ارشد شریف کو منصوبہ بندی کے تحت قتل کیا گیا، فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع

اسلام آباد(انتخاب نیوز)سینئر صحافی ارشد شریف قتل کیس میں فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ سپریم کورٹ میں میں جمع کروادی گئی، رپورٹ 592صفحات پر مشتمل ہے اوررپورٹ ڈی جی ایف آئی اے اور ڈی جی آئی بی کے دستخط کے ساتھ جمع کروائی گئی ہے ۔رپورٹ میں تہلکہ خیز انکشافات کئے گئے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ارشد شریف کو منصوبہ بندی کے تحت قتل کیا گیا، کینیا پولیس نے کوئی معاونت نہیں کی۔ کیس میں کئی غیر ملکی کرداروں کا کردار اہمیت کا حامل ہے۔ ارشد شریف کے کینیا میں میزبان خرم احمد اور وقار احمد کا کردار اہم اور مزید تحقیقات طلب ہے۔ وقار احمد کمیٹی کے سوالات کا تسلی بخش جواب نہیں دے سکے۔ گاڑی چلانے والے خرم کے جواب تضادات سے بھرپور تھے، دونوں افراد مطلوبہ معلومات دینے سے ہچکچا رہے تھے۔ مقدمات کی وجہ سے ارشد شریف کو پاکستان چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ ارشد شریف کو ایک منصوبہ بندی کے تحت قتل کیا گیا۔ ارشد شریف کو کس نے دھمکیاں دیں اس حوالہ سے کوئی ثبوت نہیں مل سکا۔ ایک درجن کے قریب افراد ارشد شریف کے ساتھ مستقل رابطے میں تھے، یہ کردار پاکستان، دبئی اور کینیا میں مقتول کے ساتھ رابطے میں تھے۔ پاکستان مشن دبئی کے افسران کے بیانات بھی رپورٹ کا حصہ ہیں۔ خاندان اور دوستوں کے مطابق ارشد شریف کو قتل کی دھمکیاں دی گئیں۔ ارشد شریف کو کس نے دھمکیاں دیں کوئی ثبوت نہ مل سکا۔ارشد شریف پر پاکستان میں 16مقدمات درج کئے گئے، کمیٹی کو 9مقدمات کی کاپیاں فراہم کی گئیں۔ کمیٹی نے اسلام آباد، بلوچستان اورسندھ کے آئی جیز کو بھی خطوط لکھے۔ ایف آئی آر ز کے مدعیان کو پیش کرنے کے لئے خطوط لکھے گئے، صرف تین مدعیان کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے۔ ارشد شریف پر رواں سال 19مئی کو ایک ہی دن تین مقدمات درج ہوئے۔ 20مئی کو مزید چھ مقدمات درج ہوئے، ایف آئی آرز کے اندراج میں قانونی طریقوں کو پورانہیں کیا گیا۔ رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ فیصل واوڈا نے کمیٹی کو نہ شواہد دیئے اور نہ ہی بیان جمع کروایا۔ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ کا زیادہ تر حصہ لوگوں سے کئے گئے انٹرویوز پر مشتمل ہے۔رپورٹ ڈائریکٹر ایف آئے اطہر وحید اور ڈپٹی ڈی جی آئی بی عمر شاہد کی جانب سے تیار کی گئی ہے۔ خیبرپختونخوا سی ٹی ڈی کی جانب سے ارشد شریف کو جاری تھریٹ الرٹ کو بھی رپورٹ کا حصہ بنایا گیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ارشد شریف کی تمام ڈیوائسز اورموبائلز کافارنزک کروایا گیا،اس کو بھی رپورٹ کا حصہ بنایا گیا ہے ، ان کی ایم میلز اور واٹس ایپ اور دیگر تمام ڈیوائسز کا فارنزک کروایا گیا۔ رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ ارشد شریف کو مجبور کیا گیا کہ وہ بیرون ملک جائیں، خیبرپختونخواسی ٹی ڈی نے باقاعدہ ان کا تھریٹ الرٹ بھی جاری کیا تھا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ ممکن ہے کہ ارشد شریف نے متحدہ عرب امارات کے حکام کے دباﺅ پر یو اے ای چھوڑا ہوا اور وہ کینیا گئے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کینیا کے جی ایس یو کے چار حکام اور تربیتی کیمپ کے اوسی، مالی یا کسی اوراثرورسوخ کی وجہ سے اس سارے معاملے میںآلہ کار کے طورپر استعمال ہوئے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وقار کینیا کی نیشنل انٹیلیجنس سروس، پولیس اورعالمی ایجنسیوں کے ساتھ رابطے میں تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وقار احمد نے ارشد شریف کا فون اور آئی پیڈ پولیس کی بجائے نیشنل انٹیلیجنس سروس کے حوالہ کئے جو کہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ نیشنل انٹیلیجنس سروس کے ساتھ رابطے میں تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وقار کے کینیا اور عالمی ایجنسیوں کے ساتھ روابط ظاہر کرتے ہیں کہ مزید غیر ملکی عناصر اور کرداراس سارے کیس میں ملوث ہو سکتے ہیں۔ ارشد شریف کی گاڑی کی سیٹ کی بیک سیٹ پر گولی کا نشان نہیں تھا،لیکن ارشد شریف کے سینے میں دائیں جانب سے گولی باہر نکلی مگر یہ سیٹ کو نہیں لگی۔ ارشد شریف کے بیٹھنے کی پوزیشن اورگولی لگنے کی پوزیشن اور جوشوٹرز تھے اس ساری صورتحال میں کوئی مطابقت نظر نہیں آتی، کینیا کی پولیس کا شناخت میںغلطی کا دعویٰ تضادات سے بھراہوا ہے۔ جی ایس یو حکاام کا مﺅقف ناقابل یقین ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ کی جانب سے سیکرٹری داخلہ کو جمع کروانے کی ہدایت کی گئی تھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں