دکھ اور بے بسی کا نام بلوچستان

تحریر :نصیر بلوچ

بلوچستان کی بے بسی بیان کرتے ہوئے مجھے ایک کہانی یاد آیا جس میں، بیٹا بذریعے خط ماں سے مخاطب ہوکر اس کا حال پوچھتا ہے اور جواب کچھ یوں ہوتا ہے۔ بیٹا دو دن سے بارش ہورہی ہے گھر کی چھت گرگئی ہے باقی سب ٹھیک ہیں، گھر میں کھانے کو کچھ نہیں ہے لیکن باقی سب ٹھیک ہیں، پانی جیسے نایاب ہوچکا ہے عاجزی میں دور سے پانی سر پر لادھکر لانا کافی مشکل دہ ہے اس وجہ سے صحت کافی ناساز رہتی ہے لیکن باقی سب ٹھیک ہیں۔ موجودہ صورتحال میں بلوچستان کا پوزیشن کچھ اسی طرح ہے، بجٹ میں جو کمی کوتائی ہے وہ اپوزیشن اراکین کو نظر نہیں آیا اس پر کسی نے تنقیدی بیان بھی نہیں دیا کیونکہ اپوزیشن محض نام کے ہیں، بجٹ سیشن کے بعد ملازمین کا احتجاج اور اس اپوزیشن کا ردِعمل نہ آنا دراصل اسکا واضح ثبوت ہیں کہ بلوچستان اسمبلی میں اس وقت اپوزیشن نہ ہونے کے برابر ہیں۔ حالی میں سوشل میڈیا پر ایک تصویر کافی وائرل ہوئی ہے جس میں اپوزیشن اراکین کی لندن گھومتے نظر آرہے ہیں۔ اس کامیاب بجٹ یعنی بجٹ بخار کے منظوری کے بعد اپوزیشن بلوچستان کے حال سے بے حال سرکاری خرچی پر لندن سیر و تفریح میں مصروفِ عمل ہیں۔ بلوچستان میں حالیہ سیلابی بارشوں سے47 لوگ جاںبق ہوگئے ہیں اور کہیں متاثرین بے گھر ہوچکے ہیں لیکن اسی کہانی کی طرح میڈیا کے سامنے آکر حکومتی اراکین سمیت کو یہ اعتراف کرنے میں شرم محسوس ہوتی ہے اور ان کے زاویئے سے معلوم ہوتا ہے سب ٹھیک ہیں۔ حالیہ سیلابی بارشوں سے مثارہ اظلاع میں بارکھان، قلات، زوب، لورالائی، خضدار، زیارت، آواران، نصیرآباد، پنجگور، اورماڑہ، گوادر، کیچ، پسنی شامل ہیں۔ حکومت بلوچستان اگر خواب خرگوش کی نیند سے بیدار ہو تو زرا ان کے حال پوچھنے اور امداد کی زحمت کرے۔ کہیں متاثرین بے گھر ہوچکے ہیں کہی گرتی دیوار و گھر کی زد میں آکر جانبحق ہوچکے ہیں جنہیں فوری امداد کی اشد ضرورت ہے۔ چونکہ محکمہ موسمیات ان علاقوں میں مزید بارشوں کی پیشن گوئی کرچکی ہے۔ پہلے سے ہی متاثرین کے سروں سے گھر کا چھت چھن چکا ہے دوسری جانب ندیوں کی طرف سے آنے والے سیلابی پانی سے بھی انہیں خطرہ لاحق ہیں۔ حکومت بلوچستان کو متاثرہ علاقوں میں ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
ن لیگ کے انتقامی کاروائیوں کا موسم بھی آچکا ہے۔ معمول کے مطابق ان کاروائیوں صحافیوں کو سرِفہرست رکھاگیا ہے۔ ایاز امیر پر حملہ انکے تقریر کا خمیازہ ہوسکتا ہے لیکن عمران ریاض اور دیگر کہیں جو مبینہ آڈیو کی طرح ابھی تک متوقع ہیں یہ کوئی حادثہ نہیں بلکہ انتقامی کاروائیاں ہیں۔ پاکستان کی ہر حکومت کو آزادی اظہار رائے پر مسلہ رہا ہے پی ٹی آئی کے اقتدار آتے ہی انہوں نے صحافیوں کے ساتھ کے ساتھ یہی رویہ اپنایا تھا جو ابھی ن لیگ نے اپنایا ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ ن لیگ نے اپنے آپکو جمہوری پارٹی گرداننے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑ رکھی ہے اگر یہی کچھ کرنا ہے تو آپکے جمہوری دعوے ملیامیٹ ہوجائیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں