بلوچ پارلیمانی سیاست کی کمزوریاں اور درپیش چلینجز
تحریر: سعد بلوچ
بلوچستان کی زمین پر جدید قومی سیاست کی ابتدا 1920ء میں مستونگ کے مقام پر ہوئی۔ یہ تحریک انگریز سامراج سے آزادی سمیت جدید بلوچ قومی جمہوری ریاست کی تشکیل کے لیے تھی۔ جس نے موجودہ بلوچ قومی سیاسی تحریک کو اب تک جلا بخشی ہوئی ہے۔
تاہم وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ معروضی حالات بدلتے رہے ہے۔ ون یونٹ کا خاتمہ بلوچ سیاست کا عروج ثابت ہوا۔ تاریخ نویس نیشنل عوامی پارٹی کی سیاست اور 1970ء کے واحد شفاف انتخابات کو بلوچ قومی سیاست کا سنہرا دور لکھتے ہیں۔ یہ وہ قت تھا کہ جب ولی خان کی قیادت میں بلوچوں کے بڑے برج بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو، نواب خیر بخش مری، سردار عطا اللہ مینگل، ڈاکٹر حئی بلوچ کے قومی سیاست پر مشترکہ براہ راست اثرات تھے۔ تاہم اگر ہم اس وقت کی صوبائی اسمبلی کا جائزہ لیں تو اس وقت بھی بلوچ سماج بری طرح سے شخصیات کے اردگرد منقسم تھا۔ 1970ء کی شاندار کامیابی کا خلاصہ یہ ہے کہ پہلی صوبائی اسمبلی کے لیے نیشنل عوامی پارٹی کے حصے میں کل 20 نشستوں میں سے صرف 8 نشستیں آئیں۔ جب کہ 5 آزاد امیدوار بھی کامیاب ہوئے۔
1970ء سے تاحال بلوچ آبادی پر مشتمل بلوچستان کث ڈویژنز کا جائزہ لیا جائے تو قوم پرست سیاست کی چھاپ مکران، ساراوان، جھالاوان اور رخشان کے علاوہ آدھے سے زیادہ آبادی بلوچ آبادی رکھنے والے جتنے بھی ڈویژنز ہیں، وہاں آج تک بلوچ قوم پرست سیاست خاطر خواہ طور پر منظرعام پر نہیں آسکی ہے۔ مکران وہ واحد ڈویژن ہے جہاں سیاست کسی حد تک تنظیمی سطح پر وجود رکھتی ہے۔ جبکہ اس کے علاوہ باقی ماندہ قوم پرست حلقوں پر مشتمل ڈویژنز میں سیاست دیگر غیرقوم پرست حلقے والے ڈویژنز کی طرح شخصیات کی محتاج اور سطحی نظر آتی ہے۔ جسے تبدیل کرنے کے لیے فیصلہ کن تنظیمی جدوجہد ناگزیر ہے۔
سخت گیر قوم پرست حلقوں اور ریاستی جبر کے درمیان جاری کشمکش کے نتیجے میں جو سیاسی خلا پیدا ہوچکا ہے، اس کے اثرات کی وجہ سے بلوچ قوم پرست پارلیمانی حلقے نہایت کمزور پوزیشن میں آچکے ہیں۔ ایک طرف اس خلا کو ریاستی سرپرستی میں منظور نظر شخصیات کے ذریعے بار بار کامیاب ٹرانسفر پوسٹنگ، ٹھپے ماری اور روپے کی بڑے پیمانے پر ریل پیل کے ذریعے پر کیا جایا رہا ہے اور دوسری طرف حقیقی جمہوری ترقی پسند قوم پرستی کی دعویدار سیاسی جماعتیں تنظیمی اقتصادیات، نااہلی و کرپشن سے لیکر نظریاتی و فکری کیڈر سازی کے عمل تک بحران زدہ ہوچکے ہیں۔ یہ نکتہ آنے والے وقتوں میں قومی قیادت کو لے کر ایک اور بڑے بحران کا باعث بن رہا ہے۔
عوام روز بروز مایوسی کی طرف جارہے ہیں جس کی مثال، ساحل و وسائل کے نعروں کی گونج میں گوادر، سیندک اور اب ریکوڈک جیسی بلا کے قومی منصوبے ظالم حکمرانوں نے اپنی مرضی کے مطابق ہم سے چھین لیے اور ہم دیکھتے رہ گئے اور زندہ باد و مردہ باد چلاتے رہے۔ پارلیمان میں بلوچستان کے حصے کی اہمیت کتنی ہے، یہ ایک اور الگ بحث ہے۔
بہرحال، جو عوامی حمایت دہائیوں سے ان پارلیمانی قوم پرست قیادت کو حاصل رہی ہے وہ اب بیزاری کی طرف دھکا کھاتے اپنے نظریہ ضرورت کے مطابق قبائلی شخصی کیمپس میں منتقل ہورہی ہے۔ یا پھر لوگ سیاست سے کنارہ کشی اختیار کررہے ہیں یا پھر آخر میں سخت گیر قوم پرست مؤقف کی طرف مائل ہورہے ہیں۔ مضحکہ خیزی کی بات ہے کہ تینوں صورتوں میں وہ ہارے ہوئے گھڑ سوار ثابت ہو رہے ہیں جو مسلسل اندھیرے میں تیر چلا رہے ہوتے ہیں۔
تاہم جو کچھ بھی ہے، وہ آنے والے مستقبل قریب میں پرامن سیاسی و جمہوری جدوجہد کرنے والوں کے لیے نیک شگون ثابت نہیں ہوگا۔ اس سے مجموعی طور پر نقصان صرف بلوچ اور بلوچستان کا ہو رہا ہے۔ 60 فیصد سے زائد عوام غربت کی لکیر سے نیچے جاچکے ہیں اور بدستور جارہے ہیں جو پوری دنیا کے کسی بھی خطے سے زیادہ اور تشویش ناک ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ تنظیم کی اہمیت اور فوقیت کو سمجھا جائے ان تمام چیلنجز کو مدنظر رکھتے ہوئے فقط سائنسی بنیادوں پر اپنی تنظیمی کمزوریوں اور عملی طور پر پبلک موبلائزیشن کے لییے سیاسی جدیات کو اپنایا جائے، نیز آنے والی طوفانی ہواؤں کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی تنظیمی صلاحیتوں کو تیار اور توانا رکھنے کے لیے اقدامات پر نظرثانی کی جائے۔ اس کے لیے یہ جاننا نہایت ضروری ہے کہ آج بلوچ نوجوانوں کی ضروریات کیا ہیں؟ قوم آپ سے کیا مانگ رہی ہے؟ اس کے لیے تنظیمی مفاد میں خواہ وقتی طور پر سخت فیصلے بھی لینے پڑیں تو لے لیے جائیں۔
پارلیمانی گروپ اور تنظیمی کیڈر کی اہمیت اور فوقیت میں تمیز کرتے ہوئے پارلیمانی گروپ کو تنظیم کے زیراثر کرنا چاہیے۔ پارلیمانی سیاست اور پرامن مزاحمتی سیاست کو ساتھ ساتھ چلاتے ہوئے ترازو کے دونوں پلڑوں میں تناسب قائم کیا جائے۔ الغرض پارلیمانی سیاست کے لیے انتخابات اہمیت ضرور رکھتے ہیں تاہم صرف انتخابی سیاست کے مفاد میں پرامن مزاحمتی سیاست سے کنارہ کشی تنظیم کو فرد سے دور لے کر جا رہی ہے جس کے نتیجے میں آج پڑھا لکھا بلوچ نوجوان پارلیمانی قوم پرست سیاست سے ناراض اور مایوس دکھائی دیتا ہے۔ اس کا جلد تدارک قومی پارلیمانی سیاسی جماعتوں کی ذمے داری ہی نہیں، اولین ترجیح بھی ہونا چاہیے۔