"اْجڑتا آواران”

تحریر: سمی مبارک
جنوبی بلوچستان میں واقع 29510 کلومیٹر پر مشتمل” ضلع آواران” رقبے کے لحاظ چاغی اور خضدار کے بعد بلوچستان کا تیسرا بڑا ضلع ہے۔گوکہ اس کی آبادی صرف 121821 نفوس پر مشتمل ہے لیکن یہ اعدار و شمار بھی حکام بالا کی ان خاص مہربانیوں کا نتیجہ ہیجن کے رو سے 19 سالوں میں آواران کی آبادی میں صرف 3648 افراد کا اضافہ ہوا۔ ایسا لگتا ہے 1998ء کے بعد غربت سے تنگ آکر آواران کی نصف آبادی نے "نس بندی” کروائی تھی،کہ پیدا کرکے فاقوں مارنے سے پہلے پیٹ میں ہی مارڈالنا خوب تر است۔
خیر آبادی ایک الگ مسئلہ ہے لیکن موجودہ سیلاب نے ان 1 لاکھ لوگوں کی زندگیوں میں وہ بھگدڑ مچائی ہے کہ لوگ زلزلے کو یاد کرکے آنسو بہاتے ہیں۔ستمبر، 2013ء کو جب آواران میں زلزلہ آیا تھا،تو 90 فیصد سے زیادہ مکانات زمین بوس ہوچکے تھے اور 800/900 کے لگ بھگ لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ بھلے ہی خدا کی مہربانیوں سے موجودہ سیلاب میں زیادہ جانی نقصان تو نہیں ہوا ہے لیکن مالی حوالے سے اس طوفان نے آواران کے لوگوں کو پسماندگی کی اس اتھاہ گہرائی میں دھکیلا ہے جس سے نکلنے میں شایدآواران کو صدیاں نہیں تو کم از کم دہائیاں تو لگ سکتی ہیں۔ 10 سال گزرنے کے بعد بھی آج تک ضلع آواران کے 2013ء میں تباہ ہونے والے مکانات کی دوبارہ تعمیر آج تک نہیں ہوسکی تو کوئی شک نہیں کہ سیلاب کی تباہ کاریوں کے ازالے کا نتیجہ مختلف ہو۔
سوشل میڈیاپر آواران کے سیلاب زدہ علاقوں کی تصاویر شائع نہ ہونے کا مطلب آواران کا سیلاب سے بچنا نہیں، بلکہ وہاں انٹرنیٹ کی عدم دستیابی ہے۔ سڑک نام کی کوچیز تو آواران میں پہلے سے ہی موجود نہیں تھی لیکن ایک کچا راستہ”جس پر 1 گھنٹے کا سفر 5 گھنٹوں میں طے ہوتا تھا” موجود تھا جو حالیہ سیلاب کی وجہ سے ہرجگہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیاہے اور دیہی علاقوں کا زمینی رابطہ آوارن شہر سے کٹ چکا ہے۔
ضلع میں موجود اکثر کچے مکانات یا تو منہدم ہوچکے ہیں یا اتنے خستہ حال ہیں کہ رہائش کے قابل نہیں ہیں۔
آواران کی 80 فیصد آبادی کی آمدنی کا ذریعہ ان کی آبائی زمینیں ہیں،جہاں یہ لوگ گندم، پیاز، خربوز، تربوز اور کپاس وغیرہ کی کاشت کرکے، اپنے اور اپنے بچوں کا پیٹ پال لیتے ہیں۔موجودہ سیلاب کے بعد آواران میں زرعی زمینوں کے بس نشانات رہ گئے ہیں۔بند اور پشتے سیلابی ریلے میں تباہ ہوچکے ہیں۔کئی زمیندار کپاس کی تیار فصل سے ہاتھ دھو کر ماتم کناں ہیں۔
ڈھور ڈنگر بھی سیلاب کی نذر ہوچکے ہیں۔ دہاڑی دار طبقے کے لوگ” جو دن کو مزدوری کرتے اور رات کو دن کا کمایا کھاتے ہیں ” کس مپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔چند دن پہلے سوشل میڈیا کے توسط سے ایک ویڈیو نظر سے گزری،جس میں جناب ضیا لانگو فرمارہے تھے کہ وزیراعلیٰ نے سختی سے تحریری طور پر حکم نامہ جاری کیا ہے کہ بلوچستان کے جتنے عوامی نمائندے ہیں اس مشکل صورتحال میں اپنے اپنے حلقوں میں پہنچ جائیں اور عوام کی دلجوئی کریں۔ وزیراعلیٰ صاحب، آوارن کے لوگ پشتوں سے آپ ہی کے خاندان کو اپنا مائی باپ بنا کر اسمبلی میں بھیجتے چلے آرہے اور یہ دوسری بار ہے کہ آپ شاہی تخت پر براجمان ہیں۔ خدارا آپ بھی چار سال بعد اپنے علاقے کا دورہ کریں، اپنے لوگوں کے بیچ آکر ان کے مسائل سنیں، مبادا کہ "خاک ہوجائیں سب، تم کو خبر ہونے تک” اور ویسے بھی آج کل آہ کو اثر ہونے کے لیے عمر درکار نہیں ہوتی بس ایک سال لگتا ہے۔ بھلے ہی دہلی دور است پر 2023ء قریب است۔