محمود اچکزئی اب یہ بھی نہ کریں تو کیا کریں؟

تحریر: شہباز بلوچ
بلوچ قائدین کی جانب سے کئی سال سے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے منشا پر تعطل کا شکار سبی یونیورسٹی بدمعاشی کے تحت میر چاکر یونیورسٹی بنانے کا اعلان ہوا، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے اسمبلی سر پر اٹھالی، ہنگامہ آرائی، شور شرابہ مگر شور سے بڑھ کر اور کچھ نہیں کیا۔ اس معاملے کو متنازع بناکر الیکشن مہم کا حصہ بنانے کی کوششیں جاری تھیں کہ حکومت سے بے دخل ہونے والی پشتونخوا ملی عوام پارٹی سمیت درجن سے زائد پارٹیوں کو ہاتھ کے ہاتھ بِکنے والی شے ہاتھ اءٓی، اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ، یہ بیانیہ بلوچ دشمن اور پشتون دوست بیانیے سے زیادہ طاقت ور تھا۔ لہٰذا پشتونخوا ملی عوام پارٹی نے بھی اسے بیچنا شروع کردیا۔
سبی میں محمود خان اچکزئی کی تشریف آوری غالبًا 2018ء میں ہوئی، پبلک پارک میں جلسے کا انعقاد کیا گیا یہ پی ڈی ایم کے جھنڈے تلے منعقدہ جلسہ تھا۔
جلسے میں نیشنل پارٹی کے ضلعی رہنماؤں، کارکنان سمیت ن لیگ ان کے رہنماؤں اور کارکنان سمیت پی ڈی ایم میں شامل کئی پارٹیوں کے رہنماؤں کارکنان نے شرکت کی ان کارکنان اور رہنماؤں میں اکثریت بلوچوں کی تھی۔
محمود اچکزئی جلسہ گاہ پہنچے تو انکا استقبال اصغر مری نے کیا۔ اصغر مری کے خطاب کی باری آئی تو میں نے دھماکے دار خبر کے حصول کی کاوش کے تحت موبائل یہ سوچ کر تھام لیا کہ محمود اچکزئی سیکڑوں بلوچوں کے سامنے بولان تا چترال کا نعرہ لگائیں گے یا کہیں گے بلوچ ماما اب تم نے ایک یونیورسٹی کا نام بھی ہماری منشا کے تحت نہیں بدلا اب تمہارے ساتھ رہنا گوارہ نہیں، اب ہم اس صوبے کو کیک کی طرح کاٹیں گے۔ محمود اچکزئی نے کوئی بیس منٹ تقریر کی، ساری تقریر اینٹی اسٹیبلشمنٹ تھی میں منہ تکتا رہ گیا کہ کیا خوب موقع ہے، سبی کی دھرتی پر بلوچوں کو للکارنے کا کب، لیکن میری کاوش بے سود گئی، محمود اچکزئی صاحب نے ایک لفظ بھی بلوچ ساحل و وسائل اور امنگوں کیخلاف نہیں کہا۔
عمران حکومت چلی گئی، پی ڈی ایم کی نئی حکومت آگئی، پی ڈی ایم میں شامل تمام پارٹیوں نے اسٹیبلشمنٹ بارے چپ سادھ لی مگر یہ خاموشی تو انکے خاتمے کا سبب بنے گا، پشتونخوا ملی عوام پارٹی حالیہ چند عرصے سے اندرونی خلفشار کا شکار ہے، متعدد ارکان کو فارغ کردیا گیا، لامحالہ اس سارے عمل سے پارٹی بہت متاثر ہوئی ہے، اب اس سارے مخمصے سے نکلنے کے لیے عوام کے سامنے ان اندرونی معاملات پر مکمل خاموشی ہی واحد حل ہے۔
اسٹیبلشمنٹ سے صلح ہوگئی حکومت بھی مل گئی تو اب سیاست کس معاملے پر کریں، چلو سستا چورن بیچتے ہیں، لہٰذا اب بولان تا چترال کے نعرے دوبارہ بلند ہونا شروع ہوچکے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ بلوچ ساحل و وسائل کے باڈی گارڈ ہونے کے دعویدار سردار اختر مینگل کیا جواب دیتے ہیں۔
اختر مینگل اور محمود اچکزئی ایک ہی کشتی کے سوار ہیں مگر کیا اختر مینگل اس شدت سے بلوچوں کی امنگوں کی ترجمانی کرسکیں گے جس شدت سے نواب اکبر بگٹی نے کی تھی؟ یا نواز شریف آڑے آکر سیزفائر کرا دیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں