تعلیمی بحران

تحریر: شبیر رستم
‘صبح’یہ زندگی کی اس گھڑی کا نام ہے جس میں عمر کی ہر اسٹیج سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنی اپنی مصروفیاتوں سے دوچار ہونے کو چل پڑتے ہیں۔ کہیں کوئی منزلوں کا دیوانہ، خوابوں کو تکمیل تک پہنچانے اور مشکلوں کو شکست کی دہلیز پہ دستک دلوانے والا دن کی تھکاوٹ کو مسترد کرکے نئے دن کو کچھ مزید امیدوں کے سہارے آغاز کرنے نکلتا ہے، کہیں کوئی مستقبل کے سنورنے کے خیالوں میں غائب اور گزرے دن کی تھکاوٹ کے پیچیدے دھاگوں میں پنھسا آتھ سر پہ رکھ کہ بیٹا قسمت کو نشانِ تنقید بناتا ہے، کہیں کوئی اس ملک کے بنائے گئے قانونوں کی پیروی نہ ہونے اور حقوق بنیاد سے محروم ہونے پر صبح کی آغاز بکریوں کی ریوڈ اور گزشتے دن کی پسینے سے شرابور رومال کو کندھے پر رکھ کر محنت مزدوری کی طرف پھر سے لوٹ جاتا ہے تو کہیں کوئی بچہ صبح ناشتہ پر اپنی امی سے سوال کررہا ہوتا ہے کہ ہمارے گاؤں میں اسکول کیوں نہیں ہے؟ کچھ اس طرح میں نے بھی اپنی ایک صبح کا آغاز ایک ایسی منزل کی طرف کی جو قدم بہ قدم یہ احساس دلاتا رہا کہ آج کچھ حقیقت کو نزدیک سے دیکھنا ہے۔ وہ حقیقت جس کے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر آج تک شاید کسی نے دیکھا ہو۔
سفر کی ازل کو پرندوں کی لہلہاتی ہوئی آوازوں اور اس بے منزل ہوا کے لہروں کو نازک پروں کی مدد سے چیرتے ہوئے ان معصوم پرندوں کی آگے منزل کی طرف بڑھنے نے تو خوشگوار بنایا لیکن اس ابنِ آدم کی بنائی ہوئی بغیر عمل کی قانون، جھوٹے دعوؤں اور حق تلفی نے مایوسیوں میں ڈال دیا۔ میں ایک ایسے گاؤں میں پہنچا جہاں نونہال بچے اپنی خوبصورت صبح کا آغاز کندوں پر اسکول بیگ لینے کے بجائے ایک بڑا سا سامان سے بھرا تھیلا، ہاتھوں میں قلم جیسی قیمتی زیور ہونے کے بجائے ایک تیز کہلاڑی اور لبوں پر ‘لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری، زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری’ جیسی شبت ہونے کے بجائے بکریوں کو چراگاہوں کی طرف یہ ‘اوچ، اوچ!’ کہتے ہوئے لیے جارہے تھے۔
یہ گاؤں شیکامدی گوٹھ کے نام سے جانا جاتا ہے جو وندر شہر سے تقریباً ایک گھنٹے کی راستہ پر واقع ہے۔ متعلقہ گاؤں سو کے قریب گھروں پر مشتمل ہونے کے باجود اسکول جیسی نعمت سے اب تک محروم ہے۔ جس کے نتیجے میں پہلے اس گاؤں سے بچے صبح سویرے گنٹھوں کا سفر کرکے ان علاقوں میں پڑھنے جاتے جہاں اسکول موجود تھا لیکن اس عمل سے کوئی مثبت نتائج موصول نہیں ہوئی۔ کیونکہ صبح سویرے چھوٹے بچوں کا اتنا دور تک سفر کرنا اوّل تو ناممکن ہے لیکن پھر بھی حالتِ مجبوری میں یہ ناممکن کو تو ممکن بنایا جاسکتا ہے لیکن جو حادثات ہونے کا امکان ہے اسے غلط ثابت کرنا تو نہ ممکن ہے۔ علاوہ ازیں، اگر یہ بچے سفر کے دوران حادثات سے محفوظ بھی ہو اور اپنی معصوم ہمت سے اس ناممکن سفر کو ممکن ہی بنائیں لیکن جس مقصد (علم) کیلئے صبح سویرے گھروں سے نکلتے ہیں کیا اسے یہ بچے حاصل کرسکتے ہیں؟ نہیں، بلکل نہیں۔ کیونکہ حال میں ایک خیال بڑی عروج پر ہے کہ پڑھنے کیلئے پڑھنے والے کا فریش ہونا لازمی ہے۔ اگر اس خیال کو اس گاؤں کے بچوں سے موازنہ کیا جائے تو ان کیلئے پڑھنا تو بلکل مشکل ہے کیونکہ یہ تو اپنی پوری انرجی سفر میں لگا لیتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں چھوٹے چھوٹے بچے جب اسکول کے سفروں میں تھک جاتے ہیں تو وہ بکریوں کو چرانا ہی واحد حل سمجھ لیتے ہیں چونکہ اس گاؤں کے بچے اپنی طرف سے بھرپور کوشش کرتے ہیں تعلیم حاصل کرنے کی لیکن ان کی مشکلات ان کے کوششوں کا نتیجہ آنے سے پہلے ہی انہیں مزید اپنی گرفت میں لپیٹتے ہیں اور اس کا زمہ دار میں حکومت چلانے والے لوگوں اور سیاست دانوں کو مانتا ہوں۔
اگر، اس، تعلیمی مسئلے کو قانون کی روشنی میں دیکھا جائے تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی جاری کردہ آرٹیکل 25A کے تحت اس گاؤں کو اسکول بغیر طلب کیے ملنا تھا۔ چونکہ، آرٹیکل 25A جو اس ملک کے شہریوں کو بنیادی تعلیم مفت معیا ہونے پر بحث کرتا ہے کہ پانچ سال سے پندرہ سال کے بچوں کو تعلیم دینا حکومت پاکستان کا زمہ داری ہے۔ اب سوال یہ آتا ہے کہ کیوں اس گاؤں کو اسکول فراہم نہیں کیا گیا حالانکہ جس ملک میں یہ لوگ آباد ہیں وہ ملک اپنے آئین میں تعلیم کو انکا بنیادی حق مانتا ہے اور تعلیم فراہم کرنا بھی اپنے سر لے رہا ہے تو پھر کیوں یہ اب تک تعلیم سے محروم ہیں؟ کیا تعلیمی اداروں میں بیٹے صاحبِ اختیار لوگوں کا فرز نہیں ہے کہ وہ اس طرح کے پسماندہ علاقوں کا دورہ کریں اور وہاں اسکول جیسی ضروریاتوں کو پورا کریں؟ اگر اسکول معیا کرنا انکی پہنچ سے دور ہے تو کم از کم اس طرح کے مسائل کا آگے رپورٹ تو کرسکتے ہیں۔ لیکن نہیں، ان افسران کو ایسے علاقوں کے دورے کرنے میں گرمی لگتی ہے کیونکہ یہ وہ علاقے ہیں جہاں روڈ کی رسائی بھی بمشکل ہو اور ہمارے تعلیمی افسران ہیر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ اس حقیقت کو بول کر کہ جس سروس کیلئے انکو لاکھوں کا تنخواہ دیا جارہا ہے وہ صرف اور صرف اس طرح کے تعلیمی مسائل کو آشکار اور حل کرنے کے لیے ہے لیکن یہ صاحب آفیس میں بیٹنے کو اپنی سروس سمجھتے ہیں۔ ان میں صوبائی اور ضلعی تعلیمی آفیسر شمار ہوتے ہیں۔ مزید برآں، جب اس طرح کے افسران کو کسی پلیٹ فارم پر بات کرنے کا موقع ملتا ہے تو وہاں بڑی بڑی پہاڑیں ایک آنکھ کی جھلک میں توڑ دیتے ہیں یہ کہتے ہوئے کے عوام کی خدمت کیلئے ہم دن رات حاضر ہیں اور عوام کے بچوں کو تعلیم دینا اور ان کے بنیادی حقوق کیلئے آواز بلند کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ اگر واقع دور حاضر میں کسی ایجوکیشنل آفیسر کے نزدیک اس کے ڈیوٹی کا مقصد یہی ہے تو آج کیوں ایک مصنف اپنی قلم اسکولوں کی غیر دستیابی پر اٹھاتا ہے؟ اس کا واحد وجہ یہ ہے کہ آپ لوگ (بلوچستان کے تعلیمی افسران، جس میں ایجوکیشنل ڈائریکٹر اپ بلوچستان اور ضلعی ایجوکیشنل آفیسر آپ لسبیلہ/حب آتے ہیں) اپنے ڈیوٹی سے غیر حاضر ہیں۔
دوسری طرف دور دراز علاقوں میں تعلیم نہ ہونے کا زمہ دار آج کل کے سیاسی شخصیات بھی ہیں جو معض الیکشن نذدیک کرکے اس طرح کے علاقوں کا دورا کرتے ہیں۔الیکشن کے وقت لوگوں کو اپنے بے معنی باتوں سے ووٹ دینے پر رازی کرکے یہ پبلک حال اور واش رومز معیا کرنے کا یقین دلاتے ہیں اور لوگ اس طرح کے چیزوں سے خوش ہوکر انکو بھر پور سپورٹ کرتے ہیں۔ لیکن کھبی بھی سیاسی لیڈر یہ نہیں کہتے کہ ان کو اسکول فراہم کیا جائیگا کیونکہ وہ اس بات سے واقف ہیں کہ اگر اس طرح کے علاقوں کو اسکول فراہم کیا جائے تو ان سے انکا نانِ شبینہ چین لیا جائیگا۔ کیونکہ اسکول سے بچے علم حاصل کرکے کل کو اپنے بنیادی حقوق سے واقف ہو جائیں گے اور یہ پھر اپنے اوپر کسی کو حکومت کرنے کا موقع نہیں دینگے۔ اس ڈر سے لوگوں کو پبلک حال اور دو چار واش رومز دیکر ان کے آنکھوں میں اپنے اچھا اور ہمدرد ہونے کا دھول جھونکتے ہیں۔ اور اس کے علاوہ، آج کل سیاسی لیڈروں نے ایک عجیب سا مسکا لگانے کا طریقہ سیکھ لیا ہے وہ یہ کہ جیسے ہی الیکشن نذدیک ہوتے ہیں انکو سالوں پہلے وفات ہونے والے لوگ یاد آجاتے ہیں اور انکی تعزیت کرنے کو چل کر لواحقین کو یہ کہتے ہیں کہ واقع کا سن کر بہت افسوس ہوا۔ اور پھر اس موقع کے تصاویر نکال کر شول میڈیا پر افشا کرکے عوام کو یہ میسیج دینا چاہتے ہیں کہ وہ عوام کے دکھ و درد میں برابر کے شریک ہیں۔ اصل میں انکو کسی کے وفات ہونے کا دکھ نہیں ہوتا بلکہ دوکھ ووٹ کم ہونے کا ہوتا ہے اور اپنے سیاسی کیریئر کو مذید مظبوط کرنے کیلئے انکو اس طرح کے چالیں چلانے پڑتے ہیں۔ اور اس گاؤں، شیکامدی گوٹھ، کے لوگوں کے ساتھ بھی کچھ اس طرح ہورہا ہے۔ اس موضوع پر اس گاؤں کے کچھ معزیض لوگوں سے پوچھ کر یہ معلوم ہوا کے ان لوگوں نے اپنی حالتِ زار ہر اس حکومت کے سامنے رکھا جو اختیار میں تھا لیکن انکو صرف اور صرف یقین دہانی کرایا گیا، کوئی عملی قدم نہیں لیا گیا۔
اب حیرت کی بات یہ ہے کہ اکیسویں صدی میں بھی ایک ایسا ملک موجود ہے جہاں لوگ اس انتظار میں بیٹے ہوئے ہیں کہ کب تک انکو اسکول دیا جائیگا اور کب یہ پڑھینگے؟ جبکہ دوسری طرف دنیا اتنا آگے جاچکا ہے کہ وہ آج اسکول میں انرول بچوں سے بھی مختلف خیالات کے دریافت کی عمل میں مصروف ہیں کیونکہ وہ تعلیم کو مزید بہتر کرنے کیلئے صرف ایک آدمی کی خیالوں کے انتظار میں نہیں بیٹھے ہیں وہ اکٹھے کام کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن ایک ہمارا ملک ہے جہاں قانون بھی خود بناتے ہیں اور انکو عملی جامہ سے محروم بھی خود ہی کردیتے ہیں۔ جیسے کہ ان دنوں آرٹیکل 25A کے ساتھ ہورہا ہے۔ اگر گہرائی سے دیکھا جائے تو آج یہ، شیکامدی گاؤں، کو اسکول سے محروم نہیں کیا گیا ہے بلکہ پاکستان کے آرٹیکل 25A کو اسکے مطلب اور مقصد سے محروم کیا گیا ہے۔ بل اخر، میں گورنمنٹ آپ پاکستان اور گورنمنٹ آپ بلوچستان سے یہ کیے کہ اپنا قلم رکھ دیتا ہوں کہ اگر آپکے سامنے آرٹیکل 25A اور تعلیم سے منسلک باقی آرٹیکلز کا کوئی لاج ہے، تو اس شیکامدی گوٹھ اور اس طرح کی کئی اور گاؤں جو آج تک اسکول سے محروم ہیں انکو اسکولوں سے آراستہ کریں اگر نہیں، تو بس نہیں۔