آواران تعلیم کی طرف گامزن

تحریر: شیرخان بلوچ

بلوچستان کا سب سے پسماندہ ترین علاقے، یعنی مشکے، جاہو، گیشکھور، اور آواران، دراصل آواران تیوں(مشکے، جاہو اور گیشکھور) کا ڈسٹرکٹ ہے لیکن آواران ڈسٹرکٹ صرف نام کا ہے، جہاں کہیں بچے اور بچیاں تعلیم سے محروم ہیں، بڑے بڑے ٹھیکیداروں اور نام نہاد قوم پرستوں نے تو پہلے ہی وہاں سے مائیگریشن کی ہیں۔۔ ووٹ کے دوران ہر کوہی اپنی ڈھول کے ساتھ آکر عوام سے بیک مانگنے لگتے ہیں۔۔ رہی بات غریبوں کی وہ تو دن رات ایک روٹھی کے لیے فیکٹریوں، کھیتوں، اور باقی کام کرنے میں نظر آتے ہیں۔۔ وہ ہمیشہ کہتے ہیں کہ ہمارے بچے پڑھنا چاہتے ہیں لیکن ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں کہ ہم اپنے بچوں کو تعلیم دے سکیں، کچھ ہی اسکولز ہیں جو زلزلہ کے بعد صرف نام کے اسکولز رہ چکے ہیں۔ مثلآ کہیں اساتذہ ایسے بھی ہیں جنہیں کسی اور کے پوسٹ پر منتخب کردی ہیں اور کچھ چپراساں بھی پڑھانے لگے ہیں۔۔ اور خود وہاں کے اساتذہ اپنی ہی اسکولوں سے دور جاکر کسی اور پرائیوٹ کاموں میں مصروف ہیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آواران کے نام نہاد سیاسی جماعتوں ہمیشہ عوام کو اپنے پاؤں تلے روندتے نظر آتے ہیں۔۔۔ لیکن یہ پسماندگی زیادہ دیر تک چل نہیں سکتا کیونکہ اب نئے اور مستقبل کے معمار ابھرنے لگے ہیں، وہ اتنی پسماندگی و بدعنوانیوں کے بعد بھی کسی حد تک اپنی فلسفہ و منطق، علم و دانش، شعور و ادب اور سماج کے کیلیے مستقبل کی راہیں ہموار رہے ہیں۔
گورنمنٹ اسکولوں اور انٹر کالجوں سے امید ٹھوٹ کر اب نئے استاتذہ اور شعور دینے والے انسانوں نے جنم لینا شروع کردی ہیں۔ مشکے جس کے بھارے میں میں شروع سے کہا کہ بلوچستان آواران کا وہ تحصیل ہے جہاں ہمارے بچے اکثر پڑھے لکھے نظر آنے لگتے ہیں یہ کسی گورنمنت اور عالمی برادرانہ تعیم و تربیت کی کمال نہیں بلکہ وحید راہی( جو کہ جے وی ٹی ٹیچر اور برائیٹ فیوچر لینگوج اکیڈمی آف آواران کا ڈاریکٹر) اور اکرام صاحب( مشکے بوائز ائیر سیکنڈری اسکول میں ایک استاد اور مشکے انگلیش لینگویج اکیڈمی کا ڈاریکٹر) جیسے عظیم شخصیتوں کی بدولت یہی ہوتا ہے۔ اکرام صاحب سے میرا ملنا جلنا رہا ہے وہ کہتے ہیں کہ ” مشکے کی تعلیم نظام کو صیحیح کرنے کیلیے ضروری ہے ہم اپنے ارگرد کے لوگوں کے ذہین بچوں کو کسی اور شہر میں پڑھانے کے بعد اپنی ہی علاقوں یعنی مشکے کے اردگرد جتنے چھوٹے چھوٹے گاؤں ہیں وہ اسکولز اور اکیڈمیز کول کر لوگوں کو پڑھانے لگیں تو کل ہمارے نوجوانوں میں اتنا شعور تو ضرور ہوگا کہ ہم اپنی قوم و ڈسٹرکٹ کیلیے کیا کر سکیں۔” مزید کہتے ہیں کہ”ان اداروں میں غریب کے بچے پڑھنے آتے ہیں، جہاں انہیں وہی تعلیم نہیں دے رہے جس طرح امیروں اور بڑے بڑے ٹھیکیداروں کے بچے وہ مشکے سے باہر کسی اور شہروں میں پڑ کر یہاں آنے کے بعد وہی کرتے ہیں جو پہلے ںہت سارے نمونے کرتے رہے ہیں۔ اس لیے مشکے میں تعلیمی نظام کا ماحول خراب ہوتا جا رہا ہے۔” میں خود بھی وہاں پڑھ کر باہر کسی یونیورسٹی میں آیا ہوں جہاں مختلف قسم کے نمونے پائے جاتے ہیں کچھ اپنے کورسوں کے کتب تک محدود باقی کچھ علم و دانش اور فلسفہ و ادب کی طرف گامزن ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ شعور وہی لوگ لاتے ہیں جو اپنے اندر کی کھیڑا کو نکال کر اجتماعی مقصد کے لیے مسلسل جدوجہد کرتے ہیں اسی طرح وحید راہی صاحب بچوں کے درمیان ایک عمل و دانش اور بحث و مباحثہ کے ماحول کو بحال کرنے میں نظر آتے ہیں۔ آپ مشکے میں تعلق رکتھے جہاں لوگوں کی سوچ و فکر ہمیشہ قوم کی خوشحالی کیلیے رہا ہے۔ آپ جیسے انسانوں کی جدوجہد کی بدولت آج ہم کچھ لکھنے اور پڑھنے کی قابلیت رکھتے ہیں۔ امید ہے کہ جد وجہد مسلسل جاری و ساری رہے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں