نیا این ایف سی ایوارڈ

انور ساجدی
وفاقی حکومت نے نیشنل فنانس کمیشن یاقومی مالیاتی کمیشن کی جو تشکیل نو کی ہے اس کا مقصد موجودہ ایوارڈ میں صوبوں کے حصے میں کمی لانا ہے کیونکہ وفاق کے موقف کے مطابق تقسیم کا موجودہ طریقہ کار غیرمنصفانہ ہے جس کی وجہ سے وفاق اپنے اخراجات پورے کرنے کے قابل نہیں ہے18ویں ترمیم کے تحت وفاق کے پاس دفاع مواصلات خزانہ اور خارجہ کے محکمے ہیں جبکہ باقی سارے محکمے صوبوں کو منتقل ہوگئے ہیں بظاہر وفاقی حکومت کا سب سے بڑا خرچہ دفاع کا ہے جس کے بعد وفاقی ملازمین کی تنخواہیں دوسری بڑی مد ہیں وسائل کی تقسیم کے موجودہ طریقہ کار پر سب سے بڑا اعتراض ہے کہ دفاعی اخراجات اورقرضوں کی اقساط کی ادائیگی کے بعد وفاق کنگال ہوجاتا ہے بلکہ اگر وہ دفاعی بجٹ میں اضافہ کرنا چاہے یا تنخواہوں میں اضافہ مقصود ہو تو موجودہ وسائل میں وہ ایسا نہیں کرسکتا۔
پنجاب سے تعلق رکھنے والے سابق اسلامی اور موجودہ پنجابی قوم پرست ایڈیٹر مجیب الرحمن شامی نے حال ہی میں اپنے ٹی وی پروگرام میں یہ تجویز پیش کی ہے کہ پہلے دفاعی بجٹ منہا کیا جائے اسکے بعد وسائل وفاق اور صوبوں میں تقسیم کئے جائیں۔اگرچہ انکی تجویز مناسب ہے لیکن کوئی بھی صوبہ خاص طور پر سندھ یہ سوال اٹھاسکتا ہے کہ جس طرح وسائل آبادی کی بنیاد پر تقسیم ہوتے ہیں اسی طرح دفاعی اخراجات بھی آبادی کے تناسب سے رکھے جائیں جیسے کہ بلوچستان کی آبادی6فیصد ہے تو وہ اتنی فیصد رقم ادا کرے۔
ایک اور بات ملکی اور غیر ملکی قرضوں کا ہے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ گزشتہ یا موجودہ حکومت نے جو قرضے لئے ہیں وہ کس کس صوبے کے ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کئے گئے ہیں چنانچہ قرضوں کی اقساط بھی اسی مناسبت سے کاٹی جائیں مثال کے طور پر سی پیک کا منصوبہ ہے جس کی تفصیلات ہر حکومت نے صیغہ راز میں رکھی ہیں آج تک یہ نہیں بتایا گیا کہ اس کا کل حجم کتنا ہے چین نے اس مقصد کیلئے جو قرضے دیئے ہیں ان پر سود کی شرح کیا ہے اگر بلوچستان کا کوئی منصوبہ شامل نہیں ہے تو ازروئے انصاف اس قرضے کی اقساط اس سے نہ کاٹی جائیں سی پیک کا ایک بڑا منصوبہ گوادر پورٹ ہے جو وفاقی منصوبہ ہے اگراس سے آمدنی ہوئی تو وہ ساری کی ساری وفاق لے جائے گی تو سوال یہ ہے کہ اسکے قرضے بلوچستان کیوں ادا کرے۔اس وقت سی پیک کے جو منصوبے چل رہے ہیں وہ بیشتر پنجاب اور اسکے بعد پشتونخوا اور سندھ میں ہیں لہٰذا جس صوبے میں جتنی سرمایہ کاری ہوئی ہے ان سے اسی مناسبت سے قرضوں کی اقساط وصول کی جائیں صوبہ سندھ کے وزیراعلیٰ نے این ایف سی کی تشکیل پر اعتراض اٹھایا ہے ان کا کہنا ہے کہ آئین کی روسے فنانس کے وفاقی وزیر اسکے سربراہ ہوتے ہیں جبکہ حکومت نے فنانس کے مشیر کو سربراہ بنایا ہے جو کہ غلط ہے آئینی اعتبار سے یہ اعتراض درست ہے لہٰذا خزانہ کے محکمہ کے سربراہ کے طور پر وزیراعظم کو خود اسکی سربراہی کرنی چاہئے لیکن لگتا ہے کہ وزیراعظم ایسا نہیں کریں گے کیونکہ وہ تو اپوزیشن کے ساتھ ورکنگ ریلیشنز قائم کرنے کے روادار نہیں ہیں چنانچہ وہ کیسے صوبائی وزراء کے ساتھ بیٹھنے کو تیار ہونگے این ایف سی ایوارڈ میں تبدیلی تو نکتہ آغاز ہے حکومت کا اصل ہدف 18ویں ترمیم ہے تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اور وزراء تواتر کے ساتھ اس ترمیم کو ہدف بنارہے ہیں سردست این ایف سی ایوارڈ کے ذریعے وفاقی حکومت صوبوں کے وسائل پر دن دہاڑے ڈاکہ مارنا چاہتی ہے۔اس وقت صوبوں کیلئے49اور وفاق کیلئے51فیصد وسائل مختص ہیں یہ تو معلوم نہیں کہ وفاق اپنا حصہ کتنا بڑھانا چاہتی ہے تاہم اندازہ ہے کہ وہ 60فیصد اپنے لئے اور40فیصد صوبوں کو دینے کے حق میں ہے بعض مبصرین کا اندازہ ہے کہ سندھ کے سوا کوئی صوبہ این ایف سی ایوارڈ میں تبدیلی کے خلاف مزاحمت نہیں کرے گا کیونکہ پنجاب اور پختونخوا میں براہ راست تحریک انصاف کی حکومت ہے جبکہ بلوچستان بھی من جملہ وفاق کے کنٹرول میں ہے اور اسکی حیثیت چیف کمشنر کے صوبہ سے زیادہ نہیں ہے پھر صوبوں کی نمائندگی کیلئے ایسے اصحاب کونامزد کیا گیا ہے جو صوبوں کی نمائندگی کم اور وفاق کی طرفداری زیادہ کریں گے لہٰذا کثرت رائے سے فیصلہ ہوگا اور یہ فیصلہ وہی ہوگا جو وفاق چاہے گا زیادہ سے زیادہ سندھ کی حکومت عدالت کادروازہ کھٹکھٹائے گی اگروہاں سے شنوائی نہیں ہوئی تو نیااین ایف سی ایوارڈ نافذ ہوجائے گا آمدنی کے ذرائع میں کمی سے دیگر صوبوں پرتواثر پڑسکتا ہے لیکن بلوچستان پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا کیونکہ بلوچستان کی ترجیحات الگ اور ضروریات مختصر ہیں اس صوبے کا سب سے بڑا خرچہ غیرترقیاتی اخراجات ہیں جن میں سرکاری ملازمین کی تنخواہیں اور امن عامہ کے اخراجات شامل ہیں جبکہ گزشتہ10برس میں یہاں پر کوئی قابل قدر ترقیاتی منصوبے نہیں بنائے گئے اسکی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اس صوبے کو کچھ کرنے کے اختیارات نہیں ہیں دوسرے یہ کہ یہاں پر قائم ہونیوالی گماشتہ حکومتوں کاکوئی ارادہ ہی نہیں تھا کہ اس صوبے کوترقی دی جائے یا عوام کوبنیادی سہولتیں فراہم کی جائیں اور سب سے بڑی بات یہ کہ اس صوبے کا سب سے کمزور محکمہ پلاننگ ہے آج تک نہ تو اس محکمے پر توجہ دی گئی اور نہ ہی پلاننگ کے ماہرین رکھے گئے بھلا اسکے بغیر ترقیاتی حکمت عملی کیسے بن سکتی ہے۔
کافی برسوں سے حکومت بلوچستان کی پہلی ترجیح یہ ہے کہ کس طرح صوبائی اسمبلی کے اراکین کو فی کس 35کروڑ روپے کی ادائیگی کابندوبست کیاجائے تاکہ ایم پی اے حضرات مطمئن رہیں اور حکومت کیلئے کوئی مسئلہ کھڑا نہ کریں۔1985ء سے ایم پی اے فنڈ کو بطور ہتھیار استعمال کیاجارہا ہے اگر کچھ ایم پی اے حکومت کا ساتھ نہ دیں تو انہیں فنڈز کا اجراء بند کردیا جاتا ہے جس پر معافی تلافی کے بعد فنڈز کااجراء شروع ہوجاتا ہے۔اس فنڈز کے ذریعے ایم پی اے حضرات بلدیاتی کونسلروں کاکام کرتے ہیں کہیں ٹیوب ویل کے ذریعے پانی کی فراہمی اپنے حلقہ میں اسٹریٹ لائٹس کی تنصیب،نالوں کوپختہ کرنا وغیرہ جنرل مشرف کے دور میں یہ سارے کام ضلع کونسل تحصیل کونسل اور یونین کونسل کے کونسلر کرتے تھے۔
اصل حقیقت کا تو معلوم نہیں کہ لیکن بلوچستان کی جو عمومی صورتحال ہے اس کے پیش نظریہ بات کسی حد تک صحیح ہے کہ یہاں کے ایم پی اے حضرات کا کوئی کاروبار یا بزنس نہیں ہے کیونکہ بلوچستان بزنس کیلئے ابھی تک سازگار جگہ نہیں ہے مبینہ طور پر جو لوگ الیکشن لڑکر کامیابی حاصل کرتے ہیں ان کا اصل کاروبار صرف ایم پی اے فنڈز ہے اسے گزارہ الاؤنس بھی کہاجاسکتا ہے یعنی دوسرے لفظوں میں یہاں پر پارلیمانی سیاست سب سے بڑا بزنس ہے البتہ ایم پی اے حضرات کے برعکس وزراء کی پانچوں انگلیاں گھی اور سرکڑاہی میں رہتا ہے۔
یہ جو صوبوں کی ناقص کارکردگی ہے اس نے وفاق کو حوصلہ بخشا ہے کہ وہ انکے فنڈز کاحصہ کم کرے۔کیونکہ ایک عشرے تک تمام صوبے وسائل میں اضافہ سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاسکے۔صحت،تعلیم اور خود کفالت کا کوئی منصوبہ تیار نہیں کیاجاسکا سندھ کے سوا کسی صوبے نے صحت کے شعبے میں کوئی قابل قدر اضافہ نہیں کیا۔
ایک مرتبہ انگلینڈ کے ایک
دیہی علاقہ ایلسبری جانے کا
اتفاق ہوا وہاں ایک اسٹڈ
فارم تھا یہ فارم کیاتھا
لاہور کے مینار پاکستان کے گارڈن سے
زیادہ خوبصورت لاہور کے لارنس
گارڈن سے بڑھ کر بے شمار خوبصورت
گھوڑے صفائی اتنی کہ کوئٹہ
کے اسپتال اس کے سامنے ہچ
سوچنے کی بات ہے کہ اتنے وسائل میں صوبے اپنے اسپتالوں کی حالت درست نہ کرسکے لاکھوں بیروزگار نوجوانوں کیلئے روزگار کابندوبست نہ کرسکے تعلیم کاوہ معیار کہ سبحان اللہ کوئی ایسی پلاننگ بھی نہیں ہوئی کہ یہ صوبے آمدن کے نئے ذرائع پیدا کرکے اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکیں لہٰذا اس صورتحال میں وفاق نے انکی نااہلی کا فائدہ اٹھاکر زرداری کے دیئے گئے وسائل نہ چھینے تو اور کیا کرے۔ایک دفعہ وفاق این ایف سی کے وسائل اپنے ہاتھ میں لیکر سانس لے تو اسکے لئے18ویں ترمیم کو ختم یا حسب ضرورت تبدیلی کرنا کوئی مشکل نہیں۔
کیونکہ ایک لنگڑی لولی اوربے حوصلہ اپوزیشن سے انگوٹھا لگوانا کونسا مشکل ہے کیونکہ صاحبان اقتدار کا یہی منشا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں