ڈوبتے بلوچستان کو تنکے کا سہارا نہ ملا

تحریر:ببرک کارمل جمالی

بلوچستان میں طوفانی بارشوں تباہی مچا کے رکھ دی سیلابی ریلوں نے تو سب حدیں ہی مٹادیں اور پورے بلوچستان میں ہر طرف پانی ہی پانی بن گیا۔طوفانی بارشوں کا پانی اور سیلابی ریلے جہاں جہاں سے گزر رہے تھے وہاں موجود بستیوں کو اپنے ساتھ تنکوں کی طرح بہا کے لے جا رہے تھے۔ اس وقت بھی این ایف سی ایوارڈ کی مد میں بلوچستان کو فنڈز رقبے کے لحاظ پر نہیں بلکہ فنڈز آبادی کے لحاظ پر دیئے جاتے ہیں۔ یہ بات سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ اس وقت ریاست اور حکومت کہاں ہے۔۔؟ فلڈ کنٹرول ادارے بھی شاید نیند کی گولیاں کھا کر خواب ِخرگوش کے مزے لے رہے ہیں۔اس وقت بھی بلوچستان میں محکمہ موسمیات نام کی کوئی چیز موجود ہی نہیں ہے۔ گوگل پہ موسمیات کی رپورٹ جھوٹی ہوتی ہے جب ہمارے شہر میں بارش ہو رہا تھا تب تب گوگل موسم صاف بتا رہا تھا جو عبرت ناک بات ہے محکمہ موسمیات بھی عوام کو سیلابی صورتحال سے پہلے سے اگاہ نہ کر سکا۔ پورے بلوچستان میں کل تین بڑی سڑکیں ہیں۔کراچی سے کوئٹہ جعفرآباد سے کوئٹہ پشین سے لاہور تک ان سڑکوں کا بھی برا حال ہے یا تو ان کے پل گر جاتے ہیں یا تو پھر ٹریفک کی وجہ سے جام ہو جاتے ہیں حالیہ بارشوں کی وجہ بلوچستان میں مجموعی طور پر سینکڑوں گھرانے تباہ ہوگئے۔

حالیہ طوفانی بارشوں میں انگریزوں کے بنائے ہوئے پلوں میں ایک بھی پل نہیں ٹوٹا جبکہ اس ملک کے انجینئرز ٹھیکیدار منشی نمازی مولانا صاحبان وزیروں سرداروں کے لاڈلوں کے بنائے ہوئے پل پانی برد ہو گئے ہیں آخر کیوں۔۔۔۔؟ یہاں پر یہ سوال تو بنتا ہے۔۔۔.؟ انگریز انجینئرز نے جدید ٹیکنالوجی کے بغیر کامیاب پل بنائے تھے جبکہ ہمارے دور کے تمام جدید ٹیکنالوجی کے بنی پل ناکارہ آخر کیوں ہوگئے ہیں۔۔۔؟ آخر ان سوالات کے جوابات کن لوگوں کے پاس ہیں یہ کوئی نہیں جانتا ہے۔۔۔۔۔کہاں ہیں وہ تمام پاکستانی حکمران۔۔۔۔۔؟ کہاں ہیں اس ملک کے نمائندے ۔۔۔؟ کہا ہیں اس ملک کے ایم پی اے ایم این جو پل تعمیر کرنے کے دوران بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں کہ یہ پل سو سال تک چل سکیں گے جو صرف ایک بارش میں ہی پانی برد ہو گئے۔ اس وقت پورے بلوچستان میں چودہ سے زائد بڑے پل گر کر منہدم ہوگئے ہیں آخر کیوں۔۔۔؟

اس وقت کراچی کوئٹہ پل تاحال نہ بن سکا۔۔۔۔ جس کی وجہ سے ہزاروں لوگ گھروں میں پھنسے ہوئے ہیں آخر کیوں۔۔؟ سی پیک روڈ خضدار ونگو پل جو چینی کمپنیوں نے بنایا تھا وہ بھی گر گیا تاحال وہ بھی پل نہ بن سکا ہے۔۔۔۔ آخر کیوں۔۔۔؟ پورے بلوچستان کو ملانے والی سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکے ہیں آمد و رفت کا نظام درہم برہم چکا ہے۔۔۔ آخر کیوں۔۔۔؟ زمینی راستے بند ہو گئے گھروں کے چھت گر کر تباہ ہوگئے۔ لوگ سڑکوں پر آگئے عورتیں بغیر چھت کے راستوں پر بیٹھ گئے ہیں۔ بچے بوڑھے بھوکے پیاسے آس لگا کر بیٹھے ہیں کہ حکمران طبقے کے لوگ کچھ نہ کچھ مالی مدد کریں گے جو فل الحال ناممکن لگ رہا ہے حکمران طبقے کے لوگ تاحال اقتدار کی جنگ میں گم سم بیٹھے ہوئے ہیں۔ حکمرانوں کے ماتحت کام کرنے والے بالا آفیسران وزیر اعظم اور اور وزیر اعلیٰ کو پروٹوکول دینے میں مگن ہے آخر کیوں۔۔۔۔؟

کیا ہو گا اس صوبے کا ۔؟ کیا ہوگا بلوچستان کے بے بس عوام کا ۔۔۔۔۔ کیا ہوگا بھوک سے نڈھال بچوں کا۔۔۔۔ کیا ہو گا ننگے سر میدان میں بیٹھی ماؤں بہنوں کا۔۔۔۔۔ کیا ہوگا لاچار بزرگوں کا۔۔۔۔۔ سوال تو بنتا ہے ۔۔۔۔سیلاب زدگان ایک ہی جواب مانگتے ہیں۔ ہمیں دھوپ میں بٹھا کر خود سائے میں بیٹھ گئے ہو۔ بلوچستان میں قدرتی آفات سے پیدا ہونے والی ایسی صورتحال کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن ان صورتحال سے نمٹنے کے لئے اقدامات دور کی بات بلکہ آج تک کسی کو خیال تک نہیں آیا۔

اس وقت سوشل میڈیا پر مرد خواتیں کے زبان پر ایک ہی لفظ ہے آخر ہمارا قصور کیا ہے۔۔۔۔ ہمیں کیوں پانی برد کردیا گیا ان متاثرین کا سوال تو بنتا ہے۔مگر جواب ہمارے پاس نہیں ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان میں سیلاب کی تباہ کاریاں ناقابل بیان ہیں۔ مگر اس دوران سوشل میڈیا پہ کچھ نوجوانوں نے بلوچستان کے وزیر اعلیٰ اور ان کی کابینہ کے اراکین پر خوب تنقید کی ہے اور سوشل میڈیا پر ان کے پول کھول کر رکھ دیئے ہیں کچھ ویڈیوز نے تو اس ملک کے عوام کو رونے پر مجبور کر دیا ہے حتاکہ ایک ویڈیو میں ایک سردار کو مقامی سیلاب متاثرین سے ہاتھ بھی نہیں ملا رہا ہے جو ایک افسوسناک عمل ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ بارشوں کے جو جو قدرتی راستے تھے اکثر سرداروں اور نوابوں نے روک رکھا ہے اور بڑے بڑے بند بنا دیئے ہیں جہاں پر وہ لوگ بارشوں کے پانی سے فصیلیں کرتے ہیں جبکہ اکثر ڈوبنے والے شہر میں موجود آبادیاں بھی بسا دیئے گئے ہیں اور کئی جگہوں کو پانی کو اسٹور کرنے کے لیے بڑے بڑے بند بھی باندھے گئے اس مرتبہ بارشیں معمول سے تھوڑا سا ہٹ کر ہو گئے تھے اسی وجہ سے آدھا بلوچستان ڈوب گیا ہے ان بند راستوں اور ناکارہ کام پر کبھی بھی حکومتی مشینری نے کوئی بھی توجہ نہیں دی تھی جس کی وجہ سے کئی دیہات پانی برد ہوگئے تھے سچ تو یہ ہے کہ مقامی لوگوں کو یہ اندازہ ہی نہ تھا بارشوں کی شدت ان کا سب کچھ بہا کر لے جائے گا۔ کچھ علاقوں میں چھوٹے چھوٹے ڈیم بھی بنائے گئے تھے جو سب کے سب ٹوٹ گئے تھے جس کی وجہ سے سیلابی پانی میں بہاؤ مزید تیز ہوگیا ان ڈیموں کو بنانے کی اجازت کس نے دی یہاں بھی سوال تو بنتا ہے۔

بلوچستان میں قدرتی آفات سے پیدا ہونے والی ایسی صورتحال کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن ان صورتحال سے نمٹنے کے لئے اقدامات دور کی بات بلکہ آج تک کسی کو خیال تک نہیں آیا کہ برٹش دور حکومت میں بلوچستان میں اٹھارویں صدی کے آخر میں ریلوے لائن کے لیے جو جو پل بنائے گئے تھے وہ تاحال اسی حالت میں قائم ہیں۔ جس حالت میں ہمیں بنا کر انگریزوں نے دیئے تھے۔ بلوچستان میں چودہ سو کلومیٹر تک ریلوے لائن کے جال بچھائے گئے تھے تیس سرنگیں اور آٹھ سو سے زائد خوبصورت پائیدار پل بنائے گئے تھے جو خوبصورتی اور پائیداری میں آج بھی اپنی مثال آپ ہیں پہاڑوں کے سینہ چاک کرکے ریلوے نظام بنایا گیا تھا اس وقت جدید ٹیکنالوجی نام کی کوئی چیز دنیا میں وجودنہیں رکھتا تھا جدید ٹیکنالوجی کے بغیر بننے والے پل آج بھی قائم اور پائیدار ہیں مگر ہمارے دور کے جدید ٹیکنالوجی کی بنے ہوئے تمام پل مسمار ہوگئے ہیں یہاں یہ سوال بنتا ہے کہ انگریزی انجینئروں کے ڈیزائن کردہ پل اورسرنگیں جو کسی شاہکار سے کم نہیں ہے وہ آخر آج تک کیوں قائم ہے۔؟

آخر انگریزی انجینئروں کے پاس کون سا آلہ دین کا چراغ تھا جس سے وہ پل تعمیر کرتے تھے جو دو سو سال تک قائم و دائم رہہ سکتے ہیں سبی سے کوئٹہ تک تین سو سے زائد لوہے کے پل ایک صدی پہلے بنائے گئے تھے وہ بھی تاحال ریلوے کے پٹریوں کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ بلوچستان کے سنگلاخ چٹانوں کو پل بنانے کےلئے چیرا گیا نو مقامات پر درہ بولان کو انہی پل سے ریل کو عبور کیا گیا تھا اس وقت صرف دو انجینئیر ریلوے پل بنانے میں مشہور تھے ایک رچرڈ ٹیمپل اور دوسرا جنرل برائون جو صرف ریلوے کے پل بنانےکے ماہر تھے۔ ان کے بنائے گئے ہر پل آج بھی قائم و دائم ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ 1935 کے زلزلے میں پورا کوئٹہ تباہ ہو گیا تھا لیکن ان لوگوں کے بنائے گئے پل زمین بوس نہیں ہوئے آخر کیوں۔۔۔؟ یہاں سوال تو بنتا ہے کہ ہمارےپاس اس ملک میں آج ہزاروں انجینئیر موجود ہیں. جنہوں نے لاکھوں پل بنائے مگر ان سب کے بنائے ہوئے پل آج گر رہے ہیں یہاں سوال تو بنتا ہے۔۔؟ کہ صرف دو انگریز انجینئیروں کے پل اتنے مضبوط کیوں ہیں جبکہ سینکڑوں انجینئروں کے بنائے گئے پل کمزور کیوں ہیں یہاں سوال تو بنتا ہے..؟ مگر اس کا جواب نہ ہمارے حکمرانوں کے پاس ہے نہ ہمارے انجینئیروں کے پاس ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ بلوچستان میں تباہی ضرور آئی ہے، مگر اتنی بھی نہیں آئی کہ ہماری حکومت این جی او اور مخیر حضرات کی غیرت جاگ جائے۔

‏ماثیں وطن حاخاں تھئی چھماں وثی سریمغ کناں

ترجمہ

اے مادر وطن( بلوچستان ) تمہارے خاک سے آنکھوں کا سرمہ بناؤں

ڈوبتا بلوچستان خاموش انتظامیہ کی خاموشی سمجھ سے بالاتر ہے حالیہ بارشوں کو دو ماہ سے زائد کا وقت گزر چکا ہے۔ مگر آج تک وزیر اعظم نے صرف دو مرتبہ بلوچستان کا چکر لگایا ہے کسی بھی وزیر نے ایک اسی کے قریب سیلاب متاثرین جو انتقال کر گئے ان کے گھروں تک پہنچنے کی زحمت تک نہیں کی۔۔۔ آخر کیوں۔؟ چودہ سے زائد رابطہ سڑکوں کے پل مہندم ہوگئے ہیں۔ پھر بھی کوئی پرسان حال کیوں نہیں بنا ہے۔ کراچی سے لسبیلہ اور لسبیلہ سے کوئٹہ جانے والی سڑک کا برا حال کیوں ہو گیا ہے وہ دو ماہ گزرنے کے بعد تاحال مکمل کیوں نہیں کیا گیا ہے۔ انگریزوں کے دور کے بنائے گئے سب پل آج تک قائم و دائم ہے مگر ہمارے دور جدید کے تمام پل پانی برد کیوں ہوگئے ہیں۔ یہ ایک انتہائی افسوس ناک عمل ہے۔ حکمران طبقے کا ایسا رویہ دشمنوں کے ساتھ بھی اچھا نہیں لگتا ہے۔ہم لوگ دلی پر تو قبضہ کا ہر روز سوچتے ہیں۔ مگر بلوچستان میں سیلاب متاثرین کیلئے کام کرنا گوارہ نہیں کرتے ہیں۔ آخر ایسا رویہ کیوں ؟ کاش اسلام آباد میں موجود قومی اسمبلی اور سینیٹ کے لوگوں کو بلوچستان کا نقشہ مل جائے تاکہ وہ بلوچستان کا دورہ کرکے بلوچستان کے عوام کی داد رسی کر کریں یا جھوٹی تسلیاں ہی دے دیں۔ شدید بارشوں کی وجہ سے اکثر بلوچستان کے لوگ سڑکوں اور نہروں کے کناروں پر لاکھوں کی تعداد میں آباد ہوگئے ہیں ۔ جن کے پاس ایک مچھر دانیاں تک موجود نہیں ہے افسوس اس بات کا لوگ چاند پر پہنچ گئے ہیں۔ مگر ہمارے حکمرانوں کو ہیلی کاپٹر نہیں مل رہا ہے کہ کس ہیلی کاپٹر پر بلوچستان پہنچا جا سکے۔ بلوچستان تک پہنچنے کےلئے حکومت وقت کے نمائندوں کے پاس گاڑیوں کی بھی سخت کمی ہے۔ یا پٹرول مہنگا ہونے کی وجہ سے سفر میں دشواری ہو رہا ہے۔حالیہ بارشوں سے بلوچستان کے لوگوں کے مال مویشی فصلیں اور گھر تباہ ہوگئے ہیں۔ اس وقت ریاست کہا ہے۔۔۔۔؟ وہی ریاست جو ماں کہلاتی ہے۔۔۔۔ وہی ریاست جو بچوں کو گود لیتی ہے وہی ریاست جو ہر شخص کی حفاظت کرتی ہے۔۔۔اس وقت حکومت بلوچستان کہا ہے۔۔۔ ۔۔؟ وزیر اعظم پاکستان صاحب اس وقت کہاں ہیں۔۔۔؟….فلڈ کنٹرول کہاں ہے…؟ این ڈی ایم اے کہاں ہے ۔۔۔؟ پی ڈی ایم اے کہاں ہے…؟ عدلیہ اشرفیہ کہاں ہے۔….؟ جو دعا زہرا سمیت کسی بھی کیس ایک ماہ تک لڑ سکتا ہے ۔۔۔۔۔یہ وہی عدلیہ ہے جو راتوں کو کھلتا ہے۔۔۔۔ حکومت گرانے اور بچانے کے لیے۔۔۔۔۔۔؟ آج بلوچستان کے لوگ بے یار مدد گار سڑکوں کے کناروں پر بیٹھے ہوئے ہیں ۔۔۔۔۔کیونکہ یہ بلوچستان ہے یہاں سے دلی دور است۔

بلوچستان کے پہاڑی سلسلوں سے شروع ہونے والا بارشوں کے سلسلہ جو سیلاب بن کر آیا اس نے تباہی مچادی ہے پی ڈی ایم اے نے بارشوں سے اب تک ہونے والے نقصانات کی ایک رپورٹ بھی جاری کردی ہے اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ بلوچستان میں بارشوں کی وجہ سے جاں بحق ہونے والوں کی مجموعی تعداد ایک ستر ہوگئی۔ جاں بحق ہونے والوں چونتیس بچے شامل ہیں جب کہ بولان، کوئٹہ، ژوب، دکی جھل مگسی اور خضدار میں سب سے زیادہ اموات ہوئیں ہیں۔ پی ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ بارشوں کے دوران حادثات میں باسٹھ افراد زخمی ہوئے جب کہ صوبے بھر میں مجموعی طور پر پندرہ ہزار مکانات منہدم ہو گئے ہیں پی ڈی ایم اے کی رپورٹ کے مطابق بارشوں سے چھ سو کلومیٹر پر محیط چار مختلف شاہراہیں شدید متاثر ہوئیں جب کہ بارشوں کے باعث تین ہزار مویشی بھی ہلاک ہوچکے ہیں۔ پی ڈی ایم نے کہا کہ کل ایک لاکھ 97 ہزار 930 ایکڑ کھڑی فصلوں، سولر پلیٹس، ٹیوب ویل اور بورنگ کو نقصان پہنچا ہے۔اب اس رپورٹ کے بعد کون ان سیلاب متاثرین کی مدد کریں گا یہ پی ڈی ایم نے بتایا ہے کیونکہ یہ بلوچستان ہے یہاں سے دلی دور است۔ بلوچستان کے منتخب عوامی نمائندے عوام کو سیلابی پانی کی فوری نکاسی میں یکسر ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ سیلابی پانی شدت اختیار کرتا چلا گیا۔اس وقت بلوچستان میں ایک اور کربلا کی یاد تازہ ہورہی ہے۔سچ کہتےہیں دلی دوراست پر بلوچستان قریب است پھر بھی حکومتوقت بے بس است۔

سیلاب کے دوران پورے پاکستانی میڈیا کو یا تو کراچی نظر آتا ہے یا پنجاب اسمبلی ان کو بلوچستان کیوں نظر نہیں آتا ہے ۔۔؟ یہاں جو قیامت برپا ہوچکی وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اس وقت بلوچستانی عوام کو آپ سب کی مدد کی ضرورت ہے۔ اگر مدد نہیں کرسکتے تو بلوچستان کے لیے آواز اٹھاؤ آپ کی آواز کی بہت ضرورت ہے تاکہ اقتدار میں بیٹھے لوگوں تک ہم سب کی آواز پہنچ سکیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ایک ایف آئی آر بلوچستان حکومت پر بھی کی جائے جنہوں نے سیلابی پانی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر دی ہیں۔انہی رکاوٹوں کی وجہ سے آدھا بلوچستان ڈوب گیا ہے ۔ ان تیرتی ہوئی لاشوں کا سپریم کورٹ از خود نوٹس کیو نہیں لیتا ہے کیا سپریم کورٹ صرف حکومت گرانے اور بچانے کے لئے رات کو کھل سکتا ہے تو ان لاشوں کے لئے دن کے اوقات میں از خود نوٹس کیو نہیں لیتا ہے۔ اس وقت بلوچستان میں جتنی بھی اموات ہوئی ان کا ذمہ دار کون ہوگا۔

اس سیلاب کے دوران وزیر اعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو کی ایک تصویر وائرل ہوئی جس میں وہ داڑھی کی سیٹنگ کروا رہے تھے تو اس پہ خوب تنقید کیا گیا تو اگلے روز اس نے سیلاب متاثرین کا فضائی دورہ بھی کیا سیلاب زدگان پریشان نا ہو اصل میں حجام ایک ماہ تک فری نہ تھا جسکی وجہ سے وزیر اعلیٰ نے سیلاب متاثرین کی شنوائی نہیں کی تھی۔ جب سرکاری مشینری حرکت میں آئی تو وزیر اعلیٰ کے مشیر پریس کانفرنس کے اس تصور کو جعلی قرار دیا۔ بلوچستان میں جب جب سیلاب آتا ہے تو بلوچستان کے نوابوں اور سرداروں کے لیے نعمت بن جاتا ہے جب وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے سیلاب متاثرین کا دورہ کیا تو بلوچ خواتین نے وزیراعظم کو کھری کھری سنا دی اور کہا کہ ہمیں ریلیف کی ضرورت نہیں ہے بس مہنگائی کم کریں۔ اسے کہتےہیں عوامی طاقت۔۔۔۔شاباش سیلاب زدگان بلوچستان۔

اس وقت سیلاب متاثرین نہر کے کناروں یا سڑکوں کے کناروں پہ آباد ہوگئی ہے ان لوگوں کو وہاں پہ ادویات اور راشن کی اشد ضرورت ہے۔بلوچستان حکومت کی خاموشی سمجھ سے بالاتر ہے۔غریب لوگ بھوک سے تڑپ رہے ہیں۔کوئی ان غریبوں کا پرسان حال نہیں ہےحتاکہ بلوچستان کے صحافیوں کی رپورٹ نقار خانوں میں دب جاتے ہیں۔ اس وقت پورے بلوچستان کے سیلابی ریلے سے متاثر ہونے والے ان گھرانوں کی سسکیاں اور آہیں سننےوالا کوٸی ہے جن کو سیلابی ریلوں نے اپنے پیاروں اور اپنے گھروں سےبے دخل کر دیا.جن کےمال مویشی اور اسباب سب کچھ پانی کی نظر ہو گٸے یہ سب گھرانے اس وقت کھلے آسمان تلے بے سروسامانی کی حالت میں حکومتی امداد کے منتظر ہیں اس وقت بلوچستان کے سیلاب متاثرین کو دو وقت کی روٹی اور صاف پینےکا پانی درکار ہے اس وقت سیلاب متاثرین سیلابی پانی پی کر زندہ ہیں۔سماجی تنظیموں سے گزارش ہے کہ وہ انتظامیہ کی بجاٸے خود زمینی حقاٸق دیکھ لیں بلوچستانی عوام اس بدترین مصیبت میں ہیں بلوچ قوم تو وہ لوگ تھے کہ جن کے مہمان خانے بھرے رہتے ہیں اب دو وقت کی روٹی کےمحتاج ہو چکے ہیں آٸیں دیکھ لیں ان بلکتے سسکتے خشک ہونٹوں سے ہماری بے بسی کو ہمیں صرف دو وقت کا کھانا اور صاف پانی چاہٸیے اگر صاف پینے کا پانی بھی نہیں دے سکتے تو اس ماہ محرم میں تم سے بڑا کوٸی شمر ہی نہیں ہو گا.

بلوچستان حکومت نے قدرتی آفات سے بچانے کے لئے ماضی میں نہ ہی حفاظتی بند بنائے گئے اور نہ ہی پانی کو ذخیرہ کرنے کے لئے بڑے ڈیمز بنائے ہیں طوفانی بارش و سیلابی ریلوں نے نام نہاد ترقی کا دعویٰ کرنے والے سابقہ و موجودہ عوامی نمائندوں کی کارکردگی کو عیاں کردیا ہے۔کاش سرکاری مشینری کو بروقت بروئے کار لایا جاتا تو اتنے بڑے پیمانے پر تباہی نہ ہوتی۔ نوجوان رضاکار اپنی مدد آپکے تحت علاقہ مکینوں کی مدد کر رہے ہیں۔ نااہل انتظامیہ اور پی ڈی ایم اے کو سانپ سونگھ گیا ہے۔

مرکزی حکومت اور صوبائی حکومت کے عہدیداران شہر اقتدار میں بیٹھے ہوئے مون سون سے لطف اندوز ہورہے ہیں اور سیلابی تباہ کاریوں سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کے لئے شہر اقتدار سے صرف پریس کانفرنس کیا جا رہا ہے۔ جب جب بلوچستان میں قدرتی آفات آئیں ہیں ان کا جو حال ہوتا ہے وہ صرف ان کو ہی پتہ ہوتا ہے۔ ان حالات میں وہ جینے کی بجائے مرنے کو ترجعی دیتے ہیں۔ بلوچستان میں 2010 کے سیلاب کی تباہ کاریاں کبھی نہیں بھول سکتے ہیں۔اس وقت سیلاب متاثرین کی بحالی کیلئے عالمی برادری نے دل کھول کر اپنا حصہ ڈالا اور متاثرین کی بحالی کی خاطر امداد سرکار کو دینے کی بجائے مختلف این جی اوز کو دی گئی تھی۔ پھر کئی این جی اوز نے جو لوٹ مار مچائی تو ان کی مثال دینا بہت مشکل ہے حقیقی متاثرین کو بجائے نام نہاد متاثرین کو امداد دیا گیا تھا۔ امدادی سامان کے ٹرک ایم پی اے ایم این اے کے گھروں سے نکل کر بازار میں سر عام بکنے لگے اس وقت سے عالمی برادری کا این جی اوز کا حکمران طبقے سے اعتماد اٹھ گیا ہے اس وجہ سے حالیہ سیلاب میں ان لوگوں نے بلوچستان کے عوام ریلیف دینے کے بجائے خاموشی اختیار کر لی۔ اس مرتبہ بلوچستان میں صاف شفاف طریقے سے مستحقین تک امداد پہنچانا اور ان کی بحالی کیلئے اقدامات کرنے کی سخت ضرورت ہے اگر سابقہ طریقہ کار اپنایا گیا تو بس پھر غریبوں اور بلوچستان کا اللہ ہی حامی وناصر ہے۔ اس وقت پورا بلوچستان سیلاب پانی میں ڈوب گیا ہے۔اور ہر شخص کی زبان پر ایک ہی لفظ ہے۔ ڈوبتا بلوچستان خاموش انتظامیہ۔

آج سیلاب سے شدید متاثرہ علاقے بلوچستان کے وہاں نت نئی دکھ بھری کہانیاں سننے کو ملیں۔ مال و متاع فصلات گھربار سب پانی کی نظر ہوگیا اپنے اور بچوں کی زندگیاں ہی بچا کر وہ نکل کر روڈ کنارے یا نہروں کی پشتوں پہ آکر بیٹھ گئے۔۔مگر المیہ یہ ہوا کہ کھانے کو روٹی اور پینے کو پانی تک میسر نا تھا۔وہ جن کے لمبے دسترخوان ہوا کرتے تھے اب خود محتاج ہوگئے۔بقول سیلاب متاثرین غریب کسان اور بزگر اپنے بیوی بچوں سمیت بھوکے کھلے آسمان تلے سوتے ہیں۔بارش سیلاب بھوک سے لڑتے رہے۔کسی امیر و صاحبان شہر میں اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ چند دیگ پکوا کر وہاں متاثرین میں تقسیم کرتے۔ بلوچستان کے سیلاب متاثرین اب کئی سال اپنے پیروں پہ کھڑے ہونے میں لگیں گے۔ ضروری ہے کہ اس وقت سرکار و انتظامیہ وڈیرے بھوتار میر نواب پیر نکل کر خود سروے کرکے ریلیف کا کام کرے اور پانی اترنے کے بعد بحالی کے کام کو بھی میرٹ پہ کرے تاکہ غریب آدمی اپنے پیروں پہ کھڑا ہوسکے۔ اس وقت ڈوبتے بلوچستان کو سرکار و انتظامیہ کے ساتھ ساتھ سماجی تنظیموں سیاسی رہنماؤں اور امراء اور صاحب حیثیت احباب کو بھی سیلاب متاثرین کی دکھ کی اس گھڑی میں ان کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔اللہ سیلاب متاثرین کو آسانیاں فراہم کرے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں