لاوارث بلوچستان

تحریر:نصیر بلوچ

عام فکری مغالطہ ہے کہ تاریخ اپنے آپکو دہراتی ہے۔ دنیاکے نامور مورخین و فلاسفروں کا اس بات پر اختلاف رائے رکھتے ہیں۔ لیکن یہ بات کافی حد تک درست ثابت ہوئی ہے۔ بلوچستان کا حال تو سو فیصد تاریخ کی عکس کشی کرتا ہے۔ تاریخ کے اورق پلٹئے آپکو بلوچستان میں برطانوی سامراج کی جو طرزِ حکومت رائج ملے گی وہ بلوچستان میں آج بھی اسی طرز کی حکومتی رائج ہے۔ میر محمود خان "خان آف قلات” کے دور میں قلات کے قریب و جوار میں صرف ایک پرائمری اسکول تھی اور وہ بھی غیرسنجیدہ استاتذہ کے رحم و کرم پر تھا۔ تعلیم کے ساتھ اس کھلواڑ کا وجہ برطانوی سامراج یہ بتاتے ہیں کہ جب تعلیم عام ہوگی تو لوگوں میں سیاسی شعور بیدار ہوگا اور وہ سیاسی بغاوت پر اتر آئیں گے اور وہ قطعی ایسا نہیں چاہتے تھے۔ سرداروں کو بلوچستان کی انگریزی کی طرف سے چھوٹ دی رکھی تھی۔ وہ مظلوم اقوام پر ظلم کے پھاڑ ڈھاتے رہے۔ اس کے برعکس کے برطانوی حکومت ان کو تنبیہ کرکے ظلم سے روکتی بلکہ انہوں نے مزید سراداروں کی حوصلہ افزائی کی۔ میرمحمود خان برائے نام خانِ قلات مقرر تھا۔ حکمت عملی کے سارے اختیارات بلوچستان کی انگریزی سامراج کے ہاتھوں میں تھی۔ بغور دیکھا جائے تو بلوچستان کی تاریخ میں ایک بار پھر ظلم کی اندھیری رات چھائی ہوئی ہے۔ لوگ سڑکوں پر ہیں پرامن مظاہرے کررہے ہیں لیکن حکومت جس غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کررہی ہے اسکی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ عبدالقدوس بزنجو کے پاس اختیار نہیں وہ خان میر محمود خان کی طرح برائے نام وزیراعلی بلوچستان ہیں۔
مون سون بارشیں جب موسلادھار بارشوں کا شکل اختیار کرگئے تو پہلے سے ہی کچے کی گھر گرنے کو تھے۔ بچی کْچی کسر موسلادھار بارشوں نے آتے ہی پورا کردی۔ بلوچستان میں اکثر گھر کچے کے بنے ہوئے ہیں اس لئے ان میں مسلسل بارش برداشت کرنے کی سکت نہیں ہوتی اور دوسرا ہیکہ اس سیلابی بارشوں سے جہاں کچے کے گھر زیرِ آب آئے ہیں وہی سیلابی ریلوں سے پکے کے گھر بھی گرچکے ہیں۔ بارشوں سے اموات کی تعداد 126 کے لگ بھگ ہیں کہی لاشیں ابھی تک زیرِ خاک ہیں۔ نوشکی اور قلعہ سیف اللہ و دیگر علاقوں سے لوگ غائب ہیں میرے منہ میں خاک ایسا ممکن ہے وہ سیلابی ریلوں میں بہہ گئے ہیں جن کی لاشیں ابھی تک نہیں مل سکے ہیں۔ سیلابی بارشوں سے اکثر اظلاع کا زمینی و ٹیلی فونک رابطہ منقطع ہے۔ قدرتی نقصانات کا ازالہ کرنا ٹوٹی ہڈھی کو دوبارہ جوڑنے جیسا ہے وفاقی حکومت سے توقع ہیکہ وہ نقاصات کے بھرپائی نہ صحیح کچھ امداد کرے گی۔ لاوارث بلوچستان بارشوں اور سیلابی ریلوں سے ڈوب رہا ہے لیکن بلوچستان حکومت کو کچھ پڑی ہی نہیں جیسے کہ وہ اس سارے صورتحال سے بے خبر ہیں۔ نوشکی، آواران، قلعہ سیف اللہ سمیت دیگر کہی اظلاع میں خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہے لیکن مجال ہیکہ حکومت بلوچستان انکے حال پرسی تک گئی ہو۔ پل ٹوٹ چکے ہیں، غیر معیاری مواد سے تعمر شدہ ٹیمز کو پھانڈا پھوٹ چکا ہے لیکن مجال ہے کہ کوئی زمہداراں سے پوچھے۔ لاوارث بلوچستان کے ڈمی وزیراعلی اپنی ٹیم سمیت خوبِ گرخوش کی نیند سورہی ہے شاہد اس لئے ابھی تک ایک بیان دینے تک کی زحمت نہیں کرچکے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں