گھتی نہ سلجھانے کی وجوہات کیا ہے؟

تحریر : عبدالرزاق برق
پی ٹی آئی نے اپنے مطالبات حکومت سے منوانے کے لیے جولانگ مارچ شروع کیا ہے اس لانگ مارچ کے مطالبات کو مذاکرات کے ذریعے حکومت سے ماننے کے لیے پس پردہ کئی ہفتوں سے جو بہت کوششیں ہوئی ہیں وہ مذاکرات رنگ نہ لاتے ہوئے نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکے اگرچہ یہ کوششیں ملک کے صدر ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے کی گئی تھیں وہ مختلف سیاسی حالات اور وجوہات کی وجہ سے اب تک پیش رفت نہیں کرسکے، پہلی وجہ یہ ہے حالات یہ بتا رہے ہیں کہ صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے ان کی شہرت ایک حکیم اور دانا شخص کی ہے، ان سے یہ امیدکی جارہی تھی کہ وہ حکومت اور عمران کے درمیان مذاکرات کرنے کے لیے ثالثی کا کردار ادا کریں گے مگر حکومت کی جانب سے ان کی بات نہ مانتے ہوئے ان پر عمران خان کی حمایت کرنے کا الزام بھی ہے۔ دوسری وجہ جن اداروں سے توقع کی جارہی تھی کہ وہ حکومت اور اپوزشن کے درمیان کردار ادا کرتے ہوئے دونوں کو ایک تصادم سے قوم اور ملک کو بچائیں گے مگر انہوں نے بھی کھل کراپنے جذبات کا اظہار ایک پریس کانفرنس میں کرچکے ہیں کہ بقول ان کے ہم نے آزاد رہنے کا فیصلہ کرلیا ہے، اب ہم سیاست کے گند میں پڑنا نہیں چاہتے، تیسری وجہ حکومت پاکستان اور عمران خان کے درمیان کوئی گارنٹر بھی موجود نہیں کیونکہ بغیر گارنٹر کے بات نہیں بنے گی۔ ادھر اسلام آبادکے ریڈ زون کی صورتحال یہ ہے کہ ریڈ زون کو سیل کردیا گیا اور وہاں فوج تعینات کی گئی ہے، اب اگر عمران لاکھ بار یہ کہے کہ وہ لانگ مارچ کے ریڈ زون میں داخل نہیں ہوں گے اور انہوں نے گملا نہ ٹوٹنے کی ضمانت بھی دے رکھی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ریڈ زون میں داخل نہیں ہوں گے تو وہاں سے نئے انتخابات کی تاریخ کیسے واپس لیکر آئیں گے؟ اور اگر عمران خان اپنے مطالبات میں ناکام ہوجاتے ہیں تو کیا اس کی مقبولیت زمین بوس نہیں ہوجائے گی؟ ایسے میں اگر عمران خان ناکام ہوئے تو ملکی سیاست میں سکوت طاری نہیں ہوگا اور حکومت اپنے منصوبہ جات پرعمل کرے گی یا دوسری صورت یہ ہوگی کہ قتل وبرداشت کا جنازہ اٹھے گا اور انارکی بدترین شکل میں نمودار ہوگی۔ خدانخواستہ ریڈزون میں دھرنے کے ہزاروں نوجوان داخل ہوجائیں اور وہاں ریڈزون میں موجود فوج کا سامنا ہونے پر فوجیوں پر پتھر مارے تو پھر اس وقت کیا پی ٹی آئی کے کارکنوں اور فوج کے درمیان تصادم نہیں ہوسکتا؟ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے حالات جب تصادم کا خطرہ ہو تو اس گتھی کو کون اور کیسے سلجھایا جائے؟ کیونکہ حکومت اور پی ٹی آئی آپس میں مذاکرات تو کرسکتے ہیں مگر ایک دوسرے کے مطالبات نہیں مانتے اور دونوں اپنی اپنی ضد پر قائم رہے ہیں اورجب حالات فیصلہ کن موڑ پر پہنچ جائیں تو ملک کے سنجیدہ حلقے پریشان ہوجاتے ہیں کہ یہ کیا ہورہا ہے اور آئندہ کیا ہوں گے۔ ملک کی مقتدرہ نے غیر سیاسی ہوکر اپنا فرض پورا کرلیا اب ملک کے سیاست دانوں کی باری ہے کہ وہ آگے آئیں اور کردار ادا کریں یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ عمران خان کے مطالبات لاکھ بار ناقابل قبول ہوں تو کیا ہمارے سیاست دان اس قابل نہیں کہ مل بیٹھ کر آپس میں مذاکرات شروع کریں کیا ہمارے سیاست دانوں میں کوئی ایسی شخصیت نہیں کہ وہ موجودہ کشیدہ سیاسی حالات میں حکومت اور عمران خان کے درمیان دونوں کے مابین درمیانی راستہ نکالنے پر قائل کرسکے؟ حکومت اگر عمران خان کے مطالبے نہیں مانتی اور ان سے نئے آرمی چیف کے تقرر پر مشاورت بھی نہیں کرتی کیا مشاورت کرنا جمہوریت کا بنیادی ستون نہیں ہے؟ حکومت کو چاہیے کہ وہ عمران خان کا ایک مطالبہ مان لے اور دوسرے مطالبے سے عمران خان خود دستبردار ہوجائیں اگر غور کیا جائے کہ حالات سیاسی انتشار کی طرف جارہے ہیں لانگ مارچ میں جو طرز گفتگو استعمال کیا جارہا ہے وہ کسی طور پر ریاستی اداروں کے حق میں نہیں جارہے اس میں کوئی شک نہیں کہ سڑکوں پر نعرہ زن ہزاروں عوام جمہوری حق چاہتے ہیں، کیا ملک میں لانگ مارچ کے ذریعے نئے انتخابات کا اعلان ہونا پاکستان کے مسائل کے فی الفورحل ہے؟ پاکستان میں لانگ مارچ یا دھرنوں سے حکومت گرائی جاسکتی تو بعض سیاسی گروہ یا تنظیمیں ہفتے میں سات مرتبہ حکومتیں گراتے اگر یہ خوف ناک روایت رکھی گئی کہ لانگ مارچ اور دھرنوں سے حکومت گرائی جائے تو پھر کوئی بھی حکومت اپنی مدت پوری نہیں کرسکے گی کیونکہ لانگ مارچ کرنے والی اپوزیشن کل جب اقتدار میں آئے گی توجن کی حکومت گرائی گئی وہ اپوزیشن میں آکر وہی حربے ان کی حکومت کیخلاف استعمال کریں گے۔ یہ بات بھی صحیح ہے کہ عمران خان کا یہ لانگ مارچ دراصل ایک پاور شو ہے جس کے ذریعے وہ حکومت اور دیگر حلقوں کے ساتھ بیک ڈور میں اپنی شرائط پر سمجھوتہ کرنا چاہتے ہیں اور حالیہ ضمنی انتخابات میں کامیابی کے بعد طاقتوروں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کرتے چلے آئے ہیں کہ وہ سب سے زیادہ مقبول لیڈر ہیں اور یہ لانگ مارچ شو آف پاور اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، لانگ مارچ کے ذریعے شو آف پاور کا مقصد آرمی چیف کی تعنیاتی پر اثر انداز ہونا بھی ہوسکتا ہے کیونکہ عمران خان کی مقبولیت کسی ٹھوس معاشی پروگرام یا کارکردگی پر نہیں، محض ایک بیانیے اور اس سے جڑی روز کی نئی شعبدہ بازی ہے جس کا جواب اب تک ان کے سیاسی مخالفین نہ دے سکے۔