بلوچستان میں پہلے نمائندے بکتے تھے اس بار پوری حکومت بکی ہے، ڈاکٹر مالک

تربت (انتخاب نیوز) نیشنل پارٹی کیچ کے زیر اہتمام کلگ تربت میں احتجاجی جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے مرکزی صدر سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ بلوچستان بارڈر پر ہونے والے تجارتی سرگرمیاں ٹوکن نظام اور انتظامی بدنظمی کی وجہ سے متاثر ہیں۔ تربت میں سرکاری اراضیات قبرستان کے لیے بھی نہیں بچی ہے۔ سرکاری اراضیات صوبائی وزرا اور ان کے نمائندوں نے جعل سازی سے اپنے نام کرلی ہیں۔ بلوچستان میں پہلے نمائندے بکتے تھے اس بار پوری حکومت بکی ہے۔ سیاسی انجینئرنگ سے قائم حکومت میں چپراسی کی پوسٹ سے لیکر ہر شے برائے فروخت ہے۔ بلوچستان میں مداخلت اور ٹھپہ سیاست کی وجہ سے حالات دن بدن خراب ہوتے جارہے ہیں۔ 2018 کے انتخابات کے نتیجے میں قائم حکومتوں نے ملک کا بیڑا غرق کردیا ہے مہنگائی نے عوام کا جینا محال کردیا ہے موجودہ حکومت بھی گزشتہ کی طرح آئی ایم ایف کے ڈکٹیشن پر ہے۔ مرکزی سیکرٹری جنرل جان محمد بلیدی نے کھاکہ موجودہ حکومت گزشتہ کا تسلسل ہے حکومت میں شامل بعض پارٹیاں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے حصے تھے لیکن نیشنل پارٹی اس حکومت کا حصہ نہیں ہے انھوں نے کھاکہ اخترجان مینگل، ایم کیو ایم اور باپ گزشتہ پی ٹی آئی حکومت میں بھی تھے اس میں بھی ہیں۔ پیپلزپارٹی حکومت سے قبل پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ سے الگ ہوچکا تھا۔ انھوں نے کھاکہ چھ نکات اور لاپتہ افراد کے نام پر مفاد پرست قبائلی قوم پرست ٹولے نے عوام کے مینڈیٹ کے ساتھ فراڈ کیا اور ان کے چیرے اب بے نقاب ہوچکے ہیں۔ انھوں نے کھاکہ بلوچستان کی شعوری سیاست میں مفاد پرست روایتی لیڈرشپ کی گنجائش اب نہیں ہے انھوں نے کھاکہ کچھ لوگ سوشل میڈیا میں انقلابی اور سرمچار ہیں عملا وہ باپ اور اس کے پروردہ پارٹیوں کے ووٹر ہیں ہر بار نئے نام سے سامنے آتے ہیں اور آئندہ پھر کسی نئے باپ پارٹی کا حصہ بنیں گے۔ انھوں نے کھاکہ مکران بارڈر پر کام کرنے والوں کے ساتھ ناانصافی ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا گزشتہ سیاسی تحریک کے دوران جن جن لوگوں کے گاڑیوں کے رجسٹریشن منسوخ کئے گے ہیں انھیں فوری طور پر انتظامیہ بحال کریں اور سیاسی کارکنوں کے وارنٹ ختم کریں اور چھاپوں کا سلسلہ جو سابق وزرا کے کہنے پر کیا جارہا ہے بند کیا جائے۔ جلسہ عام سے نیشنل پارٹی کے رہنما جسٹس ریٹائرڈ شکیل احمد بلوچ، واجہ ابوالحسن بلوچ، بوھیر صالح، مشکور بلوچ، نثار بزنجو، فضل کریم اور طارق بابل نے بھی خطاب کیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں