بے اختیار حکومت اور بلوچستان کے حالات

تحریر : نصیر بلوچ
اس ملک میں مزاحمت اور انقلابی سیاست کی ایک طویل تاریخ ہے لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے یہ باور کروایا جا رہا ہے کہ مزاحمت کی سیاست ختم ہو چکی ہے اور صرف خوشامدی اور گماشتگی کی سیاست ہی عوام کا مقدر ہے۔ اس وقت ملکی سیاست پر نظر دوڑائی جائے تو ہر سیاسی پارٹی کسی نہ کسی شکل میں حکومت کا حصہ ہے اور اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہے۔ ماضی میں خود کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ کہلانے والی تمام قوتیں آج اس ریاست کی گماشتگی کے فرائض سر انجام دے رہی ہیں جن میں پیپلز پارٹی سے لے کر قوم پرست پارٹیاں شامل ہیں۔ وفاقی اور صوبائی سطح پر اگر کوئی چھوٹی پارٹی یا گروپ ایسا ہے جو حکومت میں موجود نہیں تو وہ بھی اس نظام سے مکمل طور پر مصالحت کر چکا ہے اور مزاحمت کی سیاست کو مکمل طور خیرباد کہہ گیا ہے۔
میڈیا اور دیگر ذرائع سے یہ تاثر عام کیا جا رہا ہے کہ اگر کوئی سیاست ہو سکتی ہے تو وہ ریاست کے کسی نہ کسی دھڑے کی پشت پناہی سے ہی ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ کسی نہ کسی سامراجی طاقت کی گماشتگی کو بھی سیاست کا بنیادی جزو بنا کر پیش کیا جاتا ہے جس کے بغیر کامیابی کا کوئی تصور نہیں۔ سرمائے کی بھاری مقدار کو سیاست کا جزو بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور سب سے نچلی سطح کے سیاسی کارکن تک کے ذہن میں بھی تصور پیداکر دیا گیا ہے کہ دولت کے بغیر کسی بھی قسم کی سیاست کا کوئی وجود نہیں۔ سیاست صرف پیسے والوں کا کھیل ہے اور جن کے پاس پیسے نہیں وہ ان سیاستدانوں کے نعرے تو لگا سکتے ہیں لیکن ان کی جگہ نہیں لے سکتے۔ اس خدمت کے عوض وہ تھوڑا بہت معاوضہ حاصل کر سکتے ہیں یا پھر اپنے چھوٹے موٹے کام کروا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ کارکنان لیڈروں کے ساتھ اپنی تصویر کو نمایاں کر کے سماجی رتبہ اور ذہنی تسکین بھی حاصل کرتے ہیں۔ اس لیے سیاست کے ذریعے سماجی رتبے اوردولت کا حصول اس پورے عمل کا ایک لازمی حصہ بن چکا ہے۔ موجودہ حکومت ایک جمہوری طریقہِ کار اپنانے سے اقتدار پر آئی ہے۔ توقع تھی کہ کسی بھی معاملے پر غیر جہموری قوتوں سے کوئی مصلح نہیں کیا جائے گا۔ عوام میں یہ تاثر تو دیا جارہا ہے کہ حکومت خود مختار ہے لیکن حکومت کی مقتدرہ قوتوں کے سامنے بے بسی سے صاف عیاں ہوچکی ہے کہ حکومت خودمختار نہیں بلکہ کنٹرولڑ ہے۔ ایک کنٹرولڑ حکومت عوامی مفاد میں کچھ خاطر خواہ انقلابی تبدیلی نہیں لائی جا سکتی۔
عمران خان نااہلی کے بعد بوکھلاہٹ کا شکار ہیں وہ حواس فاختہ ہوچکے ہیں کہ اب کیا کیا جائے؟ وہ اپنی نظریں گِد کی طرح جمائے رکھا ہے۔ حکومت کی حرکات و سکنات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں جس کے مطابق ایک سنسی بیان تیار کرنے کے تاک میں ہیں۔ لوگوں کو لاپتہ کرنے کے گھنانے عمل کو جرم قرار دیا گیا ہے قومی اسمبلی سے باقاعدہ ایک بل بھی منظور ہوچکی ہے۔
موجودہ حکومت کی بے اختیاری کا اعتراف کیپٹل ٹاک میں میاں جاوید لطیف خود بھی کرچکے ہیں کہ ہم مکمل بے اختیار ہیں۔ پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ سیاسی تماشہ کیوں لگا رکھا ہے۔ عوام کو اب سب معلوم ہے کہ اصل اختیار کن قوتوں کے پاس ہے۔ اس وقت پاکستان میں غیر اعلانیہ آمریت نافذ ہے، موجودہ سیاسی جماعت کا الائنس ٹولہ مکمل بے بس ہیں۔ عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں جب لوگوں نے علی وزیر کو رہا کرو کے نعرے لگائے تو بلاول نے سر جھکا کر بس اتنا کہا کہ یہ نعرہ ان قوتوں کے سامنے لگاو جنکے پاس اختیار ہے۔ خان آف قلات میر احمد یار کے دور میں انہوں نے تمام اخبارات کا بلوچستان پر پابندی عائد کردی تھی۔ اس دن سے لیکر آج تک بلوچستان میں میڈیا بلیک آوٹ نافذ ہے۔ بلوچستان کے حالات کی مزید گشیدگی کی طرف جانے میں جتنا قصور حکمرانوں کا ہے اتنا ہی قصوار پاکستانی میڈیا ہے۔
بلوچستان میں اپوزیشن اور حکومت کی حالت ساس بہو والی جیسی بن چکی ہے۔ کسی بھی مسلے پر حکومت کا کوئی ڈھنگ کا اقدامات نظر نہیں آتا۔ فیزیوتھراپسٹ کہی دنوں سے احتجاج پر ہیں اور ابھی تک ان سے کامیاب مذاکرات کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ لسبیلہ یونیورسٹی کا مسلہ ہی دیکھ لیں کب سے طلبا احتجاج پر تھے پورے یونیورسٹی کا نظام درہم برہم ہوچکا تھا۔ یونیورسٹی انتظامیہ اپنی من مانی کرکے طلبا کے جائز مطالبات ماننے کے بجائے ان کو رسٹیکیٹ کرکے انکے خلاف جعلی ایف آئی آر درج کرچکا ہے۔ ایک اتنے بڑے توجہ طلب واقع پر تاحال حکومت کو ہوش بھی نہیں آیا۔ تعلیم، سڑک، پانی اور بجلی کا نعرہ لگاکر بیانیہ تیار کرکے ووٹ لیکر اقتدار میں آنے کے بعد سیاسی جماعت جیسے ان مسائل کو بھول ہی جاتی ہیں۔ بلوچستان کے تمام اظلاع ان تمام بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں جن کا وہ نعرہ لگار کر اقتدار پر براجمان ہیں۔