یہ سیاست نہیں منافقت ہے

تحریر: ڈاکٹر سمیرا زہری
سیاسی تبدیلیوں کا مرکز ہمیشہ بلوچستان رہا ہے، سیاسی ہواؤں کا رخ ہمیشہ بلوچستان سے شروع ہوکر باقی صوبوں کی طرف رواں ہوتا ہے، یہاں کے سیاسی مداری، مسلط گروہ ارب پتی سے کھرب پتی بن جاتے ہیں، انہی سیاسی بدلتی ہواؤں کی بدولت لیکن یہاں کے باسیوں کی حالت زار میں کبھی کوئی تبدیلی رونماء نہیں ہوسکی، ہمیشہ بلوچستان میں حقیقی لیڈر شپ کے نعرے لگتے رہے ہیں، کئی نوجوانوں کو سیاسی مقاصد کے لیے سیاسی نعروں میں لگا کر ان کا مستقبل برباد کردیا گیا، کئی گھر تباہ ہوگئے، سیاسی ورکر سمجھ کر، سیاست دان امیر سے امیر تر بنتے رہے مگر بلوچستان کی حالت نہیں بدلی، عام عوام کل بھی آسمان تلے زندگی گزار رہے تھے تو آج اس سے بھی بد تر حال ہے۔ تعجب ہوتا ہے ان حکمرانوں پر جو اکیسویں صدی میں بھی منافقانہ سیاسی گہما گہمی میں مصروف عمل ہیں اور عام عوام کے حقوق دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔ ان سیاسی حکمرانوں نے تعلیمی نظام کو کبھی تکمیل تک پہنچانے کی کوشش نہیں کی، تعلیمی حوالے سے آج تک کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی جو تعلیمی نظام ہمیں میسر ہے وہ اب دنیا کے کسی کونے میں بھی قابل قبول نہیں، باقی خطوں میں جدید تعلیمی تقاضوں کے عین مطابق تعلیمی منصوبہ بندیاں کی گئی ہیں مگر ہمارے ہاں وہی پرانی روایات موجود ہیں، اسی طرح آج تک حقیقی معنوں میں کوئی سیاسی جماعت نہیں بنی اور نہ ہی کوئی سیاسی رہنما بن سکا بلکہ دھوکہ دہی اور فریبی جماعتیں مسلط ہوئیں، کوئی حقیقی سیاسی عمل جنم نہیں لے سکا، یہی وجہ ہے کہ سیاسی لوگ، سیاستدان کم سوداگر زیادہ نظر آنے لگے۔ بلوچستان کی محرومیوں کے ذمہ دار بلوچستان کے منتخب نمائندے ہیں جنہوں نے اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے صوبے کو تباہی کی طرف گامزن کیا، سیاست پر مسلط موروثی سیاست کرنے والی قوتوں نے یہاں کے ساحل و وسائل کی سوداگری کرتے ہوئے صوبے کو منڈی بنا رکھا ہے۔ عام عوام کا اعتماد حاصل کرنے کے لئے جھوٹے نعرے لگاکر عوام کے ساتھ بڑے بڑے وعدے کیے جاتے ہیں مگر اقتدار اور مراعات پانے کے بعد عوام کی خوشی و غم کی پرواہ کیئے بغیر عوام سے توجہ ہٹا دی جاتی ہے۔ بلوچستان کو حقیقی لیڈرز کی ضرورت ہے جو کہ عوام کا درد اس طرح محسوس کریں جس طرح ایک ماں اپنے بچوں کا درد محسوس کرسکتی ہے، بلوچستان میں حقیقی سیاسی ماحول تب پیدا ہوگا جب عام عوام آواز بلند کریں گے، مسلط طبقے کے خلاف سیاسی انقلاب کا اعلان کرنے کا حوصلہ ہوگا۔ بلوچستان میں حقیقی لیڈر شپ تب پیدا ہوگی جب شعور بیدار ہوگا جب نوجوان نسل اپنے کندھوں پر رکھی ذمہ داریوں سے عہدہ براہ ہوں گے۔ انہی غیر سیاسی اور غیر سنجیدہ سیاستدانوں کی وجہ سے کوئٹہ ٹو کراچی شاہرہ ڈبل نہ ہوسکی، جس سے سیکڑوں افراد موت کے منہ میں چلے گئے، کئی نوجوان، بوڑھے، بچے زندگی بھر کے لیے معذور بن گئے، سیلابی تباہ کاریوں کے دوران اور اسکے بعد جو صورت حال پیدا ہوئی ہے ان سب کے ذمہ دار یہی نومولود سیاست دان ہیں۔ اس ملک کو اور اس صوبے کو نیوٹرل قیادت کی ضرورت ہے جو عوامی قوت کو اہمیت دیتی ہو جو اجتماعی معاملات سلجھانے کی صلاحیت رکھتی ہو، جس کے پاس جدید طرز حکومت اجاگر کرنے کی صلاحیت ہو۔ جو انفرادیت کو ایک طرف رکھتے ہوئے اجتماعی معاملات کو ترجیح دیتی ہو، جو قوم و دھرتی کی درد سمجھتی ہو۔ جو تعلیمی نظام کو جدید تعلیمی نظام سے روشناس کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ لوٹ کھسوٹ سے بالاتر ہوکر حقیقی سیاسی عمل کو زندہ رکھنے والی قیادت ہی ان تمام مسائل کا حل ہے بصورت دیگر یہ مسلط طبقہ انفرادی نظریے کی بنیاد پر عام عوام کو دھوکہ دہی اور منافقانہ سیاسی سرگرمیوں میں مبتلا کرکے جمہوریت کا مذاق اڑاتے ہوئے عام عوام کے حقوق ہڑپ کرتے رہیں گے۔