کاروبارکھلتے ہی بازاروں میں رش، ڈاکٹرز پریشان
ملک میں لاک ڈاؤن نرم ہونے کے بعد بازار کھل گئے جس کے بعد شہریوں کی بڑی تعداد نے بازاروں کارخ کرلیا اور عید کی شاپنگ شروع کردی‘بازار کھلنے کے بعد ایس او پیز کی دھجیاں اڑادی گئیں تفصیلات کے مطابق کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں لاک ڈاؤن نرم کاروبار کی دوبارہ اجازت ملنے کے بعد دکانیں کھلی گئیں لوگوں نے بڑی تعداد میں بازاروں کارخ کیا اور عید کی شاپنگ شروع کردی ذرائع نے بتایا کہ ایس او پیز کی خلاف ورزی پر بلوچستان حکومت اور عسکری حکام نے شدیدبرہمی کا اظہار کیا اور تاجرنمائندوں سے رابطہ کرکے ایس او پیز پر عملدرآمد یقینی بنانے کی ہدایت کی بلوچستان حکومت کی اتحادی جماعت اور تاجروں سے مذاکرات کرنے والی کمیٹی کے رکن اصغراچکزئی نے بتایا عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر وپارلیمانی لیڈر اصغر خان اچکزئی نے کہا ہے کہ عارضی سمارٹ لاک ڈاؤن سے کورونا وائرس میں خدانخواستہ تیزی آئی تو کرفیو کی حد تک جاسکتے ہیں ملک بھر سمیت بلوچستان کے ڈاکٹروں کو سلام پیش کرتاہوں اس وقت ڈاکٹرز عالمی وباء کیخلاف فرنٹ لائن کا کردار ادا کررہے ہیں اس وقت پوری دنیا سمیت خصوصاً پاکستان کورونا وائرس کے لپیٹ میں ہے عوام سے اپیل ہے کہ احتیاطی تدابیر اختیار کریں انہوں نے کہا ہے کہ پوری دنیا کوروناوائرس کے لپیٹ میں ہیں خصوصاً پاکستان بلوچستان بھی ہیں یہ عالمی وباء جان لیوا ہے حکومت بلوچستان کو دو مشکلات کا سامنا ہے ایک طرف وباء سے اموات،بیماری،ہسپتالوں میں مریضوں کے بڑھتے ہوئے افراد دوسری جانب مشکل یہ ہے کہ ہمارے وہ غریب طبقہ جن کا گزربسر روزانہ کی بنیاد پر مزدوری کرنے والے افراد ہیں حکومت بلوچستان نے 14سے 15گھنٹے تک کاروبار کرنے کی اجازت دی ہے اور ایس او پیز کو بالائے طاق رکھنے کا معاہدہ کر لیا ہے ہر دکاندار لازمی ماسک،سینیٹائزر اور 4افراد سے زیادہ دکان میں رشن نہیں ہوگا اور 12سال سے کم بچوں کو دکان میں اجازت نہیں ہوگا اور فٹ پاتھوں پر کاروبار اور رش نہیں ہوگا حکومت تاجران کے درمیان معاہدہ ہوگیا ہے اور اس کے پابند تاجران ہونگے ملک بھر سمیت بلوچستان کے ڈاکٹروں کو سلام پیش کرتاہوں اس وقت کورونا وائرس کیخلاف فرنٹ لائن میں کردارادا کررہے ہیں ڈاکٹرز کی کرفیو کی تجویز پرکوئی شک نہیں ہم نے عارضی طور پر فیصلے کئے ہیں کروڑوں افراد کا پریشر تھا کہ عید کیلئے تاجروں نے خریداری کی ہے جس میں خوراک سمیت دیگر بنیادی اشیاء شامل ہیں اور خراب ہونے کا خدشہ ہے جس سے ہمارے تاجروں کا اربوں روپے کا نقصان کا اندیشہ ہے اسمارٹ لاک ڈاؤن سے کورونا وائرس پھیلاؤ میں خدانخواستہ تیزی آئی تو کرفیو کی حد تک جانے کیلئے تیار ہیں۔ملک کے بیشتر علاقوں میں ہفتہ سے کاروبار شروع ہوگیا اور چھوٹی دکانیں کھل گئیں تاہم کراچی میں کاروبار بدستور بند رہا۔وزیراعظم عمران خان کی جانب سے کورونا وائرس کے باعث 45 روز سے نافذ لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد ہفتہ سے مختلف علاقوں میں کاروبار زندگی بحال ہونا شروع ہوگیا تاہم پبلک ٹرانسپورٹ بند رہی جس کے باعث لوگوں کو آمد و رفت میں مشکلات کا سامنا رہا۔دن کے آغاز پر بازار اور دکانیں کھل گئیں تاہم بڑے شاپنگ مالز، بڑی مارکیٹیں اور پلازے بند رہے۔ تمام کاروبار فجر سے شام 5 بجے تک کھولے جائیں گے،نادرا دفاتر سمیت ضروری خدمات کے ادارے بھی کھلے ہیں اور شاہراہوں پر ٹریفک میں بھی اضافہ ہوگیا۔انتظامیہ دکانوں اور مارکیٹوں میں ایس او پیز پر عملدرآمد کے لیے پر عزم ہے جبکہ کاروباری مراکز میں کورونا سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر اختیار کرنے میں شہریوں کا ملا جلا ردعمل سامنے آیا، اہم شاہراہوں پر پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے جوان تعینات رہے اور گشت بھی جاری رہا۔ادھرتاجروں کی جانب سے پیر سے بازار کھولنے کے موقف پر ڈٹ جانے کے سبب سندھ حکومت پیر سے بازار کھولنے پر راضی ہوگئی اور چھوٹے بازاروں کی فہرست طلب کرلی تاہم بڑی مارکیٹس اور شاپنگ سینٹرز کھولے جانے کا عمل وفاق کی اجازت سے مشروط کردیا۔لاہور‘اسلام آباد میں بھی بازار کھلنے کے بعد رش دیکھاگیا خاص کر سبزی اور فروٹ منڈی میں۔ بلوچ ڈاکٹرز فورم نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا صوبے میں تیزی سے پھیل رہی ہے لیکن حکومت وقت اپنی ناکام پالیسیوں کے باوجود پراطمینان نظر آ رہی ہے جس کا واضع ثبوت لاک ڈاون میں نرمی کا اعلان کرنا ہے.اگر اس وبا کے پھیلاو کو روکنا ہے تو لاک ڈاون کو مذید سخت کرکے عوام کو گھروں میں رہنے کے لیے پابند بنایا جاتا لیکن عوام اور حکومت دونوں اپنے فرائض سے غافل نظر آ رہے ہیں.حکومت وقت نہ صرف اس وبا کو روکنے میں ناکام دکھائی دے رہی ہے بلکہ عوام کو اس وبا سے بچنے کے لئے آگاہی مہیا کرنے میں بھی ناکام رہی ہے اور آگاہی کی کمی ہی عوام کو پابندی کے باوجود گھروں سے نکلنے کا سبب بن رہی ہے. کرونا وائرس کا پھیلاو دوسرے صوبوں کی نسبت بلوچستان میں سب سے زیادہ ہے.لیکن ناکافی اسکریننگ کی وجہ سے مریضوں کی اصل تعداد کا پتہ نہیں چل پا رہا.اگر یہی صورتحال رہی تو وسائل اتنے کم ہو جائیں گے کہ صحت کا پورا نظام بیٹھ جائے گا.لہذا حکومت وقت ہوش کے ناخن لے اور لاک ڈاون پر نرمی کے بجائے مذید سختی کی جائے اور عوام کو گھروں میں رہنے اور احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے کا پابند کیا جائے.چیئرمین ینگ کنسلٹنٹ ایسوسی ایشن پاکستان ڈاکٹراسفند یار نے وزیر اعظم سے اپیل کی ہے کہ لاک ڈاؤن میں نرمی کے فیصلے پر نظر ثانی کی جائے۔چیئرمین ینگ کنسلٹنٹ ایسوسی ایشن پاکستان ڈاکٹراسفند یار نے ویڈیو پیغام میں کہا کہ ملک میں 700سیزائد ہیلتھ پروفیشنلز کورونا سے متاثرہوچکے ہیں اورآئسولیشن وارڈ کے باہر ڈیوٹی کرنے والے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ڈاکٹر اسفند یار نے کہا کہ متاثر بیشتر ہیلتھ پروفیشنلز کو حفاظتی سامان فراہم نہیں کیا گیا،حکومت سے اپیل ہے فرنٹ لائن سولجرز کی حفاظت کے اقدامات کرے اور این 95 ماسک، فیس شیٹ، گلوز، اور کٹس فراہم کی جائیں۔وزیر اعظم سے اپیل ہیکہ لاک ڈاؤن میں نرمی کے فیصلے پر نظر ثانی کی جائے، سرکاری ہسپتالوں میں سب سے اہم فیصلہ او پی ڈیز کھولنے کا ہے، ایک دم او پی ڈیز کھولنے سے رش اور کیسوں میں اضافے کاامکان ہے۔ڈاکٹراسفندیار نے کہا کہ بدقسمتی سے ملکی نظام صحت کسی بڑے امتحان کا متحمل نہیں ہو سکتا، پاکستانی ہیلتھ اسٹرکچر یورپ اور امریکا کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔