ہم وہیں ہیں

تحریر: شہباز بلوچ
یہ پاکستان کا 75 واں سال ہے 75 سال میں ہم کیی نشیب و فراز بلکہ میرے نزدیک صرف نشیبی صورتحال سے گزرے، 75 برسوں میں ہم ہر سال لفظ نشیبی سنتے ہیں لیکن شازو نادر ہی لفظ فراز سنائی دیتا ہے، بارشوں میں ہمارا اس لفظ نشیب سے کافی بار ملاقات ہوہی جاتی ہے، بارشوں میں ہمارے نشیبی علاقے ڈوب جاتے ہیں، رہی سہی کسر سیلاب پوری کردیتا ہے، ملک میں 75 برسوں میں ہر دو تین سال بعد سیلاب سب کچھ ملیا میٹ کردیتا ہے مگر سیلاب تھم جانے کے بعد ہم اس مسئلے کے حل کیلئے قومی سطح پر سوچ بچار نہیں کرتے۔
صوبہ بلوچستان جس کا سب سے بڑا مسئلہ پانی ہے، یہ پانی یا تو نہیں ہوتا یا اسقدر ہوتا ہے کہ سب کچھ بہا لے جاتا ہے، یہاں کے پہاڑ خشک، پانی کی ایک بالٹی کا حصول کسی مشن سے کم نہیں ہوتا۔ یہ مسئلہ آج کا نہیں الیگزینڈر جب بلوچستان میں داخل ہوا تو بجائے لوگوں کو مارنے ان سے لڑنے کے وہ پیاس سے لڑنے لگا، اس کی فوج پانی کی بوند بوند کیلئے سرگرداں رہی، یہ مسئلہ صدیوں پرانا ہے، افسوس کہ یہ مسئلہ آج بھی جوں کا توں ہے۔
میری یہ تحریر بیک وقت دو مسائل کا احاطہ کرتا ہے، سال بھر پانی کی کمی اور مون سون میں پانی کی زیادتی۔
بلوچستان کا علاقہ بھاگ جو سال بھر پیاسہ رہتا ہے اس علاقے میں پانی کی فراہمی کے لیے حکومت تاحال سنجیدہ نہیں، سپریم کورٹ نے بھی سوموٹو نوٹسز لیے، سرکاری اہلکاروں نے کاغذ کالے کردیے، مجال ہے کہ ایک گلاس پانی عوام کو ملا ہو۔ یہاں کے لوگ بڑے باشعور ہیں، لوگوں نے واٹرسپلائی اسکیم کے لیے باقاعدہ مہم چلائی، اسلام آباد تک بازگشت چلی گئی، بھاگ سے کوئٹہ تک پیدل مارچ بھی کیا گیا۔ ٹی وی چینلز پر پروگرامز ان باہمت نوجوانوں کی داد رسی کے لیے ہوئے لیکن جس طرح عدالت عالیہ کو کاغذ پر لکیریں پھیر کر گمراہ کرکے معاملے کو رفع دفع کیا گیا۔ اسی طرح صوبائی حکومت نے بھی ان مظاہرین کو دلاسے دیکر گھروں کو روانہ کرکے معاملہ ٹال دیا، بھاگ کے مکین آج بھی جوہڑوں سے مضر صحت پانی پینے پر مجبور ہیں۔
یونین کونسل مَل کے درجنوں دیہات بھی اسی صورتحال کا سامنا کررہے ہیں، یہاں آج بھی کنویں کھود کر پانی کے حصول کو یقینی بنایا جاتا ہے، یہاں پانی کی فراہمی کے لیے چند ایک منصوبے بنے مگر یہ منصوبے جسقدر شوشہ کا سبب بنے اس قدر لوگوں کی تسکین کا باعث نہ بن سکے۔
سال بھر پیاسہ رہنے کے بعد ان علاقوں میں پانی کی خوب فراوانی ہے مگر یہ کیا؟ یہ پانی تو ان کے لیے رحمت کے بجائے زحمت بن گیا۔ سیلاب نے ہر سال کی طرح اس سال بھی تباہی مچادی، مَل تا بھاگ ہر شے بھیگ چکی، مویشی بہہ گئے، دھان ڈوب کر بے کار ہوگئی، فصلیں زیر آب آگئیں، مکانات اور گھر منہدم ہوگئے، دیواریں نہ رہیں، سال بھر پانی کی دعائیں مانگنے والے اب پانی اترجانے کی صدائیں لگا رہے ہیں۔
یہ سفر 75 سال سے جاری ہے، اب یہ معمول بن چکا، لوگ عادی ہوچکے، لوگ اب بولنا نہیں چاہتے، انہیں پتہ ہے 75 سال میں کوئی نہ سن پایا یا سن کر بھی کچھ نہ کرپایا اب ان کے الفاظ کس طرح ایوانوں میں بیٹھے لوگوں کے ضمیر کو جھنجھوڑ سکتے ہیں۔ سال بھر روپے روپے جوڑتے رہے، پھر سیلاب آیا ساری جمع پونجی بہا کے لے گیا، اب اگلے سیلاب تک روپیہ جوڑ کر سائبان بنانے کا مشن شروع ہوگا۔ ان سیلاب زدگان کی بحالی کے نام پر ان کے لیے سائبان خوراک کے نام پر ملنے والے خطیر کچھ طبقوں کو نوازنے کے کام آئے گی ماضی کی طرح اس سیلاب میں بھی کچھ طبقے اپنے کل سنوارنے کی مشن کو عمل جامہ پہنائیں گے۔
حالیہ سیلاب سے سبی کے کئی علاقے خاصے متاثر ہوئے، تحصیل لہڑی کا علاقہ تریہڑ سب سے زیادہ متاثر ہوا، دو سو سے زائد گھر منہدم ہوئے، فصلیں اناج برقی آلات ٹیوب ویلز تباہ ہوئے، ان علاقوں کا زمینی رابطہ تاحال شہر سے کٹا ہوا ہے، راشن کے حصول کے لیے لوگ ندی پار کرکے آتے ہیں، انتظامیہ اس جگہ تک تاحال نہ پہنچ سکی، بحالی تو درکنار، تاحال سروے بھی شروع نہ کیا جاسکا، ہر سال بحالی کے نام پر سروے کی بازگشت سنائی دیتی مگر کبھی نہیں دیکھا کہ کوئی گھر حکومت نے کسی سیلاب یا دیگر آفت زدہ خاندان کو بناکر دیا ہو، اگر لوگوں کو گھر بناکر نہیں دیے جارہے تو بحالی کا ڈھنڈورا کیوں پیٹا جاتا ہے؟