بے روزگار نوجوانوں کو آسامیاں فراہم کی جائے

تحریر:عطاء الرحمن بلوچ
بلوچستان تمام ذخائر سے مالا مال صوبہ ہے آئے روز نئے مصائب سے دو چار ہے۔ ایگریکلچر کیطالب علم اور فزیو تھراپسٹ ایسوسی ایشن کے طالب علم بھوک ہڑتال پر بیٹھے ہیں۔ اور ساتھ ہی احتجاج کر رہے ہیں۔ دوران احتجاج پولیس نے غیر اخلاقی اقدام اٹھا کہ ان کے اوپر لاٹھی چارج کیا- وہ قابل مذمت ہے۔بلوچستان کے دور دراز علاقوں سے تعلق رکھنے والے طالب علم ایک نئی امید کے ساتھ یونیورسٹیوں میں داخلہ لیتے ہیں۔ تاکہ آنے والے دنوں میں ہمارا مستقبل روشن ہو جائے۔ بڑی دکھ کی بات یہ ہے۔ کہ 5 سال تک انہیں مختلف تکالیف سے گزرنا پڑتا ہے۔ فیس دینے میں مشکلات ہوتی ہے۔ رہائش کرنے کیلئے کافی مشکلات کے باوجود بے روزگاری کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بلوچستان میں لاکھوں نوجوان بے روزگار ہیں۔ دو دن پہلے ایگریکلچر اور بلوچستان فزیو تھراپسٹ ایسوسی ایشن کے طالب علم اپنے جائز مطالبات کیلئے احتجاج کرنے پر مجبور ہوگئے۔ اور سڑکوں پر نکلے دکھ کی بات یہ ہے۔ کہ پولیس نے ان طالب علموں پر لاٹھی چارج کیا۔ ڈگری ہولڈر طالب علموں پر پولیس کی غنڈاگردی غیرمنصفانہ عمل تھی۔ درد دکھ اور تکلیف کو وہ لوگ جانتے ہیں۔جو اس طرح کے تکالیف سے گزرے۔ہمارے نمائندے خود آسودگی اور خوشحالی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اور وہ کیا جانتے ہیں۔ کہ ہمارے تکالیف کو۔ان کے بچے دوسرے ممالک میں اعلی سے اعلی تر تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ خود تو اپنے کاروبار میں مصروف ہیں۔ ان کے بچے سکون کی زندگی گزار رہے ہیں۔غریب کے بچے جتنا بھی احتجاج کرے۔ سڑکوں پر نکلے ہمارے نمائندوں کو کوئی پرواہ نہیں ہے۔پولیس بھی جانتی ہیں۔ کہ احتجاج کرنے والے اکثر غریب لوگ ہوتے ہیں۔اس بنا پر پولیس موقع سے فائدہ اٹھا کر ان معصوم مجبور اور بے بس طالب علموں پر لاٹھی چارج کرتی ہے۔ اور اپنی طاقت ان لوگوں کیاوپر استعمال کی۔ مہنگائی کی وجہ سے فیس ادا نہ ہونے کی صورت میں ہزاروں بچے بچیاں اسکول چوڑ گئیں ہیں۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی نے سب کے سب کو پریشان کیا ہے۔ تمام ڈگری ہولڈر طالب علم بے روزگار ہیں۔روزگار کے کوئی خاص ذریعہ نہیں ہے۔ روزگار کا ذریعہ باڈرز اور ڈیزل کا کاروبار تھا۔لیکن بدقسمتی سے وہ بھی بند ہوگئے۔ وہاں بھی بے روزگار نوجوان طالب علم لاٹھی کے زد میں تھے۔ ان تمام مسئلوں کے حل ہمارے نمائندوں کے ہاتھ میں ہیں۔ انھیں چاہیے کہ وہ آپس میں مشاورت کریں۔ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو روزگار فراہم کرے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے نمائندوں کو بلوچستان کے بے روزگار نوجوانوں کی کوئی فکر نہیں۔ انہیں صرف اپنی کرسی کے فکر ہیں۔ عوام کی ترقی اور خوشحالی کیلئے کوئی نمائندہ بھی توانا آواز نہیں رہا ہے۔ ہم اوروں سے کیا گلہ کریں۔ ہمارے اپنوں نے ہمیں غربت اور پسماندگی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ اگر ہمارے نمائندوں کو اپنی صوبے کی فکر ہوتی تھی۔ تو آج ہمارا حال یہ نہیں ہوتا تھا۔ وہ صرف اپنے بینک بیلنس بڑھانے میں مصروف ہیں۔ انہیں ہماری کوئی فکر نہیں ہے۔ اگر انہیں ہمارے فکر ہوتی۔تو آج تعلیم یافتہ نوجوانوں سڑکوں پر نہیں ہوتے تھے۔ بلوچستان کی لوگ غربت اور بدحالی کے زندگی گزار رہے ہیں۔حکومت کو چاہیے کہ وہ ایک باپ کی حیثیت سے اپنے بچوں کو اچھے روزگار فراہم کرے۔ ان کی داد رسی کریں۔ انہیں معیاری تعلیم فراہم کرے۔ یہی نوجوان بلوچستان کے مستقبل اور ترقی کے ضامن بنیں گے۔ آج اگر طالب علم سڑکوں پر احتجاج پر ہیں۔صرف اپنے حقوق کیلئے حکومت وقت۔ وزیر اعلی بلوچستان۔چیف سکریٹری وزیر زراعت۔ وزیر صحت۔ سے پر زور اپیل ہے۔ کہ اپنے بچوں کی داد رسی کریں۔ انہیں روزگار دیں۔ بے روزگاری کا جلد خاتمہ ہو جائے۔ تاکہ وہ خوشحالی اور سکون کی زندگی کی طرح گامزن ہو جائیں۔