خواتین کا عالمی دن اور بلوچستان میں صنفی عدم مساوات کی حالت زار

تحریر : محمد صدیق کھیتران
1760ءمیں دنیا میں صنعتی انقلاب شروع ہوچکا تھا۔پہلا مرحلہ بھاپ کے انجن سے شروع ہوا جس کے پیچھے پانی اور کوئلہ کا بڑا کردار تھا۔اگلے مرحلے میں بجلی نے صنعت میں انقلابی تبدیلیاں لائیں جس کا سبب گیس اور تیل کی دریافت بنا۔ماہرین صنعتی انقلاب کے تیسرے دور کو الیکٹرانکس اور انفارمیشن کا صنعتی دور کہتے ہیں۔جس میں جدت نیوکلیئرٹیکنالوجی اورتانبہ کی دھات لائی۔ بہرحال ارتقا کا یہ سلسلہ تیزی سے پانچویں اور چھٹے صنعتی انقلاب یعنی مصنوعی ذہانت، خلیاتی انجینئرنگ اور عالمگیریت کی طرف لے جا رہا ہے۔ان صنعتی انقلابات نے بنی نوع انسان کے رہن سہن میں بنیادی تبدیلیاں لائیں۔ پیداوار میں نہ صرف اضافہ ہوا بلکہ اس کی پائیداری اور ارزاں دستیابی نے دنیا ہی بدل ڈالی۔درمیانہ طبقہ پہلی دفعہ حکمرانی کے کردار میں آیا۔مارکیٹ آزاد ہوئی انسانوں اور معاشروں کے درمیان ایجادات اور ذہانت کے مقابلے کا میدان سجا۔ ایک دو صدی میں بڑے بڑے شہر بننے لگے۔ دیہات سے زرعی محنت کش شہروں کی طرف ہجرت کر گئے۔سرمایہ دارانہ نظام دنیا پر چھا گیا۔بنیادی ضروریات اور انسانی مسائل بھی پیچیدہ شکل میں سامنے آئے۔ ابھرتے معاشرتی مسائل کو نمٹنے کیلئے بنی نوع انسان کو اپنی زندگی کے معمولات میں کئی تبدیلیاں لانا پڑیں جس کے نتیجے میں معاشروں میں نئی جہتیں در آئیں۔ خواتین میں بدلتی زندگی کے ساتھ ہم سفر ہونے میں دشواریاں سامنے آنے لگیں۔ عورت کو ماں، بہن اور بیٹی جیسے لطیف احساسات کے باوجود یہ احساس جانگزین ہونے لگا کہ جس برق رفتاری سے دولت کا ارتکاذ چند لوگوں کے پاس ہونے لگا ہے۔ اسی رفتار سے انسانی رشتوں کا احساس بھی کمزور ہوتا جارہا ہے۔ ان کے نزدیک عورت کو بطور جنس کے جس برتاﺅ کا سامنا صدیوں کے جاگیردارنہ نظام سے چلاآرہا تھا اس پرصنعتی انقلاب نے مرہم نہیں رکھا۔ بلکہ عورت گھروں، کھیتوں اور کارخانوں میں پہلے کی طرح نا ہموار رویوں سے زندگی بسرکرنے پر مجبور ہے۔گوکہ یہ روئیے اپنا ایک ماضی رکھتے تھے مگرنئے صنعتی دور میں شعور کا ارتقا اس تاریخی پس منظر کو سمیٹنے کی بجائے اس میں شدت لانے کا باعث بنا۔
چنانچہ 15000 خواتین نے 1908ءمیں امریکہ کے شہر نیویارک میں پہلی دفعہ کاموں کے اوقات میں تخفیف ، مناسب تنخواہوں اور ووٹ کے حق کیلئے ہڑتال کی۔ اگلے سال 1909ءکو امریکن سوشلسٹ پارٹی نے پورے امریکہ میں 28 فروری کو خواتین کا دن منایا۔ یہ دن بعد میں 1913ءتک فروری کے آخری اتوار والے دن منایا جاتا رہا۔
1914ءمیں پہلی عالمی جنگ شروع ہوئی تو روسی خواتین نے 23 فروری کو پہلاعالمی دن اپنی سر زمین پرمنایا۔چونکہ جنگوں کی زیادہ مشکلات بچے اور خواتین سہتی ہیں اس لیے امریکہ، یورپ اور روس میں خواتین کا جنگ بندی کیلئے مظاہروں کا نہ تھمنے والا سلسلہ چل پڑا۔ چنانچہ 1917 میں روسی خواتین نے 20 لاکھ افراد کی جنگ میں ہلاکت پرچار دن تک مسلسل "روٹی اور پھول” کے نعرے پر ہڑتال کی۔بلاخر ” زار "نے اقتدار چھوڑا اور پھر صوبائی حکومت نے خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق دے دیا۔دو عالمی جنگوں سمیت کئی علاقائی مناقشوں ، وبائی امراض ،ناگہانی آفتوں اور قحط سالیوں کے نتیجے میں جو جو مصائب کا سامنا انسانیت نے کیا اس کا سب سے بڑا بوجھ خواتین اور بچوں کو اٹھانا پڑا۔
اقوام متحدہ نے 1999ءکو ہر سال 8 مارچ کو یکساں طور پر پوری دنیا میں منانے کا اعلان کیا۔ اب یہ دن خواتین کے عالمی سطح پر سماجی رتبے، معاشی برابری اور انصاف کے حصول کا ذریعہ بن چکا ہے۔ جن کے مقاصد میں صنفی مساوات کے بارے میں آگاہی اور معاشرے میں خواتین کی فلاح و بہبود کیلئے فنڈ اکٹھا کرنا شامل ہے۔ اقوام متحدہ ہر سال کیلئے اس دن کی مناسبت سے ایک موضوع یعنی "تھیم” جاری کرتی ہے۔اس سال 2023ءکیلئے اس کا عنوان "DigitALL "ڈیجیٹل : صنفی مساوات کی جدت اور ٹیکنالوجی رکھا گیا ہے۔
عدم صنفی مساوات ارادتا” ہو یا پھر غیر ارادتا” ہو جس شکل میں ہو وہ خواتین کے آگے بڑھنے کی راہ میں مشکلات پیدا کر رہا ہے۔یہ جانناکہ صنفی عدم مساوات کا تعصب مردوں کے حاکمانہ طرزعمل میں موجود ہے۔کافی نہیں بلکہ اس کے خلاف اقدامات اٹھانا ضروری ہے تاکہ خواتین کو برابری کا مقام مل سکے۔خواتین کے دن کو تین رنگوں یعنی جامنی ، سبز اور سفید رنگ کی قوس سے شناخت دی گئی ہے جس میں جامنی رنگ انصاف اور وقار ، سبز رنگ امید اور سفید پاکیزگی کی نمائندگی کرتا ہے۔ تاریخی طور پر دیکھا جائے تو کم و پیش ایک جیسے مسائل کا سامنا خواتین کرتی آئی ہیں۔جن میں چند ایک درج زیل ہیں۔
1 خواتین کو ووٹ کا اختیار و آزادی
2 تولیدی مسائل اور اس سے جڑی مشکلات
3 چلنے پھرنے اورمناسب ماحول میں رہنے کے حقوق
4 صنفی مساوات
5 جنسی تعصب پر متشددانہ رویوں کا سامنا
6 کام کے دوران جنسی ہراسگی
7 دفتروں اور کام والی جگاہوں پر امتیازی سلوک
8 تعلیم کے حصول میں سماجی رکاوٹیں
9 روزگار کے حصول میں نابرابری
10 ماں کی صحت اور خوراک کی کمی
11 بچپن کی شادیاں
پاکستان کا آئین اپنے آرٹیکل نمبر 25 اور 26 میں بچوں اور خواتین کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔اسی طرح آرٹیکل 27 برابری اور روزگار کے یکساں مواقعوں کو تحفظ دیتا ہے۔جبکہ آرٹیکل نمبر 11 اور 37 خواتین کی جبری اغواکاری اور جسم فروشی کی ممانعت کرتا ہے۔
الیکش کمیشن ایکٹ 2017ءمیں عورتوں کے انتخابات میں حصہ لینے کی ممانعت کو جرم قراردیا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن سیاسی جماعتوں کو بھی پابند کرتا ہے کہ وہ جنرل سیٹوں پر 5 فیصد ٹکٹیں خواتین کیلئے مختص کریں۔ یہ الگ بات ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں یہاں پر بھی خانہ پری کرکے ایسے علا قوں سے خواتین کی نامزدگی کرتی ہیں جہاں پرمتعلقہ جماعت کا ووٹ بنک نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ ایک اور صورت بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ اکثر رہنما اپنے گھر کی باصلاحیت لڑکیوں کو اس لیئے بھی نظرانداز کرتے ہیں کہ اس طرح لڑکی کی شادی پرسیاسی وراثت کہیں دوسرے خاندان کے پاس منتقل نہ ہوجائے۔ دوسری طرف یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ مختص سیٹوں پر بھی جماعتوں کے سربراہ اپنے ہی خاندانوں کی خواتین کو نامزد کرتے ہیں تاکہ کابینہ اور سینٹ ممبران کے انتخاب میں سودے بازی گھرکا راز بنی رہے۔ اس وقت ملکی افرادی قوت میں خواتین کی شراکت کا تناسب 22 فیصد ہے جس میں آفیسرز کا تناسب محض 5 فیصدتک ہے۔ اسمبلیوں میں بھی ان کی تعداد 5 فیصد ہی مقرر ہے۔یہ تناسب کسی بھی حوالے سے اپنے ارد گرد کے جمہوری ممالک کے میعار سے مطابقت نہیں رکھتا۔
وقت کا تقاضا ہے کہ خواتین کی تعداد کو اسمبلیوں اور بلدیاتی اداروں میں 25 فی صد تک بڑھایا جائے۔ پاکستان دنیا میں خواتین کی جمہوری اداروں میں نمائندگی کے اعتبار سے 160 ممالک کی فہرست میں سے 112 درجے پر کھڑا ہے۔ جوکہ تشویشناک حد تک عدم مساوات کی نشاندہی کرتا ہے۔
گلوبل جنڈر گیپ کی 2021ءرپورٹ جس کو ورلڈ اکنامک فورم نے شائع کیا ہے۔ اس میں عدم مساوات کا گراف مزید کم ہوکر 55.6 فیصد تک آگیا ہے۔ جس سے پاکستان کی عالمی رینکنگ 2 درجے کم ہوکر یعنی 156 پر آگئی ہے۔اس اعتبار سے ہماری حالت صرف شام،یمن اور افغانستان سے ہی کچھ بہتر ہے۔ یہ رپورٹ مزید بتاتی ہے۔کہ 160 ممالک میں ہماری خواتین کی معاشی عدم مساوات کا درجہ 152, تعلیم میں 144, صحت عامہ 153 اور سیاسی اختیار محض 98پر کھڑا ہے۔اس کو اگر علاقائی زاویے سے پرکھا جائے توجنوب مشرقی ایشیا کے آٹھ ممالک میں ہم افغانستان کو چھوڑ کر آخری نمبر پر کھڑے ہیں۔ کوائف سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کو صنفی عدم مساوات ختم کرنے میں 136 سال لگ جائینگے۔اعداد شمار یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ خواتین معاشی طور پرغیرآسودہ ہیں۔اس غیرآسودگی کی وجہ انصاف کی عدم فراہمی ،جائیداد کی عدم ملکیت اور منافع بخش اثاثوں میں خواتین کی حصہ داری سے انکار ہے۔حتیٰ کہ خواتین کو بنک اکاونٹ رکھنے کی بھی اجازت نہیں ملتی۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وراثت سے انکار خاندانوں کے اندر کی رکاوٹیں ہیں۔ جوکہ ایک سماجی مسئلہ ہے۔ ان سماجی مسائل کی بنیاد خود غرضانہ پدرانہ سوچ کی عکاس ہے جس کی اجازت کوئی مذہب دیتا ہے اور نہ ہی کوئی تہذیب اس انفرادی جرم کی حصہ دار ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق 85 فیصد خواتین کو زندگی میں ایک یا ایک زیادہ بار گھریلو تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔بلوچستان کے کیس میں یہ اعداد مزید تکلیف دہ ہیں۔ قبائیلی طرز معاشرت عورت کی برابری میں ایک مستقل رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ تین دہائیوں سے جاری شورش نے بھی اس میں ہوشربا اضافہ کیا ہے۔ خاص کر گمشدہ افراد کا کرب مائیں، بہنیں،شریک حیات اور بیٹیاں گزشتہ 23 سال سے جھیل رہی ہیں۔
پاکستان بھر کی خواتین میں خواندگی کا تناسب 52 فیصد ہے جبکہ بلوچستان میں یہ گھٹ کر صرف 18 فیصد رہ جاتا ہے۔ باقی پاکستان میں زچگی کے دوران اموات کی شرح ایک لاکھ میں سے 272 ہے جبکہ بلوچستان میں ان اموات کی شرح تین گنا یعنی 758 ہے۔یہ المناک صورت حال اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ بلوچستان میں ناصرف غربت زیادہ ہے بلکہ یہ خطہ اب کئی افریقی اور جنگ زدہ ایشیائی ممالک سے بھی بدتر ہوگیا ہے۔پاکستان میں عموما” 1000 خواتین عزت کے نام سے قتل جیسے بھیانک تشدد کا سامنا کرتی ہیں جوکہ پوری دنیا میں اسطرح کے جرائم کا پانچواں حصہ بنتا ہے۔ان 1000 میں سے لگ بھگ 400 کا تعلق بدقسمتی سے ہمارے صوبے سے ہوتا ہے۔ اس کے پس منظر میں زمین اور دولت ہتھیانے، جبری رشتے کرنے اور قبائیلی رنجشوں جیسے جرائم کو عزت کے لبادے میں چھپایا جاتا ہے۔ عورت کو بلوچستان میں بے پناہ مشکلات کا سامنا ہے۔ 2008 کا باباکوٹ کا واقعہ ابھی تک کسی کو نہیں بھولا۔ابھی حال ہی کا امیراں بی بی ،فرزانہ بی بی اور اس کی 50 سالہ ماں گراناز کے واقعات سب کے سامنے ہیں دونوں واقعات کے تانے بانے سابق اور موجودہ صوبائی وزراکی بداعمالیوں اور جبر و تکبر سے جاملتے ہیں۔ہم حکومت اورانسانی حقوق کی تنظیموں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ قبائیلیت اور نجی جیل جیسے ظلم کے خلاف بہادری سے لڑنے والی اس عظیم شہید امیراں بی بی کو بہادری اور شجاعت کا اعلءترین سول ایوارڈ دیا جائے۔ کل ہی بلوچستان سے متعلق سوشل میڈیاپر ایک پریس کانفرنس چل رہی تھی جس میں ایک انتہائی غریب آدمی فریاد کر رہا تھا کہ خانگی مسئلے پر کسی وڈیرے کے گھر پناہ میں دی گئی، اس کی بیٹی کی واپسی کیلئے متعلقہ وڈیرہ 2 لاکھ جبکہ علاقائی "نواب ” 6 لاکھ مانگ رہا ہے۔گوکہ متعلقہ وڈیرہ اپنی صفائی بیان کررہا تھا مگر اس طرح کے معاملات معاشرے میں وجود رکھتے ہیں۔یہ کئی لاکھوں میں جبری ٹیکس ایک بے بس لڑکی سے مانگنا کونسی تہذیب کا حصہ ہے۔حکومت کو چاہیئے ہر ایک ضلع میں ایسے کیسز کیلئے محفوظ پناہ گاہ بنائے۔اس طرح کے معاملات کو حل کرنے کیلئے متعلقہ ڈپٹی کمیشنر اورسیشن ججز پر مشتمل مصالحتی کمیٹی بناکر 30 دنوں کے اندر نمٹانے کی قانون سازی کرے۔
یہ مسائل اس وقت تک جاری رہینگے جب تک خواتین میں خواندگی کو نہیں بڑھایا جاتا۔اس وقت بلوچستان کی 10 میں سے 7 بچیاں اسکول نہیں پہنچ پارہی ہیں۔ 26 فیصد ملکی افرادی قوت کے مقابلے میں صوبے کی خواتین کا حصہ صرف فیصد 5 ہے۔ وقت سے پہلے شادی کا تناسب 60 فیصد ہے۔ ملک میں تین جوڈیشل قوانین ہیں۔ایک انگریز کا کامن لا ،دوسرا اسلامی شرعی لا اور تیسرا مقامی رواج کا قانون ہے۔دیکھنے میں آیاہے دوسرے دو قوانین صرف خواتین کے حقوق کو زک پہنچانے کے لئے بطور آلہ استعمال کیئے جاتے ہیں۔عام شاہراوں اور ٹریفک سگنلوں پر جوان بچیوں کوگداگری پر لگا دیا گیا ہے۔ ریاستی اہلکار اور افسران انہی راستوں سے گزر کر دفتروں میں پہنچتے ہیں۔مگر کسی کو گداگری جیسے ممنوعہ کام کو روکنے کی فکر نہیں رہی۔
ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ حکومت خواتین کی پہلی جماعت سے لیکر پی ایچ ڈی تک مفت تعلیم اپنے ذمے لے۔
صنفی عدم مساوات کے ان بدترین حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے حوصلے، تدبر، دانائی ،ایمانداری، بیدار زہن اور ولولے بھرے خدا ترس رہنما کی ضرورت ہے وہ اس وقت ممکن ہوگا جب بہتر قانون سازی ہوگی اور اس پر عملدار کیا جاےگا۔ قانون سازی وہ پارٹی کرسکتی ہے جس کو علم، خوف خدا، سنجیدگی اور آج کے تقاضوں کا ادراک ہو۔بدقسمتی تو یہ بھی ہے کہ بلوچستان میں سیاسی ورکروں کو منتخب کرانے کی راہ میں اسٹیبلشمنٹ نے رکاوٹیں کھڑی کر رکھی ہیں۔ یہاں انتخابات سے پہلے ٹھیکیداروں، اسمگلروں، بھتہ گیروں، جاگیرداروں، منشیات فروشوں اور بدنام زمانہ غنڈوں کی خاص مراکز میں لمبی لمبی میٹینگیں کروائی جاتی ہیں۔ وہاں سے فہرستیں تیار ہوتی ہیں پھر انتخابات کی رات کو نتائج کو روک کر ان سماج دشمن عناصر کے سروں پر نمائندگی کا ہما بٹھا دیا جاتا ہے۔ایسے میں یہاں کی خواتین کو عدم مساوات کا” جن” بھگانے میں 136 سال نہیں بلکہ 300 سال بھی لگ سکتے ہیں۔ کچھ نہیں کہاجاسکتا یہاں کی امیراں بی بی اورفرزانہ بی بی خوف کے ڈر سے سہم کر کب تک زندگی گزارنے پر مجبور رہیں گی۔
عورت کے حقوق کا مقصد عورت سے جڑے تمام جبر، عدم مساوات ، بے علمی،وراثت میں حصے اور استحصال کے خلاف آواز اٹھانا ہے۔ وہ ایک ایسے سماج کی تشکیل چاہتی ہیں جہاں انسانوں کے درمیان برابری ہو اور ایک انسان دوست ماحول ہو، جہاں عورتوں کی جبری شادیاں نہ ہوں، ان کا قتل نہ ہو، ان کے خلاف جنسی تشدد اور تیزاب کے حملے نہ ہوں، انہیں کوئی ہراساں نہ کرے۔صنفی استحصال طبقاتی، قومی، اور مذہبی جبر سے جڑا ہوا ہے۔اسی طرح سرمایہ داری، جاگیرداری ، سرداری اور نیم جاگیردارانہ سوچ کے خاتمے کے بغیر عورت کی آزادی ممکن نہیں۔ ماں، بہن، بیٹی سب کی خوشی اور غمی اتنی اہم ہے جتنی گھر کے مرد افراد کی ہے۔ خواتین کی تکلیف اور چہرے کی مایوسی گھر کے پورے ماحول کو متاثر کرتی ہے۔ لہٰذا گھر اور کاروبار کے فیصلوں میں ان کی مشاورت کو شامل کر کے اپنے سمیت ان کے ذہنی اعتماد کو جلا بخشنی چاہیے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں