اکیسویں صدی میں قومیتی شناخت اور شہریت کے تنازعے:

تحریر: محمد صدیق کھیتران
آج کل عالمی میڈیا میں آئے روز قومیتی شناخت” National identity” پر نت نئی بحث ہورہی ہوتی ہے۔ 1990 کی دہائی میں یورپ اور دوسری مغربی دنیا میں ان معاملات پر شدت آئی۔اس کا پس منظر دو مراحل میں سامنے آیا۔پہلا جب 1989 میں کیمونسٹ سوویت یونین کا آہنی کڑا مقبوضہ قوموں کی گرفت پر ڈھیلا پڑنے لگا۔ اور جس کے سبب 15 سوویت ریاستیں اور 8 مشرقی یورپ کی کیمونسٹ ریاستیں البانیہ، بلغاریہ، چیکوسلواکیہ، مشرقی جرمنی، ہنگری، پولینڈ،رومانیہ اور یوگوسلاویہ اس بلاک سے الگ ہوکر آزاد منڈی Free market economy کی طرف مراجعت کر گئیں۔ بلکہ خود روس بھی کیمونسٹ نظام سے باہر نکل گیا پہلی عالمی جنگ کے بعد انتظامی اور جغرافیائی تقسیم کیلئے ایک اصطلاح بلقانائزیشن” Balkanization ” استعمال ہوئی تھی۔جس کا مفہوم یہ تھا۔کہ کثیرالاقومی ریاست کا چھوٹی نسلی بنیاد پر بٹوارہ ہوکر نئی ریاستوں کی تشکیل تھا۔اس اصطلاح کو عام فہم زبان میں بڑی ریاست کے اندر چھوٹی قوموں کے آپسی تنازعات پر مبنی جنگوں کو بھی لیا جاتا ہے۔ بلقانائزیشن کی وجہ سے پہلی جنگ عظیم کے بعد سلطنت عثمانیہ کا شیرازہ بکھرا۔البتہ 1991 میں سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد اس اصطلاح میں مزید وسعت آئی۔اب اس کا مطلب یہ بن گیا ہے کہ کسی بڑے وفاق کا چھوٹی قوموں میں منقسم ہوجانا اور اس کے نتیجے میں ڈکٹیٹر شپ کا قیام،نسل کشی اور خانہ جنگی جیسے انسان کش روجہانات کا پیدا ہونا ہے۔جس کی کچھ علامتیں افغانستان، صومالیہ اور پاکستان میں انتشار کی شکل میں اس وقت نظر آتی ہے۔یہی بلقانائزیشن کا ایک سلسلہ 1950 اور 1960 کی دہائیوں میں نوآبادیاتی طاقتوں "Colonial powers ” خاص کر برطانیہ اور فرانس کا افریقہ میں سے نکلنے کے بعد ہوا ہے۔1990/91 میں یوگوسلاویہ تتر بتر ہوا۔اس کے بدن سے 8 نئی ریاستیں نکلیں۔ دو عالمی جنگوں کے مظالم ان چھوٹی قومیتوں کی یاداشت سے 70 سالوں کے بعد بھی محو نہ پائے تھے۔جیسے ہی کیمونسٹ نظام کی سختی ہٹی ایک دفعہ پھر یہ چھوٹی قومیتیں آپس میں الجھ پڑیں۔اس دوران یوگوسلاویہ خون آشام حالات سے گزر کر 8 ریاستوں بوسنیا،کروشیا، سربیا، کوسوو، سلوانیہ، میسودونیا اور مونٹینگرو جیسی ریاستوں میں تقسیم ہوگیا۔یہی نسلی تنازعات آگے بڑھ کر آرمینیا اور آذربائیجان کی "نکورنو کاراباخ ” تک اب بھی موجود ہیں۔بوسنیا کی عیسائی سرب اکثریت، کروٹ قوم مسلم اقلیت کے بڑے بڑے گاوں پر قبضہ کرنے کیلئے 1992 سے 1995 تک اس کے دارلخلافہ سراجیو پر 1400 دنوں تک کا قابض رہیں۔ اس جنگ میں 10،000 آدمی بشمول 1500 بچے مارے گئے۔یہ تصادم بڑھتے بڑھتے چچنیا اور البانیہ تک جا پہنچا۔آخر کار نیٹو "NATO” کے ہوائی جہازوں نے سربیا کی فوجوں کو سراجیو کا محاصرہ چھوڑنے پر مجبور کیا۔ ان واقعات کو دہرانے کا مقصد یہ ہے کہ اس سے ملتی جلتی کیفیت افغانستان، پاکستان اور ایران میں اٹھتی نظر آرہی ہے۔ہمارے سینئر سیاستدان بعض اوقات بے معنی معاملات کو سیاسی موزوں بناکر تناو پیدا کرنے کے جرم میں حصہ ڈالتے ہیں۔یہ کوئی عام بات نہیں ہے۔کہ پورے خطے میں انتہاپسند جنگجو ایک دفعہ پھر متحرک ہیں۔ایک اندازے کے مطابق صرف عوامی نیشنل پارٹی کے 900 راہنما اور روشن خیال کارکن شعور کی طاقت پانے کی پاداش میں مارے گئے ہیں۔ دوسرے سیاسی حلقوں، پشتون تحریکوں اور خواتین کے سماجی کردار کو بزور طاقت دبایا جارہا ہے۔ بلوچ اس عزاب کو سہتے سہتے اپنی ایک پوری جوان باشعور سیاسی کھیپ اس آگ میں جھونک چکی ہے۔ہزارہ قبیلے کی پاکستان اور افغانستان میں نسل کشی کی مثال سب کے آنکھوں کے سامنے کے واقعات ہیں۔خواتین کی تعلیم پر یکسر پابندی لگادی گئی ہے۔یہ خلفشار نسلی،مسلکی اور مذہبی عدم رواداری کی طرف مزید سرعت کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔امریکہ کی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے 21 اکتوبر 2011 کو اسلام آباد کے دورے پر بڑی خوبصورت بات کی تھی۔ اگر آپ گھر کے پیچھے سانپ پالینگے تو اس سے یہ توقع نہ رکھیں کہ یہ سانپ صرف ہمسایوں کو ڈنگ ماریں گے۔
"keeping snake at backyard does not mean that they will bite only neighbourers”.
ایسے میں بے وقت کا راگ الاپنا ماحول کو مزید خراب کرنے کے مترادف ہے۔ہم نے تاریخی تناظر میں دیکھا ہے کہ قومیتوں کی شناخت میں 4 عوامل رہے ہیں۔ان میں پرامن ادغام (امریکہ)، بہ رضا اکٹھا ہونا (ہندوستان، انڈونیشیا،تنزانیہ اور کینیا وغیرہ) تشدد (ہٹلر دور میں یہودی) اور جبر (اسرائیل اور چند دیگر ممالک و قوموں کی تقسیم پنجابی، کشمیری، بنگالی، کرد، پشتون اور بلوچ) ان عوامل کے سبب ہوئے ہیں۔کئی ممالک میں وقت کے ساتھ یہ مسائل منظر سے Dilute ہوگئے ہیں مگر اکثر سرحدوں پر یہ مسائل اب بھی شدت کے ساتھ قائم و دائم ہیں۔کیونکہ ان خطوں میں موضوعی اور معروضی حالات Objective and Subjective conditions اسی طرح برقرار ہیں۔ان خطوں پر نوآبادیات طرز کی لوٹ کھسوٹ مقامی بالادست ریاستی قوتوں کے ہاتھوں بے دردی سے جاری ہے۔یہ کوئی کم عزاب نہیں ہے۔جن خطوں میں گیس نکلتی ہے ہو وہاں مقامی دیہاتوں کو گیس نہ ملے۔جن خطوں میں بجلی اور وافر پانی موجود ہو ان کو زمین آباد کرنے کے لئے دریائی پانی نہ ملتا ہو۔جہاں سونا اور تانبا نکلتا ہو وہاں کی عوام کو یہ بھی نہیں بتایا جائے کہ ہم کتنا خزانہ نکال کرلے جارہے ہیں۔جس ساحل کے وارث کہہ رہے ہوں کہ ریاست غیرملکی ٹرلروں کو ساحل پر آنے اور غیرقانونی شکار سے روکے۔الٹا ان پر کریک ڈاون کیا جائے۔جن کا کاروبار سرحد سے جڑا ہو اس پر دوسری قوم کا بندوق بردار آکر کھڑا ہو کہ میں تجارت کرنے نہیں دونگا۔ لوگ جمہوریت میں حصہ ڈالنے کیلئے اپنا ووٹ ڈالنے گھروں سے نکلیں مگر ایک بدکردار” فرید” نام کا افسر پوری اسمبلی کا پیشکی سودا طے کرکے ووٹ چوری کرلے۔تو پھر ایسے مسائل جنگ و جدل کیلئے میدان تیارکرتے ہیں۔
یورپین یونین کے بانی سچمین ” Schuman” اور جین مونٹ "Jean Monut ” کے مطابق یورپ کے اندر دونوں عالمی جنگوں کی وجہ منفرد اور انتہاپسند نسلی بالاتری پر اسرار تھا۔جس نے پوری دنیا اور خاص کر یورپ اور جاپان کو تباہی سے دوچار کیا۔لہزا یورپین یونین کے بانیان Founders نے اس کا توڑ یہ نکالا کہ 1951 میں بڑے بڑے یورپی ممالک مثلا” فرانس،بلجیئم، اٹلی، ہالینڈ اور لگسنمبرگ نے جرمنی پر اسٹیل اور کوئلہ نکالنے اور بیچنے پر پابندی لگادی۔جرمنی کو بجائے نئے ہتھیار بنانے کے تجارت اور معاشی و اقتصادی تعاون جیسی سرگرمیوں پر لگادیا۔جس سے دو صدیوں سے جاری جنگی مناقشوں کا ماحول وہاں سے ٹوٹا۔یہی کوئلہ اور اسٹیل پہلے مرحلے میں یورپ کی ” یورپین اکنامک کمیونیٹی” European Economic Community بنا. جو بعد میں یورپین یونین”Eurpean Union” جیسی تنظیم بن گیا۔جس میں اب براعظم یورپ کے 28 ممالک شامل ہیں۔یورپین یونین کے بانیان نے جان بوجھ کر چھوٹے یورپین ممالک کی قومی شناختوں کو کمزور کرنا مناسب سمجھا۔ان کے نزدیک ایک دوسرے پر انحصار یورپ کی آپس کی جنگوں کے خاتمے کا باعث بنے گا۔یہ تصور بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں عملی شکل میں ڈھلنا شروع ہوا۔ ان کی سوچ کامیاب ہوئی۔جرمنی اور فرانس جوکہ ایک دوسرے کے شدید مخالف ہوا کرتے تھے۔آج ان میں جنگ کے آثار دور دور تک نظر نہیں آتے۔اب تو حالات ایسے بدل گئے ہیں۔ کہ ایک یورپی بچہ کسی ایک ریاست میں جنم لیتا ہے۔ وہ پڑھتا کسی اور ریاست میں ہے۔شادی کسی اور ملک میں کرتا ہے اور کاروبار کسی نئے ملک میں کرناپسند کرتا ہے۔ وہاں پر معاشی سرگرمیوں نے نسبتا” کمزور ملکوں جیسا کہ یونان وغیرہ کیلئے نئی راہیں نکالیں۔ مثلا” 1990 کے اقتصادی بحران میں جرمنی نے اپنے قومی مفاد میں یونان کی مالی اعانت کی حالانکہ جرمن تاریخی طور پر یونان سے شدید نفرت کرتے تھے۔ اس دوران یورپ میں خوشحالی آئی۔تیسری دنیا اور خاص کر ترقی پذیر ممالک ترکی،،ہندوستان، پاکستان اور مراکش سے لوگوں نے جرمنی اور یورپ کو ہجرت کی۔وہ گئے تو عارضی روزگار کیلئے تھے مگر ادھر ہی بس گئے۔بلکہ اپنے خاندانوں اور عزیزو اقارب کو بھی وہاں پر بلالیا۔ اچانک حالات بدلے۔ 1991 کی سرد جنگ کے خاتمے نے مشرقی یورپی اقوام کیلئے وہاں پرکام کرنے کے راستے ہموار کئے۔ مگر افغانستان کے اندر انتشار پھیلا۔ امریکہ،جنگی سوچ ان کے منہ پر تھوک کر واپس چلا گیا۔مزہبی انتہاپسندی Radicalism کے بیج القاعدہ کی شکل میں پہلے سے ہی بوئے جاچکے تھے۔ 1987 میں راقم کراچی میں پڑھتا تھا۔ پاکستان چوک کے قریب پرانا ایک مٹھارام ہاسٹل یوتا تھا۔وہاں پر پارسی آبادی اور ان کے بڑوں کی تعمیر شدہ مشہور درسگاہیں ڈی جے کالج، ایس ایم لا کالج قائم تھے۔ہماری بدقسمتی ان بڑے ناموں اور خدمات کو ہم نے محض ان کے عقیدے کی وجہ سے قومی تاریخ سے مٹادیئے۔ بہرحال یہ جگہ کراچی صدربازار سے چند کلو میٹرز کے فاصلے پر موجود ہے۔ اس وقت 14 جولائی 1987 کو بوہرہ بازار میں دو شدید دھماکے ہوئے۔جن سے زمین کے لرزنے کا احساس ہمیں اپنے کمروں میں اس طرح ہوا کہ کہیں مٹھارام ہاسٹل کی چھت نہ گر پڑے۔مختصر یہ ہے کہ ہم جب جائے واقعہ پر پہنچے تو پتا چلا کہ دو طاقتور بم پھوڑے گئے تھے۔ہرطرف لاشیں ہی لاشیں بکھری پڑی تھیں۔اس ہجوم میں ایک نوجوان بھی لوگوں کی مدد کررہا تھا۔اور زخموں کو گاڑیوں اور رکشوں میں بھر بھر کر قریب ہی سول ہسپتال لے جارہا تھا۔جہاں زخمیوں کے پاس دوائی کے پیسے نہ تھے اور وہ نوجوان ہمارے سامنے روڈ پر کھڑا ہوکر چندہ جمع کرنے لگا۔وہ پیسے اتنے بابرکت نکلے کہ آج ملک بھر میں اس کی بنی ہوئی ” چھیپا ایسوسی ایشن” کے پاس 700 کے قریب ایمبولینسیں چلتی ہیں۔ یہ فلاحی تنظیم روزانہ 50 ہزار بھوکوں اور ناداروں کیلئے کھانا الگ بناتی ہے۔اس کی خدمات کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے مگر آپ اگر موضوعی حالات کو درست نہیں کرینگے تب پھر ان المناک واقعات کا سلسلہ ختم نہیں ہوگا۔بلکہ یہ ایک کاروبار کی شکل اختیار کرلے گا۔یہ سارا گندا کھیل ایک آمر جنرل ضیا، امریکہ اور سعودی عرب کا پیدا کردہ ہے۔ کچھ سال بعد پتہ چلا وہ زخمیوں کو لے جانے والا خوش شکل اور متحرک نوجوان بڑا ہوکر محمد رمضان” چھیپا ویلفئر ایسوسی ایشن” کا سربراہ بنا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ 1990 کی دہائی میں بھی حکومتیں گراتی رہی۔ وہ بے کار کا ہیبرائڈ نظام چلانے کیلئے اپنا پیسہ اور وقت برباد کرتے رہے۔دکھ کی بات یہ ہے کی ابھی تک توبہ تائب نہیں ہوئے۔بلکہ نئی نئی حرکات کرتے نظرآتے ہیں۔ برصغیر کے دو ممالک ہندوستان اور پاکستان ایٹم بم اوراس کی ڈلیوری کے میکینزم پر غریب عوام کی آمدنی لگاتے رہے۔ وہ عوام کو بھوکا رکھتے رہے۔کارگل جیسی مہم جوئی کی جاتی رہی۔ اس دوران 11 ستمبر 2001 میں نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ ہوا۔ پھر 11 مارچ 2004 کو اسپین کے شہر میڈرڈ کے ریلوے اسٹیشن پر حملہ ہوا جہاں پر 193 افراد جان سے گئے۔القاعدہ اور مذہبی جنون نے اس پر بس نہیں کی بلکہ 7 جولائی 2005 کو 4 خودکش بمباروں کے ذریعے لندن پر حملہ کردیا۔ جسمیں 54 شہری مارے گئے۔ ان سب کے تانے بانے افغانستان اور پاکستان سے ملتے رہے۔چونکہ یہ حملے یورپ میں آباد مسلمان نوجوان تارکین وطن نے کیئے۔اسلیے وہاں پر مسلمانوں کے خلاف نفرت و عناد بڑھنے فطری عمل تھا۔ہالینڈ میں باقی یورپ کی بہ نسبت زیادہ مسلمان تاریکین وطن Migrants رہتے ہیں۔وہاں پر مسلمانوں کے خلاف نفرت زیادہ بڑھنے لگی۔ایک ہم جنس پرست مقامی سیاست دان پم فورچین "Pim Fortune” نے کھلے عام مسلمان تارکین وطن "imigrants "کے خلاف مہم چلائی۔اس کا کہنا تھا کہ مسلمان ہالینڈ کی ثقافت سے مطابقت نہیں رکھتے۔ایک دن مئی 2002 کو ریڈیو اسٹیشن کے باہر پم فورچین پر کسی غیر مسلم مگر جانوروں کے حقوق کا خیال رکھنے والی تنظیم کے کارکن نے حملہ کیا جس کی وجہ سے ان کا قتل ہوگیا۔ ماحول میں بے چینی بھرنے لگی۔پھر 2004 کو ایک فلم ساز "Theo Vant Gogh” کو ایک مسلمان محمد بوہری جوکہ مراکش نڑاد ہالینڈ کا تاریک وطن باشندہ تھا اس نیان کو توہین مزہب پر فلم بنانے پر قتل کردیا۔۔۔۔۔۔جاری
آخر میں کل بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں پختون خواہ ملی عوامی پارٹی کی پانچویں کانگریس ہوئی۔جس میں پختون قوم کے سیاسی کارکنوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔خاص کر خواتین کی سیاسی عمل میں شرکت کافی حوصلہ افزا تھی۔یہ ایک پرمسرت موقع تھا ماسوائے ایک بے چینی کہ سیاسی قوتوں کی تقسیم کے نتائج اچھے نہیں نکلتے۔مشر محمود خان اچکزئی نے اس خطے کی بڑی خدمت کی ہے۔وہ پچھلی تقریبا” نصف صدی سے پسماندہ قومو ں کا نمائندہ بنا رہا ہے۔ اور اخلاص کے ساتھ اپنی آواز بلند کرتا رہا۔جمہوری سیاست میں اختلاف کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے۔ مگر وہ اسمبلی اور سیاسی اجتماعات میں ایک منفرد و موثر آواز بنا۔ہماری خواہش ہے کہ نوجوان خوشحال خان کاکڑ اس پورے خطے کی غریب اور متوسط طبقے کی آواز بنے۔مگر اپنے بزرگوں کی تعظیم اور وقار کا خیال رکھنا بھی ہماری تربیت کا بنیادی عنصر ہے۔بلوچ قوم کے اندر اس تقسیم نے بہت خون خرابہ اور بگاڑ پیدا کیا تھا۔مشر محمود خان اچکزئی اور جوان فکر خوشحال کاکڑ،رضا محمد رضا و بابت لالہ کو جلد سے جلد ان فاصلوں کو کم کرنے کی مشترکہ سعی کرنی چاہیئے۔ ہماری خواہش ہے کہ اللہ پاک پشتون قوم کی جملہ مشکلات کو آسان کرے۔