حال بد حال سہی کل تو روش ہوسکتا ہے مئی 11, 2020مئی 11, 2020 0 تبصرے راحت ملکآج 11 مئی کو قومی اسمبلی کا. مخصوص و محدود اجلاس منعقد ھوگا۔تخصیص کا تعلق زیر ٍ بحث آنے والے موضوع سے ہے جبکہ تحدید کا تعین اس کمیٹی نے کیا ہے جس نے اتفاق رائے سے کارونا کے علاوہ کسی بھی دوسرے موضوع پر بحث کرنے یا سوال اٹھانے پر حد نافذ کردی ہے۔” قومی اسمبلی کا اجلاس کورم اور آئین ” کے عنوان سے اپنے پچھلے کالم میں تفصیل سے لکھ چکا ہوں۔ اجلاس سے قبل ہی مرکزی حکومت نے کرونا بحران سے جڑے مسائل جن میں لاک ڈاؤن بنیادی اہمیت رکھتا ہے میں اتنی نرمی پیدا کردی ہے کہ اب عملاً لاک ڈاؤن خاک نشین ہو چکا پہلے بھی لاک ڈاؤن رسمی سا تھا لیکن اس نے کرونا کا پھیلاؤ روکنے میں معاون کردار ادا کیا ہے. لوگوں کیروائتی نفسیاتی لاپرواہی جو سماجی ثقافتی رویّوں کا حصہ بن چکی ہے لاک ڈاؤن پر اس کی روح و. ضروری تقاضوں کے مطابق عمل نہیں ہونے دیا تب بھی اس کے افادی اثرات مسلنہ ہیں چنانچہ وزیراعظم کو کہنا پڑا کہ اگر عوام نے. لاک ڈاؤن میں نرمی کی شرائط پوری نہ کیں تو پھر. نقصان کے ذمہ دار بھی وہی ہونگے البتہ حکومت یوٹرن لے کر سخت لاک ڈاؤن یا کرفیو نافذ کر سکتی ہے وزیراعظم کو اس کا بھی احساس ہے کہ کرونا کا مقابلہ سماجی فاصلے کے علاوہ ممکن نہیں نیز وہ یہ بھی سمجھتے ہیں اور درست طور سمجھتے ہیں پاکستان کے عوام غفلت شعار ہیں جو. سرکاری اپیلوں پر کان دھرنے والے نہیں ۔ایسا کیوں ہے؟ یہ سوال بہت اھم ہے مگر سردست اسے ملتوی رکھتے ہینبنیادی طور پر اگر حکومت ملکی ریاستی معاملات یا کاروبار ٍ ممکلت کو پارلیمانی ضوابط و آئینی منشا کے تحت چلا رھی ہوتی تو لازمی طور پر وہ لاک ڈاؤن بارے حمتی فیصلے قومی اسمبلی کے اجلاس تک التوا میں رکھتی کہ مذکورہ فورم کا اجلاس تین دن کے بعد 11 مئی کو ہونے والا تھا۔ جمعرات کو یویے فیصلے جن کو اتفاق رائے کا لبادہ پہنایا گیا. انہیں اگر سرکاری تجاویز کے طور پر قومی اسمبلی کے اجلاس میں منظوری کے لیے پیش کیا جاتا تو۔ جو بھی آخری فیصلہ طے پاتا وہ ملک بھر کی سیاسی بصیرت و عوامی تائید کا ترجمان ہوتا۔ کسی طبقے کو اس سے اختلاف و انحراف کی وہ جرات نہ ہوتی جس کا مظاہرہ جمعرات کے فیصلوں کے بعد سامنے آیا یےتاجر برادری. ان فیصلوں سے پوری طرح مطمئن نہیں تو دوسری جانب وباء کے خلاف صف آرا. طبی عملہ ۔ ” جن سے ھمیں پیار ہے ". اور میں تو انہیں تاریخ کے واحد بے تیغ سپاھی مانتا ہوں وہ بھی حکومتی فیصلوں سے پریشان ہیں ۔ نامطمئن اور خوف کا شکار ہیںدریں حالات قومی اسمبلی جا اجلاس ۔ قیادت کے اس فقدان کا ازالہ بحث و تمخیص کے ذریعے اپنے فیصلوں کی صورت کمی کا تاثر پیدا کدتا جس کا اس وقت ملک کو سامنا ہے ۔۔۔۔ قیادت کا فقدان محض ایک جملہ نہیں ۔ نہ اس سے مراد ہے معروضی اعتبار. ریاست بغیر حکومت کے. ۔ اس ناقدانہ جملے کا مفیوم تاریخ کے اوراق میں ان اقوام کے حوالے سے اخذ یوتا ہے جو کسی بحران آفت یا جنگ میں مبتلا ہوئیں. مگر بروقت درست مناسب صحیح سمت میں قومی مفاد کے مطابق فیصلے کرنے سے عاجز رہئں. یا تاخر کا شکار ہوئیں ۔ چنانچہ تاریخ ان اقوام کو بحرانی عرصہ میں قیادت کے فقدان کے حوالے سے یاد کرتا ہے۔جس کی بے شمار مثالیں تاریخ کے اوراق پر محفوظ ہیں 1965 کی پاک بھارت جنگ کے ابتدائی ایام میں ۔۔۔جیسا کہ دفاعی ماہرین بیان کرتے ہیں ۔پاک افواج اکھنور کے پل پر قابض ہونے والی تھیں کہ فوج کے مقامی کمانڈر کا تبادلہ ہوگیا نئے کمانڈر نے محاذ پر پہنچ کر قیادت سنبھالنے میں تین دن کی تاخیر کردی اس دوران بھارتی افواج نے اپنی کمزوریوں پر فوری کمک بھیج کر قابو پالیا یوں اکھنور کے پل کی جانب پاک فوج کی پیشقدمی پسپائی میں بدل گئی. ماہرین کہتے ہیں کہ. اگر اکھنور کے. پل پر قبضہ ہوجاتا تو بھارت کا مقبوضہ کشمیر سے زمینی رابطہ کٹ جاتا. اس کے کیا نتائج نکلتے؟؟؟ اھل عساکر بہتر جانتے ہیں ۔کہ اس بات کی صداقت سے وہی بہتر طور پر آگاہ ہیں ۔۔بسرعت کے ساتھ بہتر اور ولولہ انگیز قیادت کی فیصلہ سازی کی ایک مثال دوسری عالمی جنگ کے دوران چرچل کی پیش کی جاتی ہے جس نے جرمن افواج کی فتوحات سے برطانیہ کو بچایا۔ یہ قیادت کی موجودگی اور بروقت فیصد کی مثال ہے۔کرونا وباء عالمی بحران ہے صحت کے ساتھ اس نے دنیا بھر کی معاشی حرکیات سماجی تعلقات اور رشتوں میں بیگابگی خلفشار افتراق اور. نئے سوالات پیدا کیے ہیں ۔سوموار کو ملک کی سماجی تجارتی سرگرمی کیسی ہوگی؟ قومی اسمبلی کس نتیجے پر پہنچے گی؟ان سے ملک میں قومی قیادت کی موجودگی یا عدم موجودگی ۔ نیز. ان سانیت اور تجارت میں ترجیحات کی ترتیب کا پتہ چکے گا۔بلوچستان میں کرونا کے متعلق خدشات کا اظہار محکمہ صحت صراحت سے کر چکا ہے۔ مریض علاج کے لیےگھروں.نکل کر کہاں جائیں؟ کسی کو درست معلومات میسر نہیں ۔بدقسمتی سے ہسپتالوں میں طبی عملے کی غیر حاضری کے واقعات بھی علم میں آ. رہے ہیں ۔ شیخ زید ہسپتال جہاں وینٹیلیشن کا سامان آلات بیڈز تو دستیاب ہیں لیکن عملہ ندارد۔ کیا جناب جام کمال اس کا نوٹس لیں گے۔!!!ا ن حالات میں اگر ان خدشات کو بھی ذھن نشین رکھا جائے کہ اگر صوبے میں جاری رسمی لاک ڈاؤن میں نرمی آئی تو ایک کروڑ تیس لاکھ کی آبادی والے صوبے میں ستمبر میں 95 لاکھ مریض ہونگے!!!اس وقت تک دنیا میں جہاں صحت عامہ کا ڈھانچہ مضبوط ہے کرونا سے اموات کی شرح دو فیصد ہے. 95 لاکھ مریض بلوچستان میں سامبے آیے تو. خدانخواستہ 19000 افراد اس وباء کے ہاتھوں لقمہ اجل بن سکتے ہیں ۔ بدترین پہلو ہہ ہے کہ کرونا کی وج . سے جاں بحق ہونے والوں کی تجہیز و تدفین مشکل و دل دھلا دینے والا عمل ہے۔ اس طرح کی بھیانک صورت میں علاج معالجہ تو بہت پیچھے رہ جائے گا سوال یہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں میتوں کے لیے. معیاری تابوت کہاں سے میسر ہونگے؟؟؟قومی اسمبلی اجتماعی شعور و سیاسی بصیرت کے ساتھ درپیش بحراں کی تمام تر جزیات ۔ وباء اور. غربت کے امور کو مدنظر رکھتے ہوئے. موثر حکمت عملیکی تفصیل پر مبنی پالیسی قرار داد منظور کرنے۔ جو وباء کے امکانی پھیلاو کو روکنے ۔ اور. کمزور معاشی حثیت کے حامل افراد کی معاشی کفالت ممکن بنا یے 12000 ہزار روپے سے اگر کسی کنبے کی تین ماہ تک کفالت ہو سکتی ہے تو . حکمران بھی اپنی تنخواہوں میں کمی لائیں یا اس بقراط کا نام بتائیں جس نے یہ منصوبہ ترتیب دیا ہے اور ستم ظریفی کے ساتھ اس کو احساس کا دانشمند انہ نام دیا ہےکرونا. کب ختم ہوگا. کوئی نہیں جانتا. البتہ کہا جارہا ہے کہ اس کی ویکسین کی ایجاد کے بعد مرض پر قابو پانا ممکن ھوگا. تاھم. اسی کے ساتھ سائنس دان بتا رہے ہیں کہ اب انسان کو کرونا کے ساتھ جینا. سیکھنا ہے اپنے جسمانی مدافعتی نظام کو ارتقاء کے اصول کے مطابق ۔ اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کر کے۔۔۔کرونا کے بعد کی دنیا. یقینا آج سے مختلف ہوگی۔اس وباء نے ضمنی طور پر جن سوالات کو جنم دیا ہے. وہ۔ معاشی نطام کی ترجیحات میں بدلاؤ لانے کے متقاضی ہیں ۔ غربت اور کمزرو نظام صحت. کی خامیوں کو کرونا نے نمایاں کیا ہے. جو ماضی کی ناقص سوچ اور پالیسوں کا ناگزیر نتیجہ ہیں ۔ ھم حال کو بدلنے سے تو قاصر ہیں ماضی ہماری دسترس سے باہر. ہے لیکن ماضی کی کوتاہیوں اور حال کے تجربات کو ملحوظ رکھتے ہوئے ھم مستقبل کو بہتر بنا سکتے ہیں کرہ ارض کو انسانوں کے رھنے کے لیے ایک آسودہ. مکان گھر میں بدلا جا سکتا ہے۔کل کیسا ہونا چاھیے؟اس پر آج ہی عمیق نگاهی سے غور کرنے کی ضرورت ہے. کرونا. اس کے لیے آسولیشن کے ایام میں. بہتر غؤر و فکر و لائح عمل تشکیل دینے کے مواقع بھی مہیا کر سکتا ہے Share this:Click to share on Twitter (Opens in new window)Click to share on Facebook (Opens in new window)Click to share on WhatsApp (Opens in new window)Click to print (Opens in new window)