55ویں یوم تاسیس اور بلوچ قومی تاریخ میں بی ایس او کا کردار اور تاریخی پس منظر

تحریر: بابل ملک بلوچ
بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن بلوچ نوجوانوں کا مضبوط سیاسی قلعہ اور بلوچ قوم کا قومی اثاثہ ہے، جو اپنے 55 سالہ مختصر تاریخی منظر میں جس نے بلوچ طلباء کو ایک فطری، شعوری اور منظم سوچ فراہم کی جو اپنے قیام 1967ء سے لیکر اب تک نہ صرف بی ایس او بلوچ قومی سیاست میں تعلیم سمیت سیاسی، فکری و نظریاتی جدوجہد میں ایک اعلیٰ درسگاہ کی حیثیت رکھتی ہے، بی ایس او نے بلوچ قوم کی تاریخی ڈیمو گرافی ساحل و وسائل کے دفاع، قومی ننگ و ناموس کی تحفظ استحصالی قوتوں کے سامنے ہمیشہ تاریخی جہدوجہد میں ہر اول دستے کا کردار ادا کرتا چلا آرہا ہے اور اپنے وجود سے لیکر آج تک بلوچ قوم کو قومی سطح کے رہنما اور لیڈر فراہم کررہے ہیں اور اگر بی ایس او قومی لیڈر پیدا کرنے کی نرسری کہے تو بے جا نہ ہوگا اور اگر تاریخ کے اوراق کو پلٹ کر دیکھا جائے تو بی ایس او نے ایسے سینکڑوں قومی سپوت پیدا کیے جو آج بھی ہمارے بلوچ قومی تاریخ کا حصہ اور زینت ہے جن میں شہید فدا بلوچ، شہید حمید بلوچ اور ان جیسے عظیم رہنما آج بھی ہماری تاریخ کے صف اول کے شہداء ہیں جو ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے۔ ان کی سوچ، نظریہ، فکر تازیست بلوچ قوم کے لیے مشعل راہ ہیں۔ بی ایس او ایک طلباء تنظیم کی حیثیت سے نہ صرف طلباء کی تعلیمی، سیاسی، نوجوانوں کے حقوق کیلئے برسر پیکار ہیں بلکہ ایک قومی تنظیم کی حیثیت سے بلوچ قوم کیلئے ہر پلیٹ فارم پر تاریخی جہدوجہد کرتے چلے آرہے ہیں۔ بی ایس او نے بلوچ قوم و بلوچ نوجوانوں میں وہ اعلیٰ و منفرد مقام حاصل کیا جو شاید اس خطے میں کسی دوسری طلبا تنظیم یا پارٹی نے حاصل کی ہو۔ آج بی ایس او جیسی تنظیم کی جہدوجہد ہی کی بدولت ہزاروں باشعور طلباء نوجوانوں کو ایک عظیم سوچ سے وابستہ کر رکھا ہے اور بی ایس او ہی نے ہمیں یہ شعور دی ہے کہ بلوچ قوم ہر ظلم و ستم کیخلاف سرعام بلا خوف و خطر اپنا مؤقف کسی پلیٹ فارم پر رکھ سکتے ہیں اور رکھ رہے ہیں۔ بی ایس او صرف بلوچ نیشنلزم سے وابستہ قومی رہنما پیدا کررہے ہیں بلکہ اس خطے میں بی ایس او کے پیداوار سیاسی رہنماؤں کی ایک لمبی قطار اور طویل جہدوجہد نظر آرہی ہے۔ بی ایس او کے عام کارکن سے لیکر مرکزی چیئرمین جن میں حبیب جالب بلوچ، ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ، شہید فدا بلوچ، میر ایوب جتک، شہید حمید بلوچ، ڈاکٹر یاسین بلوچ تک اپنی پوری زندگی بلوچ قوم کیلئے وقف کردی تھی، آج انہی عظیم قومی ہیروز کی نظریاتی و فکری، تاریخی جہدوجہد، قربانیوں ہی کا نتیجہ ہیں کہ بلوچ قوم آج بھی سیاسی فکری و شعوی طور پر لیس ہیں، آج 26 نومبر کو بی ایس او کے یوم تاسیس منانے کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے کہ ہم اس نرسری اور تاریخی، فکری، نظریاتی، شعوری درسگاہ بی ایس او کے بنیادی فلسفہ کیلئے جہدوجہد و قربانی دی تاکہ ہماری تاریخ زندہ اور جاوداں رہے، جو اس سے پہلے بی ایس او کے قومی ہیروز نے اپنے خون و خاک سے اس کی آبیاری کرتے چلے گئے، آج بلوچستان اور بلوچ قومی خطے کو درپیش چیلنجز اور بالخصوص طلباء کو درپیش تعلیمی و سیاسی مسائل و مشکلات کا سامنا ہے، ایسی صورت میں جہاں بلوچستان جو ہمیشہ ہی سے اس ریاست کے ناروا سلوک اقدامات و پالیسوں کا شکار ہو کر گونا گوں مسائل کا شکار رہے اور ہمیشہ ظلم و جبر کا سائے میں زیر عتاب رہے، یہاں ہزاروں کے تعداد میں بلوچ سیاسی کارکن لاپتہ کیے گئے اور ہمارے تعلیمی ادارے کم اور چھاؤنی زیادہ لگنے لگے طلباء و طالبات قلم کے بجائے بندوق کی نالی کے سائے میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں اور ریاست کے گماشتے اور کاسہ لیسوں اور استحصالی قوتوں کے سامنے میں صرف اور صرف بی ایس او کے پلیٹ فارم سے منظم جدوجہد کی ضرورت ہیں بی ایس او کے یوم تاسیس کے موقع پر اپنے قومی شہداء و غازیوں سے یہ کمٹمنٹ کرتے ہیں کہ ہم ان کی امامت تنظیم بی ایس او کو ان کی جہدوجہد کے عین مطابق پا تکمیل تک پہنچنانے کیلئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرینگے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں