صحیح طور پر راہنمائی کرنے اور انھیں پروان چڑھانے کا نہایت موثر ذریعہ ہیں۔ اس سے انسان معراج کمال پاتا ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم نے خود کتاب کی اہمیت کم کر دی ہے۔ ہم اپنے دوستوں اور بچوں کو ایک سے ایک قیمتی تحفہ دیتے ہیں لیکن کتاب نہیں دیتے۔ ہمیں چاہیے کہ تحفہ میں بچوں اور دوستوں کو کتابیں دیں،تاکہ معاشرے میں کتاب پڑھنے کا شوق پیدا ہو۔کتب بینی کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے سب سے پہلے اخبار، رسالے یا پھر کتابیں خرید کر پڑھیں۔ ہر محلے میں ایک مختصر سی سہی لائبریری کا قیام عمل میں لایا جانا چاہیے، جہاں اردو انگریزی اور عربی کی ابتدائی کتابیں میسر ہوں۔ پبلشروں کو چاہیے کہ اپنے بزرگوں کی بہادری، انصاف اور رواداری پر مشتمل کتابیں شائع کریں، تاکہ نوجوانوں اور بچوں میں کتب بینی کا شوق پیدا ہو۔ کتاب اور کتب خانوں کی افادیت اور اہمیت کو مہذب قوموں نے ہر دور میں تسلیم کیا ہے۔ لائبریریوں کی ترقی، ترویج اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک ملک میں اس کے لئے باقاعدہ قانون موجود نہ ہو۔ کتب بینی کے رجحان میں اضافہ کرنے کے لئے حکومت کو چاہیے کہ پورے پاکستان میں لائبریریوں سے متعلق قانون سازی کرتے ہوئے تمام کارپوریشنز، میونسپل کمیٹیوں، ضلع کونسلوں اور یونین کونسلوں تک کو ہدایت کرے کہ وہ اپنی آمدنی کاکم از کم 3فیصد لائبریریوں کی ترویج و ترقی پر صرف کریں۔ اور لائبریری میں کام کرنے والے سٹاف کے لئے سروس سٹرکچر و سروس رولز بنائے جائیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں