محرومیانِ آواران

تحریر: عبداللہ بلوچ
آواران رقبے کے لحاظ سے بلوچستان کے بڑے اضلاع میں شمار کیا جاتا ہے، ان کے باسیوں کا روزگار زراعت ہے، کچھ لوگ تاہم ایرنی تیل کا بھی کام کرتے ہیں اور کچھ ایسے خاندان بھی ہیں جن کا گزر بسر ملک کے دوسرے حصوں کے باشندوں کی طرح دبئی میں مزدوری کرنے سے ہوتا ہے۔ اس مختصر معاشی پس منظر بیان کرنے کے فوراً بعد اب ہم آواران کی لاتعداد محرومیوں کی نشاندہی اور تذکرہ کرتے ہیں۔ آواران کی سر فہرست محرومیوں میں ایک انکی نا اہل انتظامیہ کی لمبی داستان ہے جب کسی علاقے کی انتظامیہ نا اہل ہو تو نتیجتاً بہت سے گمبھیر مسائل جنم لیتے ہیں، حالیہ بارشوں کی وجہ سے کئی لوگوں کو نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کسی کی جان کا نقصان ہوا ہے تو کسی کی گھر کو، اسی طرح کسی کو مال میوشیون کو نقصان ہوا ہے تو کسی کی کھیت اور تیار فصلوں کو۔ یہ سب نقصانات اسی نااہل انتظامیہ کی سستی اور وقت پر اقدام نہ اٹھانے کی وجس سے پیش آئے۔ انتظامیہ کی ایک اور بڑی کمزوری یہ بھی ہے کہ گزشتہ کچھ دنوں سے بہت سے لوگ سوشل میڈیا پر احساس کفالت پروگرام کے تحت ملنے والی رقم کی کٹوتی کیخلاف آواز اٹھا رہے ہیں اور انتظامیہ کو ان کیخلاف کارروائی کی التجا کررہے ہیں لیکن انتظامیہ ابھی تک ٹس سے مس نہیں ہوئی ہے۔ یہ رقم حالیہ طوفانی سیلاب کے بعد عمر رسیدہ مستحق عورتوں کو وزیراعظم پاکستان کی طرف سے دیا جارہا ہے۔
یہ نہیں بلکہ آواران اور کئی محرومیوں سے اس وقت دوچار ہے، تاہم ہر محرومی کا ذمہ دار یہی انتظامیہ رہی ہے۔ بند اسکولوں سے لیکر گھوسٹ اساتذہ تک سب انتظامیہ کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہیں، جب تک انتظامیہ خود کو متحرک، منظم اور مستحکم نہیں کریگا یہ محرومیاں یوں ہی بادلوں کی طرح آواران والوں کے سروں پر منڈلاتی رہیں گے۔
آج کے اس دور میں وہی آواران تعلیم سے دور ہے تو وہاں ترقی کی راہ میں اپنوں سے بہت پیچھے ہے۔ آج بھی آواران تعلیم کے لحاظ سے رینکنگ میں ٹاپ ٹین اضلاع میں جگہ بنانے سے کامیاب نہیں ہوسکا، اسکی اول و آخر وجہ ایک اس کے بند اسکول ہیں، دوئم ان کے گھوسٹ اساتذہ کرام ہیں، جہان تک ترقی کی بات ہے تو آواران کو اس کے متصل اضلاع تربت، پنجگور، خضدار اور لسبیلہ سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔ تربت اور پنجگور تو ماشاء اللہ نیشنل لیول تعلیمی رینکنگ میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوچکے ہیں اور آواران سے دس گناہ ترقی یافتہ اور خوشحال ہیں۔
آواران کی محرومیاں اتنی زیادہ ہیں کہ اگر ان پر ایک کتاب لکھی بھی جائے تو کم نہیں۔ آواران میں بجلی ہے نہ گیس، سڑکیں اور ہسپتال، سوائے آواران سٹی کہ جہاں کچھ زنگ شدہ جنریٹر بجلی فراہم کرتے ہیں، باقی گاؤں آج بھی اس بجلی جیسے نام سے ناآشنا ہیں، اسی طرح کی ایک کہانی گیس کی ہے۔ سوئی گیس 1952ء کو بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی سے نکلتی ہے اور 1955ء تک کراچی اور ملک کے دوسرے بڑے شہروں تک پہنچ سکتی ہے لیکن آواران تک نہیں، آج بھی آواران کے لوگ لکڑی اور مزری کی مدد سے کھانا پکاتے اور سالن وغیرہ بناتے ہیں. لیکن شومئی قسمت سیکورٹی خدشات کی وجہ سے آج کل لوگوں کو لکڑی کاٹنے کیلئے جنگلوں کا رْخ کرنے نہیں دیا جارہا ہے جو کہ بہت بڑی نا انصافی ہے۔ سڑکیں نہ ہونا بھی بہت بڑا درد سر بن چکا ہے۔ آواران ٹو بیلہ جو لگ بھگ 150 کلومیٹر کا فاصلہ ہے گھنٹوں کے سفر کے بعد طے کیا جاتا ہے.، اسی وجہ سے ایمرجنسی صورتحال میں آواران سے کراچی تک وقت پر لینڈ کرنا نہایت مشکل ہے، روڈ نہ ہونے کی وجہ سے کئی حاملہ خواتین دورانِ سفر انتقال کرجاتی ہیں جو کہ علاقے والوں کیلئے بہت بڑی پریشانی کا سبب ہے۔ آواران میں آج تک ایک سرکاری ہسپتال ہے جہاں کسی قسم کی سہولیات میسر نہیں ہیں، کھبی ڈاکٹر گھوسٹ اساتذہ کی طرح غائب ہیں تو کھبی ہسپتال میں مریض کے علاج کیلئے دوائی دستیاب نہیں ہے۔ آواران کی تین تحصیل ہیں، تمام تحصیل والے اپنے علاج کیلئے اس ایک ہسپتال کا رْخ کرتے ہیں، کھبی کھبی رش لگنے کی وجہ سے دور سے آئے ہوئے بیمار بغیر علاج کے نااْمیدی سے واپس لوٹ جاتے ہیں۔
آواران کو اس وقت ایک چست و چالاک انتظامیہ کی اشد ضرورت ہے جو کسی کی خاطر کئے ہوئے بند اسکولوں کو فورًا کھول دے اور ساتھ ساتھ لاپتہ اساتذہ کرام کو ڈھونڈ لے۔ ہسپتال کا دورہ کرکے غیر حاضر ڈاکٹروں اور نرسوں کیخلاف سخت کارروائی کرے۔ اسی طری گیس اور بجلی کا بندوبست کرے، یقیناً کچھ چیزیں ایسی ہیں جو ضلعی انتظامیہ کا ان پر کام کرنا واجب نہیں ہوتا لیکن آواران کے بے یارومددگار عوام کو دیکھ کر ان کو آگے آنا چاہیے، اسی طری آواران کے عوام کو چاہیے کہ خود کو پہچانیں اور اپنے قانونی حق اور فرض کو بھی سمجھ لیں، اگر انتظامیہ کچھ نہیں کررہی تو اس کیخلاف قانونی دائرہ میں رہ کر خوب بولیں اور تنقید کریں، اپنے حق کو جتانے نہ دیں اور حق کی بات پر ڈٹے رہیں یہاں تک کہ مثالی بن جائیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں